اہل کشمیر کی جرأت،بہادری کو میراسلام

کشمیر برصغیرجنوبی ایشیاکے انتہائی شمال مغرب میں واقع ہے ۔اس کا محل وقوع وسط ایشیااور جنوبی ایشیاکے درمیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اس کی سرحدیں بھارت،پاکستان ،افغانستان اور چین سے ملتی ہیں اس کے شمال مغرب میں افغانستان اورشمال میں چین کاعلاقہ سنکیانگ ہے ۔مشرق میں تبت اور جنوب میں بھارت کی ریاستیں واقع ہیں۔تنازع کشمیر کی ابتدا1947ء میں برصغیر پاک وہند کی غیر منصفانہ تقسیم سے ہوئی اس تقسیم کے سلسلے میں برطانوی ،بھارتی ،پاکستانی اور کشمیری ارباب بست وکشاد نے بہت سے ایسے اقدامات کیے جنھوں نے کشمیر کے بحران کو جنم دیا۔کشمیر کی حسین و جمیل وادی کوبھارت نے وہاں کے رہنے والے باشندوں کے لیے جہنم زاربنادیاہے۔ مقبوضہ کشمیرکا مسئلہ کشمیریوں کی مجاہدانہ جدوجہدآزادی کی بناپر اس وقت عالمی سطح پرانتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔کشمیری عوام پر بھارت سرکار جو ظلم وستم کئی برسوں سے کرتی آرہی ہے وہ پوری دنیا پر چمکتے دن کی طرح عیاں ہے ،لیکن پھر بھی اہل کشمیر کابھارتی ظلم وستم سہنے کے باوجودبھارتی فوج کے سامنے اپنے حق خودارادیت کے لیے تحریک آزادی کوفروغ دینا اورپاکستان کے حق میں نعرے لگانایہ بہت بڑی جرأت اور بہادری کی بات ہے۔
اب کشمیر کے حل کے بارے میں فریقین کے رویے کو صحیح تناظرمیں دیکھنے کے لیے،پاکستان اور بھارت کی پوزیشنوں میں بنیادی عدم مطابقت کو سمجھنا ضروری ہے۔وہ یہ کہ پاکستان کوبرصغیر تقسیم کے وقت ورثہ میں ایک نہایت ہی کمزور،بکھری ہوئی اورغیر منظم فوج ملی تھی جس کاانحصارزیادہ تربرطانوی افسران پر تھااور انتظامی ڈھانچہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔اس کے برعکس بھارت کو انتظامی اور فوجی لحاظ سے زبردست برتری حاصل تھی۔چنانچہ1948ء کی محدود جنگ میں بھارتی فوج کشمیر کے اکثرحصہ پر قابض ہو گئی اور پاکستانی افواج نسبتاکم اہمیت کے پہاڑی علاقوں کو ہی زیرنگیں لاسکیں۔ابتدامیں الحاق کو محض عارضی قدم قراردیتے ہوئے بھارت نے یہی موقف اپنایا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام ،بین الاقوامی نگرانی میں منعقدہ آزادانہ استصواب رائے سے کریں گے لیکن بعد میں بھارت نے اپنایہ موقف بدل کر کشمیر کو اپنااٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔پھر بھی بھارتی آئین کی 370کے تحت کشمیر کو ایک جدا گانہ حیثیت حاصل رہی ۔دوسری طرف جو علاقہ پاکستان کے پاس تھااس میںآزادکشمیر حکومت تشکیل پائی لیکن عملًا یہ حکومت پاکستان کے ماتحت رہی۔
چونکہ پاکستان کے کار پردازوں کوبھارت پر کبھی اعتماد نہیں رہااور ایک قسم کاخوف بھی طاری رہا،اس لیے انھوں نے کوشش کی کہ کوئی تیسرا فریق مداخلت کر کے مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد دے۔کشمیر کے تنازعہ کی ابتدا میں ہی یعنی 1947ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے جو پاکستان کے پہلے گورنرجنرل تھے ،برطانیہ سے مداخلت کی درخواست کی کہ وہ اس مسئلہ میں مداخلت کرے تاکہ دولت مشترکہ کے ممبر دو ممالک کے درمیان اختلافات طے ہو سکیں۔لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کہ وہ کسی تیسری قوت کی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا اور بھارت چاہتا تھا کہ یہ معاملہ جوں کاتوں رہے۔جو کہ اُس وقت سے لے کر آج تک کشمیر کا معاملہ لٹکاہوا ہے جبکہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کا حل نہیں چاہتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف ایک بھرپور تحریک آزادی برپاہے جس نے بھارتی حکومت کو مکمل طور پرمفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کے جوش اور جذبہ میں حیران کن تبدیلیاں آئی ہیں۔اب کشمیریوں پربھارتی فوج جو کہ اسلحہ سے لیس ہے یعنی پوری قوت سے کشمیریوں پرظلم و ستم کر رہی ہے لیکن پھر بھی کشمیری عوام ان کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سینہ تان کر کھڑے نظر آتے ہیں اور بڑی بے باکی سے یہ اعلان کرر ہے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان ،پاکستان کا مطلب کیا؟لاالہ الااللہ اور اس کااظہار کرتے ہوئے پوری دنیاکے مسلم ممالک کے سربراہان کو جھنجوڑرہے ہیں کہ کون ہے جو ہماری آوازسے آوازملائے اور ہمارے موقف کی تائید کرتے ہوئے ہمارے قدم سے قدم ملاکر ہمارے حوصلوں کو جلابخشے اور ہماری آزادی کے لیے ہمارے اوپر سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو چھوڑا کرہمیں بھی آزادی جیسی عظیم نعمت دلوائے ۔
پانچ فروری کادن کشمیریوں سے اظہار یوم یکجہتی ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم پاکستانی عوام تمام مذہبی ،سیاسی اور تنظیمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کریں تا کہ تحریک آزادی کشمیر مزید مضبوط اور مستحکم ہو اور کشمیر عوام جان لیں کہ پاکستان کا ہر بچہ ،نوجوان اور بوڑھا کشمیر کی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،کیونکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا :کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔میںآخرمیں کشمیر کے باسیوں کو سلام پیش کرتاہوں کہ جو بھارتی ظلم وستم سہنے اور گولیوں کانشانہ بننے کے باوجودپاکستان سے محبت کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے ۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں