’’انسانی اسمگلنگ کا المیہ‘‘

ایک چار سالہ افغان بچی کو فرانس سے برطانیہ اسمگل کرنے کی کوشش میں سابق برطانوی فوجی ’’رب نوری ‘‘ کو عدالت نے پانچ برس قید، اور تقریباََ تیس ہزار یورو کی سزا دی ہے۔افغان بچی ’’ بہار احمدی ‘‘ فرانس کے ’’کیلے ‘‘ مہاجر کیمپ سے تعلق رکھتی ہے ،اور اسے فوجی کی گاڑی کی ڈگی سے برآمد کیا گیا۔
انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ قیامت سے کم نہیں۔خاص طور پہ بچوں کی غیر قانونی ٹریفکنگ نے احترام انسانیت کو بہت مجروح کیا ہے۔انسانی استحصال کے پس منظر میں تمام معاندانہ ، مخالفانہ ،اور دشمنانہ سازشیں کار فرما ہیں ۔ان کے آگے سد سکندری قائم کرنا بے حد لازم ہے ۔اگر ہم غیر قانونی نقل وحمل کی تعریف ’’ اینٹی یونٹ ٹریفکنگ آرڈینینس مجریہ 2002 ‘‘ میں پڑھیں تو،یہ قانون انسانی نقل و حمل کے تمام راستوں کا احاطہ کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔یعنی ایسے ذی روح کا حصول ممکن بنانا ،جس میں اس کی صریح منشا ،یا اخذ کردہ مرضی شامل نہ ہوغیرقانونی ہے۔اس کی خرید وفروخت کرنا، لالچ دے کر یا اغوا کرکے، یا کسی بھی دوسرے ذرائع سے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے اسے حصہ دار بنانا ،غیر قانونی انسانی نقل وحمل کے جرائم میں شامل ہوتا ہے۔
انسانی اسمگلنگ میں ملوث بے ضمیر افرادکے گرد جب گھیرا تنگ کیا گیا تو 7300 مجرم گرفتار ہوئے۔غیرقانونی انسانی نقل و حمل کی وارداتوں میں صوبہ پنجاب سے 3349 ، خیبرپختونخواہ سے 140 ، سندھ سے 181 ،اور بلوچستان سے 349 بے حس و شقی القلب مجرموں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ان میں سے 3334 پہ سنگین مقدمات درج کیے گیے۔انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بننے والے متاثرہ افراد میں سے اکثر ،یا تو بے روزگاری سے تنگ ہوتے ہیں ، یا بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجایے غیر قانونی طریقہ سے یورپ جانے کی کوشش میں ان بھیڑیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایشائی ممالک میں غربت کی شرح وسیع پیمانے پہ احاطہ کیے ہویے ہے۔یہی وجہ ہے کہ سادہ لوح محنت کش عادی مجرموں اور منظم گروہوں کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں۔صوبہ پنجاب میں وارداتوں کادائرہ بہاولپور ، رحیم یار خان ، ڈیرہ اسماعیل خان ، اور سند ھ میں حیدرآباد اور سکھر تک پھیلا ہوا ہے ۔
انسانی اسمگلنگ کی بدترین شکل یہ ہے کہ انتہائی غریب گھروں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بچوں کو جعلی دستاویزات کے ذریعے عرب ممالک اسمگل کیا جاتا ہے ۔پاک ایران سرحد پہ ہونے والی یہ نقل وحمل مجوزہ امیگریشن چیک پوسٹ ،پاسپورٹ سرکل کے افسروں کے ملی بھگت کے بغیر ناممکن ہے۔ایسے میں کئی نادار اور ضرورت مندوں کا استحصال کیاجاتا ہے۔اور انہیں ذہنی و جسمانی اذیت دی جاتی ہے۔2003 تا 2005 اینٹی ٹریفکنگ نے مجرموں کے خلاف 747 انکوئیریاں کیں تھیں ، اور اسی دوران 850 مقدمات بھی درج کیے تھے ۔جن میں سے 642 مجرموں کو حراست میں لینے کے بعد ان کے مقدمات اعلیٰ عدالتوں کو بھجوایے گیے تھے ، اور 74 کو کیفرکردار تک بھی پہنچایا گیا تھا ۔باقی کیسس ابھی تک زیر سماعت ہیں ، ان کا للہ ہی حافظ ہے۔
انسانی اسمگلنگ کا شکار افراد کا تحفظ ، ان سے بچاؤ کی آگاہی مہم کے ساتھ، تفتیش کاروں کو ان کے فرائض منصبی میں حق گوئی و سچائی سے شناسائی کا درس دینا چاہیے۔اس کے لیے اسمگلروں ، ان کے دست راستوں آلہ کاروں کی فہرست بنا کر صوبائی و وفاقی انتظامیہ سے بھی روابط ہموار کرنا بے حد لازم ہے ۔عوام میں اس بات کا شعور ایک ناگزیر مسلہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد پھیلے ان ناسوروں سے اور اپنی احاطہ زندگی میں اینٹی ٹریفکنگ کے یونٹوں ، اور شہری دفتروں سے معلومات کس طرح لیں۔کراچی ، لاہور ، راولپنڈی ، پشاور ، کوئٹہ میں قائم ایف آئی اے کے ذیلی سیل ،اور زونل دفاتر سے آگاہی پمفلٹ لے کر پڑھیں ،اور چھپے ہویے درندوں سے خود بھی بچیں اپنے پیاروں کو بھی بچائیں۔
چھوٹے بچوں کو یو اے ای اسمگل کرنے کا طریقہ واردات اور راستہ ایک ہی ہے ،اور وہ ہے براستہ ایران ۔جہاں کم سن بچوں کی ٹریفکنگ کرکے انہیں اونٹ دوڑ میں شامل کرکے ان معصوم پھولوں کی زندگیوں کا جوا کھیلا جاتا ہے۔ایسے میں یواے ای حکومت کا قابل تحسین عمل یہ ہے کہ بچوں کی اونٹ سواری کے لیے بچے کا وزن 45 کلو گرام، اور عمر 14 سال ہونا لاز م قرار دے دیا گیا ہے۔اس قانون کے اطلاق کے بعد تقریباََ 180 افراد کو یواے ای بدر کیاگیا ۔یاد رہے کہ اونٹ دوڑ میں خصوصی ایسے بچے پسند کیے جاتے ہیں، جن کی عمریں 8 سے 10 کے درمیان ہوں،اور وزن انتہائی کم ہو۔اس لیے حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی انسانی نقل وحمل پہ خاص زور دے۔کوسٹ گارڈ ،سول انتظامیہ ،پولیس لیویز کے اشتراک کو مضبوط کرے ،اور اس سلسلے میں ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے کی سربراہی میں ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لائے تاکہ مفلوک الحال عوام اور معصوم بچوں کی غیر قانونی ٹریفکنگ کو روک کر ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جاسکے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں