ہم اپنے بچوں کو کیا بنائیں

’’ن ۔قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں ۔تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو ۔اور یقیناً تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ۔اور بے شک تم خُلق ِ عظیم (یعنی اخلاق کے بڑے مرتبے ) پر فائز ہو (سورہ  ن و القلم ۔۶۸)‘‘

ان آیات ربانی کے حوالے سے ہم بلا تمہید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے بچوں کو انسان بنانا چاہیے ۔اِس آدم زاد یا آدمی کا انسان ہونا مشکل ضرور ہے لیکن ،ناممکن نہیں ۔ مشکل تو اس لیے ہے کہ ’’عدوِّ مبین ‘‘ ۔۔۔کھلا ہوا دشمن ۔۔۔ہر دم ہر آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔لیکن ، ممکن یوں ہے کہ ’’ہدایت بھی گم رہی سے الگ کی جا چکی ہے (قَد تَبَیَّن َا لرُشدُ مِن َا لغیّ )اور سیدھے راستے’’صراط مستقیم کی طرف رہ نمائی ہو چکی ہے (اِنّا ھَدَینا ہُ ا لسَّبِیل ) ۔

اب یہ آدمیوں کا کام ہے کہ وہ اس رُشد و ہدایت کے مطابق سیدھے راستے پر چل کر خود بھی انسان بنیں اور اپنے بچوں کو بھی  سب سے پہلے انسان بنائیں ۔ایک نیک اور سچا انسان ۔ اس کے بعد وہ کریر (CURRIER )کے اعتبار سے کسی مخصوص میدان ِ علم یا میدان ِ عمل میںتَخَصُّص یا اِختِصاص (SPECIALIZATION )کے اعتبار سے خواہ کچھ بھی بنیں اور کسی بھی اعلیٰ منصب تک پہنچیں،وہ انسانیت کے لیے مفید اور نافع ،فائدہ مند اور نفع بخش رہیں گے ۔

اور اگر ہم نے اپنے بچوں کو ’انسان ‘ بنانے کے بجائے ، بلکہ یوں کہیں کہ اُنہیں انسان بنانے پر اپنی اولین ،بنیادی اور زیادہ توجہ صرف کرنے کے بجائے ،ابتدا ہی سے اُنہیں محض ایک ڈاکٹر ،انجینیر ،انفارمیشن سائنٹسٹ یا بایو ٹکنالوجسٹ بنانے پر اپنی توجہ صرف کر دی تو وہ حصول دنیا کی اندھی دوڑ (RAT RACE )کے قومی دھارے میں بھلے ہی شامل ہوجائیں ،وہ فی ا لواقع انسانیت کے خادم بننے کے بجائے اپنے نفس  کے غلام اور اپنے شکم کےبندے بن کر رہ جائیں گے جیسا کہ آپ اور ہم سب اپنے چاروں طرف آج دیکھ رہے ہیں !

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ڈاکٹر کلب صادق نے لکھنؤ میں یونٹی کالج کے نام سے  مخلوط تعلیم والی  ایک درسگاہ قائم کر رکھی ہے ۔ یہ ۹۴۔۱۹۹۳کی بات ہے  ، اُس کے سالانہ جلسہ تقسیم انعامات میں  مشہور آریہ سماجی لیڈر  سوامی اگنی ویش مہمان خصوصی تھے ۔ خود مولانا کلب صادق کے علاوہ وہاں متعدد علمائے کرام اور نماہرین تعلیم بھی رَونَق اَفرُوزِ  مَحفِل تھے ۔

تقریروں کے ایک طویل سلسلے کے بعد آخر میں جب سوامی  جی کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ:

’’مجھے افسوس ہے کہ جو باتیں میں آپ سے  سننا چاہتا تھا اُنہیں کہنے کا فریضہ مجھے ادا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ’’کہتے ہیں کہ ماننیہ پردھان منتری جی سترہ بھاشاؤں کے گیانی ہیں (اُس وقت نرسمہا راؤ وزیر اعظم تھے ) لیکن گیان کا یہ اَنبار اُنہیں ایک اچھا انسان نہیں بنا سکا ۔ اُن پر بد عنوانی کے گھور الزام بھی لگے (اُن کا اشارہ بدنام زمانہ اسٹاک بروکر ہرشد مہتہ ایپی سوڈ کی طرف تھا  جس نے پانچ ہزار کروڑ روپئے کا اسٹاک اکسچینج گھوٹالہ کیا تھا اور اس کے لیے وزیر اعظم راؤ کو  ایک سوٹ کیس میں بھر کے ایک  کروڑ روپئے بطور رشوت دینے کا الزام لگایا تھا )اور وہ اپنے راج دھرم کا پالن بھی نہیں کر سکے (ظاہر ہے کہ ان کا مطلب  ملک کے سربراہ کی حیثیت سے  بابری مسجد جیسی راشٹریہ دھروہر کو مسماری سے بچانے میں پوری طرح ناکام رہنے سے تھا ) ۔تو میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر وِنتی کرتا ہوں کہ آپ اپنے  نونہالوں کو ایک اچھا انسان اَوَشیہ (ضرور ) بنائیں ورنہ سارا گیان دھرے کا دھرا رہ جائے گا ‘‘ ۔

