کل شادی کی تقریب میں ویٹر نے پوچھا:’’کافی لیں گی آپ یا کشمیری چائے‘‘۔تو دل جانے کیوں عجیب ساہوگیاکہ اب کشمیر سے ہمارا تعلق چائے کلچہ،کشمیری کھانوں اور کشمیر روڈ تک ھی رہ گیا ھے شائد۔۔
پانچ فروری پر وھی ھمیشہ والی باتیں ھوئیں کہ تجدید نو کادن ھے۔۔عزم نو کادن ھے۔۔پاکستانی عوام اور حکومت قدم بقدم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ھیں۔۔جبرواستبداد کی سیاہ رات جلد ختم ھوگی۔آزادی کی روشن درخشندہ صبح طلوع ھونے کوھے۔حریت پسندوں کو سلام پیش کرتے ھیں۔۔بھارت مزید غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا آزادی کے متوالوں کو۔۔وغیرہ وغیرہ
سن نوے میں جب قاضی صاحب نے پہلی بار یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا تو کوئی سوچ بھی نہ سکتاتھاکہ آج اٹھائیس برس بعد بھی ھم یہی باتیں کررھے ھونگے۔
کشمیریوں کا مقدمہ مضبوط ھے مگر اسے لڑنے والے ھم وکیل انتہاء کمزور۔۔ھماری سفارت کاری کمزور،ھماری کمیٹی کمزور،ھماری جدوجہد کمزور،ھماری پشتیبانی کمزور۔
ھاں وہ پھر بھی یہی کہتے ھیں کہ پاکستان ھمارا مستقبل ھے،سید گیلانی جو پیری میں نوجوانوں کے سے جذبے سے نعرے لگواتے ھیں کہ۔۔۔پاکستان سے رشتہ کیا،اس زندگی کی قیمت کیا۔۔۔لاالہ الااللہ
وہ واقعی اس نعرے کا مطلب سمجھتے ھیں لاالہ کی حقانیت ثابت کررھے ھیں جوان سینوں پر گولیاں کھا کر،پیلٹ گنوں سے بینائی کھوکر،عورتوں نے پتھر اٹھالیے جوانوں نے غلیلیں،تازہ رکھے ھوئے ھیں جھاد کو اور آزادی کے چراغ کی لو کو مدھم نہیں ھونے دے رھے۔
ھم روز اخبار میں پڑھ لیتے ھیں اتنے جوان شھید،لاشوں سے چمٹ کر روتے ھوئے معصوم بچے،شھیدوں کی پیشانی کو بوسہ دیتی مائیں،بوڑھے کاندھوں پر جوان لاشہ اٹھائے باپ،بین کرتی بہنیں۔۔ھم نے اک دن وقف کرتودیا یکجہتی کے لیے۔۔اس سے زیادہ کیاکریں؟؟۔
کیاکیا آج یکجہتی کے دن ھم نے۔سارا دن دل پر بوجھ رہاہے کہ آج کا دن تو کشمیریوں کے لیے تھا۔۔کتنوں نے کم ازکم دو رکعات صلوت حاجت ہی پڑھی ھوگی۔کتنی نمازوں کے بعد تڑپ کر دعا مانگی ھوگی کہ مولا وہ چناروں کے اس پار بہنے والا لہو میرے ہی نسلوں کاہے۔مولا وہ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے سینہ کوبی کرتی میری ہی بہنیں بیٹیاں ہیں،مولا طویل ہوگئی ھے ان کی آزمائش کی رات۔۔کتنی آنکھوں سے آنسو کا کوئی قطرہ نکلا ھوگا کہ برھان وانی کا معصوم چہرہ نظروں کے سامنے آیاھو ۔۔۔وھاں برھان اینڈ پارٹی نے نوجوانوں کو پھر متحرک کردیا۔اب عسکریت پسندوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہورہاہے۔۔۔
منان وانی نے اس آزادی کے پرچم کو اور بلند کردیا۔علوم ارضیات کا اسکالر۔۔بھوپال کی عالمی کانفرنس میں اپنی تھیسس پر پہلی پوزیشن لینے والا علی گڑھ یونیورسٹی کا منان حزب المجاھدین کی صف میں شامل ہوگیا ایک پرخطر راستے کا انتخاب کرلیا۔۔وہ اعلی دماغ اچھا کماتا،شادی کرتا،گھر بساتا،یہ کس راستے کا انتخاب کرلیا اس نے؟؟۔میڈیا پر تجزیہ نگار حیران ھیں اس بڑھتے ھوئے عسکری رحجان پر۔۔
آج کے دن چھٹی منانے کے بعد ہم اسی ایک سوال پر غور کرلیں کہ منان وانی جیسے جوان برھان وانی اور اس جیسوں کے راستے پر چل کر ھم سے کیا کہہ رھے ھیں؟۔
ایک خطرناک جاسوسی مجرم کلبھوشن کے لیے بھارتی سفارت کاری کتنے عروج پر ھے..ھم تو بیگناہ آزادی کا حق مانگتے لہو دیتے مقبوضہ کشمیر کے لیے اتنی بھی سفارت کاری نہ کرسکے جتنی وہ ایک ثابت شدہ مجرم کے لیے کررہے ہیں۔۔
ھماری جفاؤں کا بدلہ وہ وفاؤں سے دے رھے ھیں.ان کے شھید آج بھی پاکستانی پرچم میں دفنائے جاتے ھیں،برھان وانی کی قبر پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتاھے۔
ھم اپنے اشعار میں شہادتیں پیش کررھے ھیں،رسمی لفظوں سے خراج تحسین پیش کررھے ھیں،واٹس ایپ پر جہاد کررھے ھیں,ٹوئیٹر ٹرینڈ بنا کر ان کی پیلٹ گنوں کو خاموش کرنے کی سعی کررھے ھیں،بحرحال جو بھی کررھے ھیں نہ کرنے سے بہتر ھی ھے۔۔مگر یہ سب تو ھر سال کرتے ھیں..وھاں نہ مظالم رکتے ھیں نہ شہادتیں۔۔
آج پانچ فروری کا قرض ھے کہ سوچیں کہ ھم کیاکریں؟؟
تو چلیں عہد کرتے ھیں کہ سن اٹھارہ کے الیکشن میں ایسی صادق اور امین قیادت کا انتخاب کریں گے جو پارلمینٹ میں محض کشمیر کمیٹی بناکر فارغ نہ ھوجائے بلکہ کشمیر کی آزادی کا علم اٹھائے اور اس مظلوم ومقہور قوم کی آزادی تک چین سے نہ بیٹھے..
تب ھم چھٹیاں منانے بچوں کو لے کر چناروں کے اس پار جائیں اور کہیں کہ..ھم کہتے تھے ناں کہ..اے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن..ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن۔۔۔
50 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
[…] قائدین کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی پیدا نہ کی تو ممکن ہے کہ مصالحت کنندوں کے دبائو میں آکر وہ بھارت سے مذاکرات […]
Hi! Do you know if they make any plugins to assist with
SEO? I’m trying to get my blog to rank for some targeted keywords but I’m not seeing very good results.
If you know of any please share. Thank you! I saw
similar blog here: Wool product
The decide’s secretary known as San Quentin, however misdialed the number.
sugar defender ingredients
I have actually struggled with blood sugar fluctuations for
years, and it really impacted my power degrees throughout
the day. Considering that starting Sugar Defender, I
really feel more balanced and sharp, and I do not experience those mid-day drops any longer!
I enjoy that it’s a natural remedy that functions without any severe adverse effects.
It’s truly been a game-changer for me
You are so interesting! I don’t believe I have read through a single thing like that before. So good to find another person with genuine thoughts on this subject matter. Really.. thank you for starting this up. This site is something that’s needed on the internet, someone with some originality.
There’s certainly a great deal to learn about this issue. I like all the points you’ve made.
Saved as a favorite, I love your web site.
I could not resist commenting. Exceptionally well written.
After I initially commented I appear to have clicked the -Notify me when new comments are added- checkbox and now whenever a comment is added I get four emails with the same comment. There has to be a way you can remove me from that service? Thanks a lot.
You’re so cool! I don’t believe I’ve truly read through something like that before. So wonderful to find someone with original thoughts on this subject matter. Really.. thank you for starting this up. This site is one thing that is needed on the web, someone with a bit of originality.
This is the right webpage for anybody who really wants to find out about this topic. You know so much its almost hard to argue with you (not that I personally would want to…HaHa). You definitely put a fresh spin on a subject that has been written about for years. Wonderful stuff, just wonderful.
Way cool! Some very valid points! I appreciate you writing this write-up and also the rest of the website is very good.
The next time I read a blog, Hopefully it won’t fail me as much as this particular one. After all, I know it was my choice to read through, nonetheless I genuinely thought you’d have something helpful to say. All I hear is a bunch of moaning about something you could fix if you were not too busy searching for attention.
I’m impressed, I have to admit. Rarely do I come across a blog that’s equally educative and engaging, and let me tell you, you’ve hit the nail on the head. The issue is something that not enough men and women are speaking intelligently about. I am very happy I stumbled across this during my search for something regarding this.
I’m impressed, I have to admit. Seldom do I encounter a blog that’s equally educative and entertaining, and let me tell you, you’ve hit the nail on the head. The issue is something that too few folks are speaking intelligently about. I’m very happy that I came across this in my hunt for something concerning this.
An interesting discussion is definitely worth comment. I believe that you need to publish more on this topic, it may not be a taboo matter but typically people do not speak about such subjects. To the next! Kind regards.
Hi, I do think this is an excellent website. I stumbledupon it 😉 I’m going to revisit once again since I saved as a favorite it. Money and freedom is the greatest way to change, may you be rich and continue to guide other people.
I’m very happy to find this page. I wanted to thank you for ones time for this particularly fantastic read!! I definitely savored every part of it and i also have you saved to fav to check out new information on your blog.
Very nice article. I absolutely appreciate this site. Thanks!
I wanted to thank you for this excellent read!! I absolutely loved every bit of it. I have you bookmarked to check out new things you post…
Hi there! This blog post couldn’t be written any better! Going through this post reminds me of my previous roommate! He always kept preaching about this. I will forward this article to him. Fairly certain he’s going to have a very good read. Many thanks for sharing!
This page definitely has all of the info I wanted concerning this subject and didn’t know who to ask.
I blog quite often and I genuinely appreciate your information. This great article has truly peaked my interest. I’m going to bookmark your site and keep checking for new information about once a week. I opted in for your RSS feed as well.
An intriguing discussion is definitely worth comment. There’s no doubt that that you ought to write more on this subject, it may not be a taboo subject but usually folks don’t speak about these topics. To the next! Best wishes.
When I initially commented I seem to have clicked on the -Notify me when new comments are added- checkbox and from now on each time a comment is added I recieve 4 emails with the exact same comment. There has to be a means you can remove me from that service? Kudos.
This is the perfect blog for anybody who hopes to understand this topic. You realize so much its almost tough to argue with you (not that I really would want to…HaHa). You definitely put a new spin on a subject that has been written about for years. Great stuff, just great.
This website definitely has all of the information and facts I wanted concerning this subject and didn’t know who to ask.
Excellent post! We will be linking to this great content on our website. Keep up the good writing.
bookmarked!!, I really like your web site!
You made some decent points there. I looked on the net to find out more about the issue and found most individuals will go along with your views on this site.
This website was… how do you say it? Relevant!! Finally I have found something that helped me. Thanks!
After looking at a few of the articles on your website, I honestly like your way of blogging. I added it to my bookmark website list and will be checking back in the near future. Take a look at my website as well and let me know what you think.
Having read this I thought it was very informative. I appreciate you taking the time and effort to put this article together. I once again find myself personally spending a significant amount of time both reading and leaving comments. But so what, it was still worthwhile!
I have to thank you for the efforts you’ve put in writing this website. I’m hoping to see the same high-grade content from you in the future as well. In fact, your creative writing abilities has inspired me to get my very own website now 😉
I was able to find good information from your blog posts.
This site definitely has all of the information and facts I wanted about this subject and didn’t know who to ask.
This is a topic that’s near to my heart… Many thanks! Where are your contact details though?
It’s hard to come by experienced people about this subject, however, you sound like you know what you’re talking about! Thanks
Excellent web site you have here.. It’s difficult to find good quality writing like yours these days. I seriously appreciate people like you! Take care!!
Everyone loves it when people get together and share opinions. Great blog, keep it up!
Can I simply say what a relief to find somebody that really knows what they are discussing on the web. You actually understand how to bring a problem to light and make it important. More and more people must check this out and understand this side of your story. I was surprised that you are not more popular given that you certainly possess the gift.
Good post. I learn something totally new and challenging on sites I stumbleupon everyday. It’s always exciting to read content from other writers and practice a little something from their web sites.
Spot on with this write-up, I actually believe that this web site needs a great deal more attention. I’ll probably be returning to read through more, thanks for the advice!
There is definately a lot to find out about this topic. I like all the points you made.
A motivating discussion is definitely worth comment. I do believe that you need to publish more on this subject matter, it might not be a taboo matter but usually people don’t discuss these issues. To the next! Many thanks!
This site was… how do you say it? Relevant!! Finally I have found something that helped me. Cheers!
This page truly has all of the information I needed concerning this subject and didn’t know who to ask.
I love reading through an article that can make men and women think. Also, many thanks for allowing me to comment.
You’ve made some good points there. I checked on the internet for more info about the issue and found most people will go along with your views on this site.
I was able to find good info from your blog posts.