روایتی انداز میں نیا کھیل 

وطن عزیز کا سیاسی درجہ حرارت خاصا گرم ہے جبکہ اندرونی و بیرونی سازشیں بھی اپنے عروج پر ہیں۔ ایک طرف امریکا آنکھیں دکھا رہا ہے دہشت گردی کے خلاف استعمال ہونے والی دی گئی رقم کا حساب مانگ رہا اور سیکورٹی کی مد میں مزید رقم بند کا بھی کہہ دیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کی اس پرائی جنگ میں امریکا کا اتحادی بن کر امریکا کی طرف سے ملنے والی مالی امداد کے بدلے میں اپنی ہی سرزمین کو اپنے ہی لوگوں کے خون سے سرخ کر دیا۔ اس سے زیادہ بھلا کوئی کیا کر سکتا ہے؟ مگر امریکا کو صرف اپنی رقم اور امداد کا گھمنڈ ہے جبکہ پاکستان کی لہو سے سرخ زمین دکھائی نہیں دے رہی۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں پاکستان کو اتحادی بن کر دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا جبکہ امریکا کی اپنی سرزمین تو نائین الیون کے واقعے کے بعد کسی بھی قسم کے خون خرابے سے پاک ہی رہی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میدان تو پاک وطن کی پاک سرزمین ہی بنی۔ امریکا تو میلوں دور بیٹھ کر اپنے مفاد کے مطابق ہی کھیلتا رہا۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان جنرل آصف غفور نے پچھلے دنوں امریکا کو بالکل صحیح انداز میں جواب دیا کہ پاکستان اب مزید کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا اب صرف وہی کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔ ابھی جو سیاستدان امریکا کے خلاف بیان دے کر بڑھکیں مار رہے ہیں وہ ذرا ماضی میں بھی جھانک لیں کہ نائین الیون کے بعد جب مشرف نے افغانستان میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان کو اس جنگ میں امریکا کا اتحادی بنا کر پرائی جنگ کو اپنی سرزمین پر منتقل کیا تو آپ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے مشرف کے اس اقدام کی بھرپور حمایت میں بیان دیئے تھے۔
حافظ سعید اور حقانی گروپ امریکا کے لیے نہ تو کوئی مسئلہ ہیں اور نہ ہی خطرہ بلکہ امریکا کے پیٹ میں مروڑ پڑنے کی اصل وجوہات پاکستان کی جوہری توانائی اور سی پیک ہے۔ امریکا پاکستان کو سیاسی طور پر غیرمستحکم اور مذہبی تفرقہ بازی کی طرف دھکیل کر اپنے پیٹ میں پڑنے والے مروڑوں سے افاقہ چاہتا ہے۔ پاکستان کو اندرونی خطرات سے دوچار کر کے امریکا، ہندوستان اور اسرائیل اپنی بیرونی سازشوں کا کھیل مہارت سے کھیل رہے ہیں۔ ترکی پاکستان کا برادرانہ دوست ملک ہے جس نے پاکستان کا ہر مشکل اور کڑے وقت میں ہمیشہ ساتھ نبھایا ہے۔ پچھلے دنوں ترکی کے صدر طیب اردگان نے پاکستان کے خلاف امریکا کی اسی بیرونی سازش کی بو سونگھ کر پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ امریکا عراق اور شام کی طرح پاکستان میں بھی تفرقہ بازی کے ذریعے عدم استحکام چاہتا ہے۔
پچھلے چند مہینوں سے وطن عزیز جس طرح سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اس سے ملک کی معیشت اور زرمبادلہ کے ذخائر جس تیزی سے تنزلی کی طرف گامزن ہیں اگر یہ اس طرح رہے تو یقیناًاس سے اندرونی طور پر پاکستان کو کمزور کرنے کی طرف بیرونی سازش کو تقویت ملے گی۔ اب تو وطن عزیز کے تاجروں اور سرمایہ کاروں نے بھی ہاتھ کھڑے کرنا شروع کر دیے ہیں کہ ان کی بس ہوگئی ہے۔
۔2018ء انتخابات کا سال ہے، 2013ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں صرف چند ہی ماہ رہ گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اب کسی بھی غیر جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کے خواب دیکھنے سے باز رہتیں، منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد کروانے کا راستہ دیتیں اور تمام سازشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں آئندہ انتخابات پر مرکوز رکھتیں مگر بدقسمتی سے ابھی تک ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت سیاسی نا پختگی کا عملی ثبوت ہی پیش کر رہی ہے۔ قادری و کپتان بشمول چودھری برادران و شیخ رشید تو صرف پریشر قائم رکھنے کا بہانہ ہیں اصل ٹیم تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی ہونی ہے جس نے آئندہ انتخابات کے بعد اقتدار کی غلام گردشوں میں ہے۔ ویسے بڑے میاں جدہ سے واپس آکر لگتا ہے سب اچھا ہے کی خبر ہی لے کے آئے ہیں۔
بڑے میاں کھل کر اپوزیشن کریں کوئی پوچھ پریت نہیں ہونے والی جبکہ چھوٹے میاں اقتدار کی بڑی کرسی سنبھالنے کی تیاری پکڑیں۔ بڑے میاں کی صاحبزادی بھی تو کھل کر ایسے تو نہیں بول رہی۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری بھی تو کرنی ہے نہ۔ اس بار روائتی انداز میں کچھ نیا کھیل کھیلنے کی تیاری لگتی ہے۔ جن میں بھٹو کی روح آ گئی ہے وہ بھی امید سے ہیں کہ قرعہ ان کا بھی نکل سکتا ہے۔ اگلے دوسری آپشن پلان بی بھی تو رکھا کرتے ہیں۔ سندھ سے میدان پیپلز پارٹی نے ہی مارنا ہے، کے پی کے ویسے ہر بار کچھ نیا کرتا ہے تو اس بار بھی جو نیا ہوگا اس میں اے این پی، جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان کے چانسز ہیں جن کو پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں لایا جا سکتا ہے، بلوچستان سے کسی کی واضح اکثریت ہوگی نہیں، باقی بچ گیا پنجاب تو پنجاب میں مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور مذہبی ووٹوں کی تقسیم ہو جائیگی اور پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے اپنا حصہ لے لی گی تو پیپلز پارٹی کی امید بھر سکتی ہے۔
دونوں کو امید جبکہ باقی والے ریلو کٹے کی فہرست میں ہی رہیں گے۔ ان کو ویسے بھی پیرنی مل گئی ہے وہ مریدی میں ہی اگلا وقت گزاریں تو اچھا ہے۔ کسی کی قسمت میں 3 بار وزارت عظمی تو کسی کی قسمت میں شائد 3 بار گھوڑی چڑھنا ہی لکھا گیا ہے۔ کرسی نصیب میں نہیں شائد تو بیڈ ہی مقدر ٹھہرا۔ خیر بڑے میاں، چھوٹے میاں اور کپتان اس معاملے میں ایک جیسے ہی ہیں کہ تینوں نے اپنے عشق کے چکروں میں بستے گھر اجاڑے، قوم کی حفاظت کیا کریں گے۔ وطن عزیز کی سلامتی اور خوشحالی کی دعاوں کے ساتھ حبیب جالب کا شعر حاضر خدمت ہے۔
حال اب تک وہی ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

حصہ

جواب چھوڑ دیں