نٹھاری نوئڈا کا جنسی جنونی (۶۔۲۰۰۵)آدم خور شیطان مونندر سنگھ پنڈھیر بھی جاہل نہیں ، ملک کی بہترین عصری تعلیم گاہوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بندہ تھا  لیکن وہ اعلیٰ تعلیم اُس کے کسی کام نہ آئی  بلکہ اس نے اپنے اُسی ’اِسٹیٹس ‘کو اپنی شیطنت کا پردہ بنارکھا تھا ۔

دراصل موجودہ نظام تعلیم میں سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ وہ نہ صرف خالص مادّی اور سیکولر ہے بلکہ اس نے تعلیم کو دانش رُخی WISDOM ORIENTEDاور کردار رُخی CHARACTER ORIENTEDکے بجائے محض ملازمت رُخی JOB ORIENTEDاورسماجی معیار رُخی STANDARD OF LIVING ORIENTEDبنا دیا ہے اور کردار سازی کے بجائے کریر سازی عصری تعلیم کی ’معراج ‘ قرار پائی ہے ۔ تعلیم بھی اب تعلیم نہیں رہی ۔وہ محض ’معلومات کا مجموعہ ‘بن کے رہ گئی ہے اور معلومات نے بھی اب ٹکنالوجی کا درجہ حاصل کر لیا ہے ۔دانش اور WISDOM

سے موجودہ تعلیم کا سروکار برائے نام ہی رہ گیا ہے ۔پچھلے بیس پچیس برسوں سے ملک میں تعلیم کا شور تو بہت ہے لیکن سچ پوچھیے تو اس نے فائدے کے بجائے نقصان ہی پہنچایا ہے ۔ کیونکہ جب تک تعلیم کی نوعیت ،اہمیت اورمقصد متعین نہ ہو ، یعنی تعلیم کیسی ہواور تعلیم کیوں ہو ؟ یہ ہمیں نہ معلوم ہوتو ہم اپنے بچوں کو معلومات Information سے پُر ’مادّی  یا حیوانی مشین ‘ تو بنا سکتے ہیں،جاب اور کریر کی گارنٹی تو فراہم کر سکتے ہیں  لیکن ،حیات و کائنات  کے مقصد سے واقف انسان نہیں بنا سکتے۔

پروفیسر سید محمد سلیم اپنی کتاب ’مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ ‘میں لکھتے ہیں (ص۹)کہ ’’۔۔نظام تعلیم کوئی ایسی شے نہیں جو اچانک آسمان سے نازل ہوتی ہو ،نہ  وہ ہوا یا خلا میں تشکیل پاتا ہے اور نہ وہ کوئی ایسی مشین ہے جس کو ہر جگہ اور ہر مقام پر فٹ کیا جا سکے ۔ نظام تعلیم کی جڑیں گہری ہوتی ہیں ۔ وہ معاشرے کے بنیادی افکار میں پیوست ہوتی ہیں ۔ کسی معاشرے میں وہی نظام تعلیم پروان چڑھ سکتا ہے اور فروغ پا سکتا ہے جو معاشرے کی اجتماعی ذہنیت سے کامل ہم آہنگی رکھتا ہو ۔ اگر یہ ہم آہنگی مفقود ہو تو پھر نظام تعلیم کے نتیجے میں اس معاشرے کے اندر تضاد اور انتشار رونما ہو جائے گا ۔ جس کے بعد اس معاشرے کا ایک ایک فرد انتشار ِ ذہنی اور عملی گم راہی کی نذر ہو کر رہ جاتا ہے ۔ جب ذہنی یکسوئی مفقود ہو تو عملی قویٰ مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ اس صورت میں (رائج یا مسلط کردہ ) نظام تعلیم معاشرے میں  تقویت کا موجب بننے کے بجائے اضمحلال اور انتشار کا ذریعہ بن جاتا ہے ‘‘۔جیسا کہ آج ہم اپنے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں ۔

 ہمارے رسول ﷺ فداہ اُمی و َ اَبی تو خود ایک معلم تھے جو دنیا میں بھیجے ہی اس لیے گئے تھے کہ تمام بنی آدم کو کتاب اور حکمت Wisdomکی تعلیم دیں اور اُن کا تزکیہ کریں یعنی اُنہیں عدو مبین کی لائی اور پھیلائی ہوئی گندگیوں سے پاک کریں !

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں