کاش کہ اب مجرموں کو نشان عبرت بنایا جائے

بابابلھے شاہ کی دھرتی صوبہ پنجاب کے شہرقصورمیں ایک ننھی منی پھولوں جیسی کمسن بچی زینب ہمیشہ کے لیے گلستان میں مرجھا گئی۔جیسے ہی یہ انسانیت سوز اوردل دہلا دینے والاواقعہ میں نے سنا تو دل بہت پریشان وغمگین ہوااور طبیعت بوجھل سی ہو گئی،اس سانحہ سے صرف میں ہی پریشان نہیں ہوابلکہ ا س افسوس ناک درندگی سے پوری انسانیت اورجتنے بھی والدین ہیں سبھی پریشان ہوئے ہیں کہ محمد امین انصاری کی لخت جگر زینب کو اغواکیااورپھر اس کمسن ،معصوم بچی سے درندگی کی گئی اور پھربعد میں بڑی بے دردی سے قتل کر کے ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلادیا ۔اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے؟ کہ کمسن معصوم سے درندگی کی گئی،یہاں پر میں سوچتا ہوں کہ آسمان کیوں نہیں پھٹ پڑا ؟زمین کیوں نہیں لرزگئی ؟جب ایسی بے ہودہ اور ناقابل بیان حرکات کی گئیں۔یہ واقعہ شہر قصور میں کوئی پہلا نہیں تھا بلکہ ایسے سنگین واقعات اس شہرمیں پہلے بھی ہو چکے ہیں اور پورے ملک میں ناجانے کتنے ہی والدین ایسے ہوں گے جن کے بچے اس طرح کے سفاک درندوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے اپنے والدین سے بچھڑ گئے ۔کاش کہ ان جیسے گھناؤنے اورقبیح جرائم میں ملوث افراد کو نشان عبرت کے لیے اورایسے سنگین واقعات کی روک تھام کے لیے سرعام درندوں کو سزائیں دی جاتیں تاکہ کوئی بھی ایسے قبیح کام کا کرنا توبہت دور کی بات ہے بلکہ کوئی سوچ بھی ناسکتا۔
جب شہر قصور میں یہ گھناؤناواقعہ پیش آیاتو وزیر اعلی محمدشہبازشریف صاحب نے اس افسوس ناک واقعہ کاازخودنوٹس لیا اورپرُزور مذمت کرتے ہوئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی تاکہ اس واقعہ کی تحقیقات کر کے رپوٹ جلد سے جلدپیش کی جائے اور اس قبیح فعل کرنے والے کوگرفتار کر کے قرار واقعی سزادی جائے۔گزشتہ روزرانامشہود صاحب پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر اعلی پنجاب شہبازشریف صاحب ذاتی طور پر شہر قصور کی انتظامیہ سے رابطے میں ہیں اور اس قبیح جرم میں ملوث ہونے والے کوکیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ اسی طرح جماعۃالدعوۃپاکستان کے امیرپروفیسر حافظ محمد سعیدصاحب نے بھی اپنے ایک بیان میں قصور کے انسانیت سوز سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ملوث درندے کو گرفتار کرکے ایسی سخت سزا دی جائے کہ آئندہ کسی کوایسی قبیح حرکت کی جرات نہ ہواورانہوں نے مزیدکہاکہ جب تک ایسے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں نہیں دی جاتیں اس وقت تک معاشرے میں ایسے سنگین واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔یہ یقینی بات ہے جب تک سنگین اور گھناؤنے جرم میں ملوث افرادکو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا اس وقت تک معاشرے میں امن و امان نہیں ہوسکتا۔کاش !کہ ایسے سفاک مجرموں کونشان عبرت بنایا ہوتا تو قصور والایہ واقعہ پیش نہ آتااور محمد امین انصاری کے گھر میں غمگینی اورپریشانی کاعالم نہ ہوتا۔ الغرض تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس افسوس ناک اور قبیح فعل کی پرُزور مذمت کی اور حکومت وقت سے یہ مطالبہ کیاکہ اس واقعے کے مجرم کوگرفتارکیاجائے اورسرعام سزادی جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیامذمتی بیانات سے ہی کام چل جائے گا؟جیسا کہ ماضی میں بھی ایسے قبیح واقعات ہوئے اور مذمتی بیانات دیے گئے اورسزاؤں کی باتیں کی گئی اور کچھ ہی عرصے بعد خاموشیاں چھا گئی جیسے کچھ ہواہی نہیں تھا۔ اور کیا کمسن زینب کامعاملہ بھی صرف مذمتی بیانات کی حدتک رہے گا یا مجرم کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزادی جائے گی؟ اب کیاہوگایہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں