زندگی سب سے بڑا امتحان ہو تی ہے زندگی میں آنے والے امتحانات سے نبرد آزما ہونے کے لئے بچوں کو اوائل عمر سے ہی تیار کیا جا تا ہے اس کام میں والدین ،افراد خاندان ،ماحول ،مدرسہ ،اساتذہ اور خود بچہ کا ادراک اس کی رہبری کر تا ہے۔مدارس اور جامعات اپنے نصاب کی تکمیل کے لئے ایک معین منصوبہ بند ی پر کاربند رہتے ہیں اور حکومت کے وضع کردہ منصوبوں کے تحت اساتذہ کو بچوں کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کر نا ہو تا ہے۔یہ ادارے سال بھر انجام دئیے جانے والے تعلیم افعال کے ذریعہ طلبہ میں پیدا ہو نے والی مثبت تبدیلیوں کی جا نچ کے لئے امتحانات کا انعقاد عمل میں لاتے ہیں ۔ان امتحانات میں طلبہ کی کارکردگی کی بناء پر ان کو کامیا ب یا پھر ناکام قرار دیا جا تا ہے۔امتحانا ت کی تیاری کے دوران طلبہ یک صبر آزما دور سے گزر تے ہیں ۔اس دوران اکثر طلبہ اور اولیا ئے طلبہ کی صرف تعلیم پر توجہ مرکوز رہتی ہے اور دیگر امور جو کہ نہا یت اہمیت کے حامل ہو تے ہیں ان کو وہ نظر انداز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے بہترین تیاری کے باوجود طلبہ کے نتائج حسب توقع نہیں آ تے۔امتحان میں اچھے گریڈ اور اچھے نشانات کا حصول اور امتحان میں بہتر کارکردگی کا راست تعلق طلبہ کی جسمانی صحت سے ہوتا ہے۔یہ ایک نا قا بل فرا موش حقیقت ہے کہ اکثر طلبہ امتحانا ت کی تیاری کے دوران اپنی جسمانی صحت کو یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی صحت امتحانات کے وقت مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے جس سے امتحانات میں ان کی کارکردگی حد درجہ متا ثر ہو جا تی ہے۔امتحانا ت کی تیاری کے دوران چند بنیادی عناصر پر عمل کر تے ہوئے جسمانی صحت کو بہتر رکھا جا سکتا ہے ۔اس مضمون کے ذریعہ ان امور کا احا طہ کیا گیا ہے جن پر عمل کر تے ہوئے طلبہ آسانی سے اورکم سے کم وقت میں اپنی صحت کو بر قرار رکھتے ہوئے امتحان کی تیاری کو سر انجام دے سکتے ہیں۔امتحا ن کی تیاری کے دوران جسم کے مختلف اعضاء پر ایک مسلسل دباؤ ہو تا ہے خاص طو رپر امتحان کی آمد سے عین قبل جسم کے بعض مخصوص اعضاء جیسے کمر کا نچلا حصہ (lower back)،ریڑھ کی ہڈی (spine )، کندھے (shoulders)،گردن(Neck)،آنکھیں(eyes)،انگلیاں(fingers)،کلائی(Wrist)اور کہنی (elbow) وغیرہ پر شدید دباؤ پڑتا ہے اور اس دباؤ کا مناسب انداز میں سامنا نہ کر نے کی وجہ سے بچوں کی صحت امتحا ن سے قبل متا ثر ہو جا تی ہے جس سے طلبہ کو نا قا بل تلا فی نقصان کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔مذکورہ اعضاء کی دن میں ایک یا دو مر تبہ ورزش صحت کی بر قرار اور دباؤ سے نجات میں ممد و معاون ہو تی ہے۔ان معین اوقات کے علاوہ طلبہ جب کبھی امتحان کی تیاری کے دوران ان اعضاء پر کسی بھی قسم کا تناؤ یا دباؤ محسوس کر یں فورا بیان کردہ ورزش کے ذریعہ دباؤ اور تکلیف سے نجات حا صل کر سکتے ہیں۔روز انہ کی جا نے والے ورزش کے لئے امتحان کی تیاری کے دنوں میں وقت نکالنا نہا یت مشکل ہو تا ہے۔امتحانات کی تیاری میں ایک ایک لمحہ اہمیت کا حامل ہو تا ہے اسی لئے اگر روز انہ کر نے والی کثرت چھوٹ بھی جا ئے تو مذکو رہ ہر ایک عضو کی ورزش انفرادی طو ر پر جب بھی ضرورت در پیش ہو کر لی جا ئے تا کہ جسم تر و تا زہ اور تھکان کا شکار نہ ہونے پا ئے اور مطالعہ کو انہماک و دلچسپی سے انجام دیا جا سکے۔اوپر بیان کردہ تمام اعضاء کی ورزش کا کام صرف پندرہ منٹ کے وقفہ میں انجام دیا جا سکتا ہے۔اس کا م کو طلبہ اپنے امتحان کی تیاری کے قیمتی وقت میں حائل ایک رکاوٹ اور وقت کا زیا ں نہ سمجھیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ورزش انسان کو چاق و چو بند رکھنے کے علاوہ یاداشت کو بہتر ،انہماک و یکسوئی کو فروغ ،انجذاب و اکتساب کو پروان چڑھا تی ہے اور ان سب سے بڑھ کر جسمانی و ذہنی تھکا وٹ سے نجات دلا تی ہے جو کہ اکثر مطالعہ اور امتحان کی تیاری کے مو قع پر معذوری یا رکاوٹ کا پیش خیمہ ثابت ہو تی ہے۔ بین ا لسطور اس طریقہء کار پر روشنی ڈالی گئی ہیجو مخصوص اعضاء پر دباؤ کے وقت ورزش کے ذریعہ توانائی اور تر و تازگی اور فرحت کے احساس و حصول کو ممکن بناتا ہے۔
کمر کا نچلاحصہ اور ریڑھ کی ہڈی:
اکثر مطالعہ کے دوران طلبہ کو لکھنے اور پڑھنے کے لئے آگے پیچھے جھکنا پڑتا ہے جس سے کمر کے نچلے حصے اور ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ پڑتا ہے۔دباؤ کو رفع کر نے کے لئے سیدھے کھڑے ہو تے ہوئے اپنی کمر کو دونوں ہا تھو ں سے تھام کر آگے اور پیچھے کی جا نب جھکیں اور اٹھیں۔یا د رہے کہ آگے اور پیچھے اتنا ہی جھکیں اور اٹھیں جتنا آپ آسانی سے کر سکتے ہیں ۔آگے پیچھے کی جا نے والی حرکت نہایت سکون سے انجام دیں اور کمر کو کسی قسم کا جھٹکا نہ لگنے دیں۔جھکنے اور اٹھنے میں زور نہ لگائیں جس قدر آپ کے اعضاء ان افعال کی انجام دہی کے متحمل ہیں اسی قدر اس کو انجام دیں اس عمل کو سات تا دس مرتبہ کر یں۔کمر اور ریڑھ کی ہڈی پر پڑنے والے دباؤ کو دور کر نے اور نجا ت پا نے کے لئے با لکل سیدھے کھڑے ہو کر اپنے دونوں ہا تھو ں کو سر سے اونچا رکھیں اور ہتھلیا ں سامنے کی جا نب ہوں اب آگے جھکتے ہو ئے دونو ں ہا تھو ں کی انگلیوں سے دونو ں پیر کے انگوٹھوں کو چھونا ہو گااگر انگوٹھوں کو آپ نہیں چھو پا رہے ہیں تو کو ئی با ت نہیں آپ اس قدر ہی جھکیں جس قدر آپ جھک سکتے ہیں۔اس عمل کو سات تا دس مر تبہ دہر ائیں۔اس سے زیادہ بھی آپ دہر ا سکتے ہیں لیکن خیال رہے کہ جسم پر کسی قسم کا دباؤ نہ پڑنے دیں اورجتنی آسانی سے آپ کر سکتے ہیں اتنا ہی کر نا مناسب ہو گا ۔اس کے علا وہ اپنے دونوں ہا تھوں کو کھڑے ہو کرپہلے دائیں پھر با ئیں اپنی کمر سے جتنا دور رکھتے ہوئے گھوما سکتے ہیں گھومائیے۔یہ عمل پا نچ سے سا ت مر تبہ کر نا کا فی ہو تا ہے۔کمر کے نچلے حصے اور ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ کو دور کر نے کے لئے اور اس کو مضبوط بنانے کے لئے چوتھی ورزش میں کھڑے ہو کرسر سے اوپر پیٹھ کے پیچھے ہا تھو ں کو لا تے ہو ئے گھومائیے اور یہ عمل بھی پا نچ تا سات مر تبہ کر یں ۔مذکورہ ورزش کے ذریعہ فوری طور پر کمر کے نچلے حصے اور ریڑھ کی ہڈی کے تنا ؤ و دباؤ سے چھٹکارا حا صل کیا جا سکتا ہے۔
کندھے:
کندھوں کی اکساسائز نہا یت ہی آسان ہو تی ہے کھڑے ہو کر اپنے ہا تھو ں کو نیچے کی جا نب لٹکاکراپنے کندھوں کو گھڑی کی سوئی کی سمت اور مخالف سمت دس دس مرتبہ انجام دیں ۔یہ ورزش کندھوں میں کھینچاؤ اور تناؤ کو تیزی سے دور کر نے میں ممد و معاون ہو تی ہے۔
گردن:
گردن کی ورزش نہایت اہم ہے کیونکہ لکھتے اور پڑھتے وقت اور دیگر افعال کی انجام دہی میں بھی گردن دباؤ کا مر کز ہو تی ہے۔گردن کے دباؤ کو دور کرنے کی اکثر ورزشیں کھڑے ہو کر انجا م دی جا سکتی ہیں۔اگر دوران ورزش کسی قسم کی عضلات میں سختی یا اکڑ محسوس ہو تو بیٹھنے اور چند لمحوں کے آرام سے کسی بھی گزند سے گردن کے عضلات کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔گردن کی ورزش کے وقت آنکھو ں کو کھلا رکھنا چا ہیے۔گردن کو دباؤ سے نجات دلانے والی ورزشوں میں
(۱) گردن کو جس قدراوپر اٹھایا جا سکتا ہے اٹھائیں اور پھر جس قدر نیچے جھکا یا جا سکتا ہے جھکائیں۔اس طر ح گردن کو دس مر تبہ اوپر نیچے کر نا گردن کے عضلات میں تناؤ سے نجات کے لئے کا فی ہو تا ہے۔ (2)اس مر تبہ گردن کو دائیں اور با ئیں جانب نظر کو کندھو ں سے اوپر رکھتے ہوئے دس مر تبہ گھومائیے۔یہ ورزش گردن کے دباؤ کو دور کرنے میں نہایت سود مند ثابت ہوئی ہے۔
(3)گردن کے عضلات میں تناؤ کو دور کرنے والی تیسری ورزش میں گردن کو دائیں بائیں جانب دس دس مر تبہ اس طرح جھکائیں کہ کان کی لو کندھوں سے مس ہوجائے۔گردن کو کسی بھی قسم کا جھٹکا نہ دیں نہا یت سکون و اطمینان سے اس ورزش کے دوران سر کو یعنی کہ گردن کو جھکانا کا فی ہو تا ہے۔
(4)گردن کی چوتھی ورزش میں گردن کوعمودی سمت میں رکھتے ہوئے سر کو گھڑی کے سوئیوں کی سمت پھر مخالف سمت میں دس دس مر تبہ گھومانا کا فی ہوتا ہے۔ دونو ں سمت میں سر کو گھوماتے ہوئے سر کو ممکنہ حد تک پیچھے کی جانب لے جا نا چاہیئے۔
(5)گردن کی پانچویں اور آخری ورزش میں گردن کو افقی سمت میں رکھتے ہوئے سر کو گھڑی کے سوئیوں کی سمت پھر مخالف سمت میں دس دس مر تبہ گھومانا کا فی ہوتا ہے۔ آخر الذکر دونوں ورزشیں ابتدا کسی قدر بے چینی کا باعث ہو سکتی ہے ۔آپ جس قدر آسانی سے اور جتنا انجام دے سکتے ہیں کا فی ہے۔ان دونوں ورزشوں کے دوران ابتدا اگر کسی قدر بے چینی محسوس ہو تو یہ ورزش بیٹھ کر بھی انجام دینے سے نہیں کترانا چاہیئے۔آنکھوں کی ورزش انتہائی آسان ہوتی ہے اور اس میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔آنکھوں کی ورزش میں آنکھوں کی پتلیوں کوحرکت دینا ہو تا ہے۔کبھی کبھی معکوس عمل کے نتیجے میں سر بھی متحرک رہتا ہے لیکن خیال رکھا جا ئے کہ صرف آنکھوں کی پتلیاں ہی حرکت کر پائے اور سر ساکن رہے۔آنکھوں کی اولین ورزش میں دس دس مرتبہ پتلیوں کو اوپر نیچے اس قدر حرکت دینی ہو تی ہے جس کا آدمی متحمل ہو تا ہے۔ دوسری ورزش میں دس دس مر تبہ باری باری دائیں جانب اور با ئیں جا نب نگاہیں(دزدیدہ نگاہ)کریں۔تیسری ورزش میں آنکھوں کی پتلیوں کوگھڑی کی سوئیوں کی جانب اور پھر مخالف جا نب دس دس مر تبہ دائری حرکت دیں۔چوتھی ورزش میں آنکھوں کو پھیلاکر جس قدر دور دیکھ سکتے ہیں دیکھیں اور پھر بعد کوکسی قریبی نقطہ پر نظر کو جما دیںیہ عمل بھی دس مرتبہ انجام دیا جا ئے۔یہ ورزش نہ صرف آنکھوں کے دباؤ کو کم کر نے میں مدگار ہے بلکہ بینائی کو بھی یہ تیز کر نے میں ممد و معاون ثابت ہوئی ہے۔انگلیاں،کلائی اور کہنی کے دباؤ کو کم کر نے والے ورزشیں:لکھائی میں سب سے زیادہ اور اہم کردار انگلیوں کا ہو تا ہے لازما زیادہ دباؤ بھی اسی پر ہو گا ۔انگلیوں کی ورزش کے ذریعہ نہ صرف دوران خون کو بہتر کیا جا سکتا ہے بلکہ انگلیوں کے دباؤ اور تکلیف کو بھی رفع کیا جا سکتا ہے۔کہنی بھی تحریر اور دیگر افعال کے انجام دہی میں دباؤ کے زیر اثر رہتی ہے اسی لئے ان کو بھی ورزش کی ضرورت در کار ہوتی ہے۔انگلیوں کے دباؤ کو دور کر نے کے لئے ماہرین نے انگلیوں کی ورزش میں مٹھیوں کو کھولنے بند کرنے کے علاوہ انگلیوں کو گھومانے کی تجاویز پیش کی ہیں اور ان تجاویز کی روشنی میں انگلیوں کو دباؤ اور تکلیف سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔اس کے علا وہ انگلیوں کے دباؤ سے متعلق ورزش میں دونو ں ہاتھو ں کی انگلیوں کو ایک دوسرے سے بھینچ کر اس طر ح کھینچے کہ دونوں ہتھلیوں کا رخ با ہر کی سمت ہو اس طر ح سے انگلیوں کے دباؤ کو دور کیا جا سکتا ہے۔کلائیوں کو گھڑی کی سوئیوں کی سمت اور مخالف سمت گھوماکر کلائیوں کے دباؤ اور تکلیف سے نجات پائی جا سکتی ہے۔بالکل اسی طر ح کہنیوں کو دائیں با ئیں جا نب پھیلاکر دباؤ سے نجات حا صل کی جا سکتی ہے۔مذکو رہ تمام ورزشوں کی انجام دہی نہایت سکو ن و اطمینا ن کی متقاضی ہوتی ہیں لہذا خیال رہے کہ دوران ورزش کسی جلد بازی کا مظاہر ہ نہ کر یں اور کسی بھی قسم کا عضلات کو جھٹکا نہ لگائیں۔
امتحان کی تیاری کے دوران جسمانی صحت کو فروغ دینے والے دیگر عوامل:
(1) نیند:پرسکون نیند صحت مند امتحان کی تیاری کے لئے لازمی جزو ہے۔کم از کم دن میں (چوبیس گھنٹوں میں) چھ گھنٹے کی نیند کسی بھی فر د کے لئے ضروری ہو تی ہے۔نیند کو امتحان کی تیاری کے دوران تضیع اوقا ت نہیں سمجھنا چا ہیئے بلکہ یہ صحت مند جسم اور بہتر افعال کی انجام دہی کے لئے ایک انوسٹمنٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔نیند انسان کو دباؤ ،تھکاوٹ اور ذہنی الجھنوں سے نجات دلاتی ہے اور اگلے دن اور اگلے کا م کے لئے ایک زود اثر اکسیر کا در جہ رکھتی ہے۔نیند کے ذریعہ آدمی تر و تا زگی اور فر حت حا صل کر تا ہے۔
(2)کام کے دوران وقفہ:کام کے دوران وقفہ دینے سے بھی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔وقفہ کے دوران آرام و سکون اور فرحت کے لئے صرف اپنی آنکھوں کو موندکر لیٹے رہنے سے نہ صرف تر و تازگی حا صل ہو تی ہے بلکہ ذہنی دباؤ سے بھی نجا ت ملتی ہے۔یہ وقفہ صرف دس تا پندرہ منٹ پر محیط ہو نا چاہیئے اس کو طول دینا وقت کے نقصان کا با عث ہو تا ہے۔مطالعے کے دوران جب کبھی آپ محسوس کر یں کے آپ انہما ک اور یکسوئی کو کھو رہے ہیں تب اپنی آنکھوں کو موند کر خاموش اور پر سکون ما حول میں صرف دس منٹ تک لیٹے رہنے کو تر جیح دیں اس دوران آپ خود اندازہ کر یں گے کہ آپ پر مضامین کے راز سر بستہ عیا ں ہو رہے ہیں اور ان انکشافات کی روشنی میں آپ کو اپنے اشکالات کے جواب مل جا ئیں گے۔مزید اس کے آپ کی خود اعتمادی بحال ہو گی بلکہ مزید فروغ پائے گی ۔آنکھیں بند کر نے کے بعد آپ کو امید کی نئی کرنیں دکھائی دیں گی ۔دباؤ کے وقت گہری سانسیں بھی آدمی کو دباؤ سے نجات دیتی ہے اور اسے ایک آفاقی دوا کا مر تبہ حا صل ہے۔اس عمل سے انہماک اور یکسوئی بڑھتی ہے اور آپ نہ صرف دباؤ پر قابو پا نے میں کامیاب ہو جا تے ہیں بلکہ خود کو تر و تا زہ بھی محسوس کر نے لگتے ہیں۔
(3) عدم توجہ کی وجہ:ماہرین تعلیم نے تسلیم کیا ہے کہ مسلسل تین گھنٹوں سے زیادہ مطالعہ یا پڑھائی کا عمل سود مند نہیں ہو تا ۔مطالعہ یا پڑھائی کو مختلف دورانیوں میں تقسیم کر نے سے اکتساب کے عمل کو تیز کیا جا سکتا ہے۔مسلسل مطالعہ بے کیفی کا باعث ہو تا ہے اسی لئے مطالعہ کے دوران آدھا گھنٹہ یا پھر ایک گھنٹے کا وقفہ حا صل کر یں اور اس وقفہ میں کسی کھیل یا مصروفیت میں خود کو مشغول کر لیں جیسے بیاڈمنٹن ۔کھیل کے وقت آپ پر کھیل میں جیت کا عنصر غالب رہے گا جس سے آپ پر حاوی مطالعہ کا بوجھ یا دباؤ اور تفکر سے آزادی مل جا ئے گی۔وقفہ کے بعد جب آپ مطالعہ کا آغاز کر یں گے آپ اپنے آپ کو تر و تازہ اور چاق و چو بند پائیں گے۔لیکن وقفہ کا دورانیہ اگر طول اختیار کر جا ئے تو یہ باعث خسران ہو گا۔
(4)غذا:امتحان کی تیاری کے دوران غذا کا خا ص خیا ل رکھیں متوازن غذا کے استعمال سے آپ کی صحت بہتر رہے گی اور امتحا ن کی تیاری آپ بغیر کسی اضمحلال سے انجا م دے سکیں گے۔جنک فوڈ ،چربی دار غذا،مرغن غذائیں جسم میں تساہل اور سستی کا سبب بنتی ہیں اسی لئے ان سے اجتنا ب ضروری ہو گا۔ایسی غذا کا استعمال کریں جن میں متناسب مقدار میں پروٹین ،کاربوہائیڈریٹس،معدنیات اور دٹامنس پائے جا تے ہیں۔غذا اسی وقت لیں جب آپ کو بھو ک لگی ہو اور تھوڑی سی بھو ک کو با قی رکھتے ہوئے غذا سے ہا تھ کھینچ لیں۔
(5)والدین سے ایک دردمندانہ گزارش:والدین بچوں کے لئے گھر پر پرسکون تعلیمی ماحول فراہم کریں ۔گھر پر کسی بھی قسم کی سماجی یا نجی تقریبات کو منعقد نہ کر یں اور کسی بھی تقریب میں خود کی اور بچوں کی شرکت کو ممنوع تصور کر یں۔گھر کو گھریلوجھگڑوں اور تنازعات سے پاک رکھیں۔ٹی ۔وی ،انٹر نیٹ کے استعمال سے خود کو روکے رکھیں اور بچوں کو بھی اس سے باز رکھیں۔ہر وقت پڑھائی کی تلقین نہ کر یں بلکہ پڑھائی کے لئے ایک نظام الاوقات تر تیب دیں اور ان اوقا ت پر صرف نگرانی کا کام انجام دیں۔والدین کی جانب سے اگر ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کر لیا جا تا ہے تو یہ بچوں کی کا میابی کا پہلے زینہ ہو گا۔والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی بچوں میں ذوق سفر اور یقین کی کیفیت اور خود اعتمادی کے فضاء کو پروان چڑھائیں جو کہ کسی بھی معرکہ کو سر کرنے میں کلید ی حیثیت رکھتی ہے۔
اہم بلاگز
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
فیملی ولاگنگ کے معاشرے پر اثرات
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں میں سے ایک برائی فیملی ولاگنگ جس کو آپ عرف عام اپنی نجی زندگی کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے جس میں آج کل ولاگر شرم و حیا کا پاس رکھے بغیر خوشی خوشی اپنے گھر والوں کو جس میں خاص طور پر خواتین کو شامل کیا جانے لگا ہے شو کرتے ہیں اور پھر ایسی ویڈیوز بنا کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کردار جہاں ہماری زندگیوں میں مثبت اثرات پیدا کر رہا ہے وہیں پر منفی اثرات بھی جنم لے رہے ہیں۔
تفریح کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی و فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کا ایک ذریعہ ولاگنگ ہے۔
پہلے پہل ولاگنگ کا آغاز صرف اور صرف اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہوا اور پھر ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لانا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری زندگی کا یہاں تک کے میاں بیوی کے نجی معاملت بھی منظر عام پر لائے جانے لگے۔
اپنے پورے دن کی روٹین کو، اپنے ذاتی معاملات کو اپنے ازداوجی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور دھیرے دھیرے حیا کا لبادہ اترتے اترتے نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ اپنے بند کمروں کے پیچھے ہونے والی روٹین کو بھی شوق کے ساتھ شیئر کرنے لگے جس کا مقصد صرف اور صرف چند لائیکس اور پیسہ کمانا ہے۔۔
اس فیملی ولاگنگ نے جہاں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کو دھندلا دیا ہے وہیں معاشرے پر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں سب سے زیادہ ان کے اندر سے شرم و حیا کی تمیز ختم ہونا ہے۔
اپنے گھر کی عورتوں کو دنیا کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرنا اور پھر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے تفریح کے نام پر نواجونوں کی منفی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نوجوانوں کے اندر دنیا پرستی کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائیشوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا اور اپنے کیئریر بنانے کے بجائے منفی عادتوں کو اپنانا اور پھر دھیرے دھیرے مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر ذہنی مریض بن جانا اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کے بجائے ناسور بن جانا اس فیملی ولاگنگ کا سب سے بڑا برا اثر ہے۔۔
حکومت اور ملحقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تفریحات کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر فی الفور پابندی عائد کرے اور سوشل میڈیا کے مثبت استمعال کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تاکہ نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے کارآمد بنا سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