اردو ایک لطیف زبان ہے ۔ اس کی شیرینی اور پیرائے اظہار کی نزاکت ہی اس کی مقبولیت کا سب سے اہم راز ہے۔ اردو کا لہجہ جہاں پیار و محبت سے دھلاہے وہیںیہ حسن و عشق کے سوز و گداز سے مزین بھی ہے۔اردو کی سرشت میں مختلف تہذیبوں، فرقوں، زبانوں کی آمیزش ، اختلاط اور میل جول شامل ہے۔اس کے خمیر میں اتحاد و یکجہتی اور رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔تقسیم ہند کے بعد اردو کو ہندوستان میں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کی وہ مستحق تھی۔ لیکن یہ ایک سچائی ہے کہ گلزار جہاں آج بھی اردو کی خوشبو سے معطر ہے۔اردو ایک زبان کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک زندہ چلتی پھرتی تہذیب کا نام ہے۔ اسے بدقسمتی سے ہندوستان میں قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا لیکن اس کے باوجود گفت و شنید اور بول چال میں آج بھی اسے قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اسی لئے اگر اسے قومی تہذیب و تمدن اور شائستگی کا نام دیا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔مادری زبان کی تعلیم کے ذریعہ بچہ سماجی طرز فکر کو سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔درحقیقت ہم بچوں کو زبان نہیں پڑھاتے ہیں بلکہ انھیں سماجیات کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔بچے اپنے گھروں سے جذبہ عزت و احترام ،تعظیم و تکریم کی روایات حاصل کرتے ہیں۔بچوں میں پرورش پانے والا یہ جذبہ احترام سماجی شراکت داری کے فروغ کا باعث بنتا ہے اور اجتماعی کلچر و ثقافت کی بنیادیں بھی اسی جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں۔ہمیں اپنے ذہنوں سے اس بات کو اکھاڑ پھینکناچاہئے کہ ہم یا ہمارے بچے اردو نہیں جانتے ہیں۔حقیقتاًہم سب اردو جانتے ہیں نہ صرف اردو مادری زبان والے اردو جانتے ہیں بلکہ ہندوستان کی ایک کثیر ی آبادی آج بھی اردو بولتی اور جانتی ہے۔مگر یہ بھی ہماری بد بختی ہے کہ ہم نے صرف اسے فطری طور پر بولنے کی حد تک محدود کر رکھا ہے۔ہم کیا تقریباً تمام ہندوستانی اپنے روز مرہ کے کام اردو زبان ہی میں انجام دیتے ہیں۔ اسے تجاہل عارفانہ کہئے کہ مجرمانہ غفلت یا پھر کور چشمی، ہم جس زبان کو ہندوستانی کہتے ہیں وہ اردو نہیں تو اور کیا ہے۔ ملک کے سبھی علاقوں کی بول چال کی زبان بلالحاظ مذہب ،رنگ و نسل اور ذات پات آج بھی ہندوستانی ہے۔اس ہندوستانی زبان نے آج ملک کے تقریباً ایک سو پچاس کروڑ عوام جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں کو ایک دوسرے سے جوڑکررکھاہے۔تعصب ،تنگ نظری یا پھر کسی وجہ سے ہم جسے ہندوستانی کا نام دے رہے ہیں وہ ہندوستانی کیا ہے؟ایسے متعصب ذہنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اردو دراصل اسی ہندوستانی بول چال کی معیار ی شکل کا نام ہے۔اردو آج بھی بول چال کی شکل میں ہمارے معاشرے کے قریب بلکہ اس میں رچی بسی ہوئی ہے۔یہ اردو کا حسن اور اس کی کشادہ دامنی ہے کہ یہ عصری اور فطری رجحانات کو بلامزاحمت اپنے میں جذب کرنے کا خوب ظرف رکھتی ہے۔آج بھی ملک کے سبھی علاقے اردو کے ہیں ۔آج جو علاقے ہندی کے کہلاتے ہیں وہ اب بھی اردو کے ہی ہیں کیونکہ آج بھی ان علاقوں میں وہی زبان بولی جاتی ہے جو پہلے بولی جاتی تھی۔مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ جو ہندی کا علاقہ ہے وہی اردو کا علاقہ ہے۔ ہندی سے مراد ہرگز اس جدید ہندی سے نہ لیا جائیجسے گزشتہ سات دہائیوں سے سرکاری طور پر رابطے کی زبان کے طور پر فروغ دینے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کے باوجود اس جدید ہندی کا کوئی علاقہ آج تک معروض وجود میں نہیں آسکااور نہ ہی یہ آج تک لاکھ کوششوں کے باوجودکسی علاقے کی بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر سکی ہے۔زبان کوروزمرہ کے کام کاج تک محدود رکھنا ہی کافی نہیں ہو تاہے۔ بول چال کے علاوہ اس کا لکھنا پڑھنا بھی زبان والوں کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کی یہ مادری زبان ہوتی ہے۔یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم اردو بول سکتے ہیں لیکن اس کے لکھنے اور پڑھنے سے معذور ہیں۔انگریزی پڑھ اور لکھ سکتے ہیں لیکن اس کے فہم سے ناآشنا ہیں۔ حالانکہ اردو لکھنا اور پڑھنا کوئی خاصہ مشکل کام نہیں ہے۔ یہ انتہائی آسان اور سہل کام ہے خاص طور پر ہم اردو مادری زبان والوں کے لئے تو یہ اور بھی آسان کام ہے۔کیونکہ ہم سبھی اردو زبان جانتے ہیں ہمیں زبان سیکھنا نہیں ہے بلکہ صرف اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھنا ہے۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ روزانہ ایک گھنٹہ ایک مہینے کی مشق کے ذریعے آسانی سے اردو لکھنا ،پڑھنا سیکھا جاسکتا ہے اور تین ما ہ میں ہم زبان میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔اس مضمون کے ذریعہ حالات مسائل اور وسائل کا رونارونے کے بجائے اردو کے فروغ میں معاون اسباب و علل پر روشنی ڈالی گئی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اردو کی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔
زبانیں سرکاری سرپرستی اور تحفظ کی محتاج نہیں ہوتیں؛۔
زبان ،کلچر اور ثقافت کا تحفظ ہمارا اپنا فریضہ ہوتا ہے ۔اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے حکومتوں اور سیاستدانوں سے سرپرستی اور تحفظ کی توقع کرنا گویا خود زبان کا گلہ گھونٹنے کے مترادف ہے۔جب ہم خود اپنے کلچر اور زبان کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو کسی اور سے اس کی توقع ایک حماقت نہیں تو کیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اردو کو لسانی جبر اور تہذیبی مخاصمت کا گزشتہ ستر سالوں سے سامنا کرنا پڑرہاہے جس کی وجہ سے ایک ثقافتی اور ترسیلی خلا پیدا ہوگیاہے۔لسانی اور تہذیبی جبر و تعصب کی وجہ سے ایک ایسی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی جس کی لفظیات ثقیل ، تلفظ غیر معیاری اور جو معاشرے کے لئے اجنبی ہے۔اردو والے اپنی زبان کے تحفظ کے لئے سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور تحفظ پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اس کے فروغ کے لئے خو د کمر بستہ ہوجائیں۔اردو والے انفرادی طور پر بیدار ہوجائیں تو ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔اس تبدیلی کا آغاز ہم کو اپنے گھر وں سے کرنا ہوگا۔جب تک ہم اپنے بچوں اور گھر والوں کو اردو لکھنے پڑھنے کے لائق نہیں بنائیں گے تب تک اردو کے روشن مستقبل کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ہمیں انفرادی طور پر اردو کے استعمال کو لازمی کرنا ہوگا۔جب تک ہم انفرادی طور پر اردو کے استعمال کو لازمی نہیں کریں گے اردو کا تحفظ اور فروغ ممکن نہیں ہے۔آج ہماری مادری زبان جب ہمارا مسئلہ نہیں رہی تو پھر کیسے یہ ہمارے بچوں کا مسئلہ رہے گی۔بچے اردوکوایک بے کار اور اضافی چیز تصور کر رہے ہیں اور یہ فکر ونظریہ ہم نے اپنے فکر و عمل سے بچوں کو ورثے میں دیا ہے۔زبان و ادب جب ہمارے لئے ناکارہ ہیں تو پھر بچوں کے لئے بھی یہ بے کار اور مضحکہ خیز ہی ثابت ہوں گے۔چلئے اردو کا ذکر چھوڑیئے میں پوچھتا ہوں کہ ہم میں سے کتنوں کو انگریزی آتی ہے۔کیا آپ نے چار الفاظ کی ترتیب کو زبان آشنائی کا نام تو نہیں دے دیا ہے۔آج اردو سے ناآشنائی کو فخریہ طور پر پیش کرنے کا ایک غلط رویہ عام ہوگیا ہے۔بچے تو بچے بڑے بزرگ اور نام نہاد دانشوران قوم و ملت بھی اردو سے لاعلمی پر شرمسار ہونے کے بجائے اپنی جہالت کو فخریہ اندا ز میں پیش کر رہے ہیں۔یہ مزاج اردو کے بڑے ادبا ،شعرا اورسیاستدانوں اور دانشوروں کے گھرانوں میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کر رہاہوں جو اردو والوں کے لئے تازیانہ عبرت سے کم نہیں ہوگا ۔فیض احمد فیض اردو کے ایک نامور ،ممتاز اور صاحب طراز شاعر گزر رہے ہیں۔شاید ہی کوئی اردو کا طالب علم ایسا نہ ہوگا جو فیض احمد فیض کی شاعرانہ عظمت سے واقف نہ ہو۔فیض صاحب کی چھوٹی صاحبزادی منیزہ جو فیض صاحب کی یاد میں منعقدہ محفل میں شریک و مدعوتھیں۔فیض کے شاعری اور ان کی عظمت پر اظہار خیال کے لئے جب انھیں مدعو کیا گیا تو وہ فخریہ انداز میں کہنے لگیں کہ میری اردو بہت کمزور ہے۔مصنوعی پن سے کہا کہ وہ انگریزی جانتی ہے پھر بھی وہ اردو میں بات کرنے کی کوشش کریں گے۔اسٹیج پر آنے کے بعد محترمہ منیزہ کے اس جملے کا جواب عارفہ سیدہ نے یوں دیا کہ’’فیض صاحب جو زبان لکھ کر اور بول کر دنیا میں تہذیب یافتہ کہلائے،آج وہی زبان نہ لکھ کر اور نہ بول کر ان کی بیٹی تہذیب یافتہ کہلارہی ہیں۔‘‘یہ بات بڑی تشویش نا ک ہے کہ آج ہمارے بچے بھی اردو سے لاعلمی کو فخریہ طور پر پیش کررہے ہیں۔کیا اس بات کے لئے والدین کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا؟زبان بچوں کے لئے والدین کا ایک عظیم تحفہ ہوتا ہے۔جو والدین اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان تحفے میں نہیں دے سکتے ہیں وہ اپنی تہذیب اور ثقافت کو کس طر ح ان تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔مادری زبان کی عدم فراہمی سے بچوں میں سطحی پن اور فکر بنجر پن لازمی طور پر پیدا ہوگا۔مادری زبان سے لاعلمی قد�آور بونوں کی کثرت کا سبب بنے گی۔ستھری زبان اور سلیس لہجہ و تلفظ سیکھنے کے لئے عرب اپنے نومولود بچوں کو دائیوں کے حوالے کردیتے تھے۔نبی اکرم ﷺ کو بھی ولادت کے فوری بعد حضرت دائی حلیمہ کے گھر بھیج دیا گیا۔اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ والدین اپنی مادری زبان بچوں کو بہتر انداز میں سکھانے کا التزام کریں۔ماں باپ اپنے بچوں کو اپنی ثقافت (کلچر) اور زبان ورثے میں دیتے ہیں ۔ اس لئے والدین خود اپنی زبان کی حفاظت کریں تاکہ بچوں کے لئے روشن مثال بن سکیں۔زبان گھر سے سیکھی جاتی ہے۔مادری زبان دانی کا اولین مدرسہ والدین ہوتے ہیں۔اردو زبان و ثقافت کے تحفظ میں فکر مند سیاستدان،دانشوران ،ادیب ،شعرا،اساتذہ جو مشرقی روایات اور اردوکے فروغ اور اس کے احیاء کی باتیں کرتے ہیں انھیں خود احتسابی کی سخت ضرورت ہے جو اس بات کو فراموش کر بیٹھیں ہیں۔
زبان کا استعمال؛۔زبان کی اہمیت اس کے استعمال سے قائم و برقرار رہتی ہے ۔ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کوئی زبان کسی بھی زبان سے بہتر نہیں ہوتی ہے۔ہم اردو کی تباہی کا واویلا تو مچاتے رہتے ہیں اور اس کی تباہی اور پسماندگی کے اسبا ب کا بھی سراغ لگانے میں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن مقامی سطح پر پائے جانے والے مسائل میں سے ایک کو بھی آج تک حل نہیں کر پائے ہیں۔معاشرے میں اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر رواج دینے کی سخت ضرورت ہے۔ریاست آندھرا پردیش ،تلنگانہ اور جہاں کہیں اردو کو دوسری زبان کا درجہ فراہم کیا گیا ہے وہاں اپنے تمام دفتری امور اردو زبان میں انجام دیں۔اردو کے استعمال کو کسر شان تصور نہ کریں۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے اردو زبان کا استعمال کریں۔اسکول دفاتر،عدالتوں،بینکوں،کچہریوں اور دیگر سرکاری،نیم سرکاری اور خانگی دفاترمیں اردو زبان کو استعمال کریں۔اپنی عرضیاں اور درخواستیں اردو زبان میں پیش کریں۔آپ کی سعی اور کاوش یہی ہونی چاہئے کہ آنے والی نسلوں میں اردو زبان سے لگاوٹ ،محبت اور الفت کو فروغ دیں۔اسکولوں میں اردو کی تدریس کو معیار ی بنائیں۔بچوں کو اگر چہ کہ غیر اردو میڈیم مدارس میں تعلیم فراہم کر رہے ہوں تب بھی ایک زبان کی حیثیت سے اردو کو بہر صورت اور لازمی طور پر اختیار کریں۔اردو اگر آپ کی مادری زبان ہے تو اپنی زبان کی حفاظت بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔اپنے فرائض سے پہلوتہی کرتے ہوئے اغیار سے اس کے تحفظ اور فروغ کی ہرگز توقع نہ کریں۔اردو میڈیم مدارس میں کام انجام دینے والے اساتذہ اپنے تمام رجسٹرس اور اپنی تمام کوائف کو اردو میں تحریر کریں۔ ریاست تلنگانہ میں تمام دفتری امور کی انجام دہی کے لئے تلگو یا پھر ریاست کی دوسری سرکاری زبان کے استعمال کی پابندی لگائی گئی ہے۔ اردو والے ان مراعات سے مکمل استفاد ہ کریں۔آپ کی غفلت اور لاپروائی زبان کے لئے سم قاتل ثابت ہوگی۔اپنی زبان کے استعمال پر دوسری زبان کو ہرگز ترجیح نہ دیں۔اس ضمن میں چین کے صدر ماوزئے تنگ کا ایک واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے ضروری ہے۔ماوزئے تنگ چینی کے علاوہ انگریزی کے بھی عالم تھے۔اس کے باوجود وہ اپنے تمام بیرون اسفار اور اندرون ملک صرف چینی زبان کو ہی استعمال کرتے تھے۔حتی کہ جب ان کو انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا وہ اس وقت تک نہیں ہنستے تھے جب تک کہ اس کا چینی میں ترجمہ پیش نہیں کیا جاتا۔انھوں نے انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھنے کے باوجود کبھی بھی چینی پر انگریزی کو ترجیح نہیں دی۔ایک مرتبہ اخبار کے نمائندے نے ان سے سوال کیا کہ وہ بہترین انگریزی جاننے کے باوجود بھی صرف چینی میں ہی کیوں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں۔ماوزئے تنگ کا جواب ہمارے لئے ایک بہترین مثال ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اخباری نمائندے کو جواب دیا کہ ’’میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ چینی عوام گونگے نہیں ہیں۔‘‘آج ہمیں بھی اپنی مادری زبان اردو کے استعمال کے ذریعے دنیا کو بتانا چاہئے کہ اردو والے گونگے نہیں ہیں۔
خانگی مدارس کا رویہ ؛۔اردو کی موجودہ زبوں حالی کے لئے اقلیتی خانگی مدارس کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اقلیتی خانگی مدارس جو اکثر منافع خواری کے مقصد کے تحت قائم کیے گئے ہیں نے اردو کو بحیثیت زبان اول اختیار کرنے پر اردومادری زبان والے طلبہ اور اولیا ئے طلبہ پر کبھی دباؤ نہیں بنایا ۔برخلاف اس کے ہندی کو قومی زبان قرار دے کر اس کی تدریس کو اپنے مدارس میں یقینی بنانے لگے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ زبان کو اختیار کرنے کے حق کا جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا۔مدارس میں طلبہ کی تعدا د میں اضافے کے لئے ایسے نعرے اور حربے اختیار کیے جس سے اردو کا نقصان اور زوال یقینی ہوگیا۔اگر بعض مدارس نے اردو کو بحیثیت زبان اول کی اگر جگہ بھی دے دی تب بھی اس کی تدریس کے لئے منظم منصوبہ بندی اور بہترین اساتذہ کی فراہمی میں ناکام رہے۔جس کا خمیازہ گزشتہ دو دہائیوں میں اردو کی ایک ایسی نیم تعلیم یافتہ نسل تیار ہوئی جس نے اردو لکھنے پڑھنے اور سیکھنے کو کبھی بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا۔ شہر حیدرآباد میں تقریبا 1500تا 2000 اردو اقلیتوں کے خانگی مدارس پائے جاتے ہیں اگر ان مدارس میں اردو کو بحیثیت زبان اول اور ابتدائی تعلیم مادری زبان میں فراہم کرنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً ہم اپنے زوال پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کی عظمت رفتہ بھی بحال ہوجائے گی۔
حکومت ،اردوادارہ جات،انجمنوں کا رول؛۔زبانیں بے جان ہوتی ہیں ان سے سیاسی کھیل کسی بھی طورمناسب نہیں لگتا۔اردو کے ساتھ سیاسی تعصب و جبر پر پابندی لگنی ضروری ہے۔اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج کی حامل ہے۔اردو کو اگر لسان الارض کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔اردو اپنے بین الاقوامی مزاج کی وجہ سے نہ تو مغرب کے لئے اجنبی ہے اور نہ مشرق کے لئے۔حکومت کی جانب سے اس کی سرپرستی نہایت ضروری ہے اس ضمن میں حکومت کی توجہ مبذول کروانے میں اردو کے ادارے انجمنیں اپنا تعاون پیش کریں۔ اپنے نام نہاد کارناموں سے توبہ کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کی جانب توجہ کریں۔اردو زبان میں الفاظ سازی اور اصطلاحا ت سازی کی عظیم گنجائش موجود ہے۔زبان کی ترقی کا انحصار اس کی الفاظ سازی کی گنجائش اور اسے برتنے کی قوت پر منحصر ہوتا ہے۔اردو میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو زبان میں عام طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی تعداد تین لاکھ سے بھی متجاوز ہیں ۔اصطلاحی الفاظ اس کے علاوہ موجود ہیں۔الفاظ کا اتنا بڑا ذخیرہ انگریزی زبان کے علاوہ غالباًکسی اور زبان میں موجود نہیں ہے۔یہی صفت اس کو بین الاقوامی مزاج عطا کرتی ہے۔ اردو میں وسعت پذیر کی بے پناہ طاقت ہے۔آج غیر زبانوں کے تکنیکی ،سائنسی ،علمی اور فنی کتب کو زیادہ سے زیادہ اردو قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ زبان کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔اردو کے اداروں،انجمنوں کو چاہئے کہ وہ ضلعی اور منڈل سطحوں پر اردو ادب کے علاوہ اردو میں معلوماتی علوم(سائنسی علوم) کے ورکشاپس،سیمنارس برائے فروغ اردو ادب و سائنسی علوم اور طلبہ کے لئے انعامی مسابقے منعقد کروائیں۔نئی نسل میں اردو زبان بالخصوص سائنسی علوم کے فروغ کو اولین ترجیحات میں شامل کریں۔علم و ادب و سائنسی علوم پر منعقدہ سیمناروں،ورکشاپس اور پروگرامس میں متعلقہ موضوعات پر اردو کے پروفیسرس،دانشوروں کے علاوہ طلبہ کو بھی اپنے مقالہ جات پیش کرنے کامواقع فراہم کیاجائیں۔سرکاری رقومات کو صرف مشاعروں اور ادبی محافل کے انعقاد پر ضائع نہ کیا جائے بلکہ تعمیری ادب کی تشکیل میں ان گرانٹس کو استعمال میں لائیں۔اردو اکیڈیمی کی جانب سے اردو کے ارلی چائلڈ کئیر اسکولس اور اردو کے فاصلاتی کورسس کا آغاز کیا جائے۔دیگر زبانوں کے تکنیکی ،سائنسی ،فنی اور ادبی شہ پاروں کو اردو میں منتقل کیا جائے۔اردو اکیڈیمی اپنے آپ کو صرف اردو شعر و ادب تک محدود نہ رکھے بلکہ اردو میں معاشراتی اور سائنسی علوم کے فروغ میں اپنا سرگرم رول انجام دے۔اردو اکیڈیمیز اشاعتی زرتعاون حاصل کرنے کے لئے شائع ہونے والے کتابوں کو (جو پچیس ،تیس کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور صرف اردو اکیڈیمی کے دفتر کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں رہتیں) جنھیںGhost Publications(فریبی اشاعتیں )کہاجائے تو بیجا نہ ہوگا، پر اپنا بجٹ ضائع نہ کریں۔مشاعروں اور غیر تعمیری امور میں اردو کی گرانٹس کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھیں۔
انٹرنیٹ پر اردو کا فروغ ؛۔فی زمانہ اور آنے والے وقتوں میں انسان کا سوفیصد ی انحصار انٹرنیٹ پر ہوگا۔اگرآج انٹرنیٹ پر مواد فراہم نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں بہت سے مسائل کا اردو والوں کو سامنا کرنا پڑے گا۔اردو کے تکنیکی ،سائنسی،فنی اور معاشرتی علوم کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا جائے۔فیس بک ،ٹوئیٹر،واٹس ایپ،سوشل میڈیا پر اردو میں لکھا جائے۔اردو میں ویب سائٹس کی تلاش (سرچ) کا کام انجام دیں۔انگلش ویب سائٹس کا اردو ورژن بھی بنایا جائے۔اردو کے بلاگز تشکیل دیئے جائیں۔
رومن اردو سے اجتناب ؛۔اردو زبان سے عدم شناسی کی وجہ سے بیشتر اردو مادری زبان والے لوگ رومن اردو کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اپنائے ہوئے ہیں۔اس طریقہ کار سے اجتناب کی سخت ضرورت ہے۔اردو مشکل سے ایک تا تین ما ہ کے دورانیہ میں مہارت کے ساتھ سیکھی جاسکتی ہے۔ اردو سیکھنا اور لکھنا خو د پر لازم کر لیں۔پبلیشرس رومن اردو میں کتابیں نہ شائع کریں۔ان کی آج کی فراہم کردہ یہ سہولت مستقبل میں اردو کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ اکثر آسان راستہ ہی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ایک شخص کیڑوں سے بھرا ڈبہ لیئے جنگل سے گزر رہاتھا۔ایک پرندے نے پوچھا ’’تم کہاں جارہے ہو‘‘؟آدمی نے کہا میں بازار جارہاہوں ’’اس ڈبے میں کیڑے ہیں جنہیں بیچ کر میں پرندوں کے پر خرید لاؤں گا۔‘‘پرندے نے کہا تم کیڑے مجھے دے کر میرا ایک پر لے لو‘‘آدمی نے پرندے کو کیڑے دے کر اس کا ایک پر لے لیا۔اسی طرح اگلے دن بھی آدمی نے کیڑے دے کراس سے پر لے لیا اور اسی طر ح پھر اگلے دن بھی ہوا۔آخر ایک دن ایسا آیا کہ پرندے کے پاس دینے کے لئے پر نہیں رہے۔اب وہ نہ صرف بد صورت نظرآنے لگا بلکہ اپنی پرواز کی طاقت بھی گنوا بیٹھا۔اس واقعہ سے ہم کو سبق ملتا ہے کہ پرندے نے غذا کے حصول کے لئے جو آسان طریقہ اختیار کیاتھا اصل میں وہ سب سے مشکل اور خطرناک عمل تھا۔اسی لئے اردو والے رومن اردو سے بہر صورت اجتناب کریں اور ساتھ ہی ساتھ پبلیشرس بھی اس طریقہ کار کو فروغ نہ دیں بلکہ کلی طور پر اجتناب کریں۔بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم آسان راستہ ڈھونڈتے ہیں لیکن آخر میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہی سب سے مشکل اور خطرناک راستہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اردو ایک جامع زبان ہے۔لیکن اس کے تحفظ ،فروغ او راس کی اہمیت تسلیم کروانے کے لئے مذکورہ بالا نکات پر غور کرنا ضروری ہے اور مذکورہ نکات پر عمل پیرائی کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اردو والوں کے لئے پہلاکام اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھنے کے ساتھ غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردو قالب میں ڈھالنا ہوگا جو کہ آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔دوسرا اہم کام حکومت کی سرپرستی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اردو انجمنیں،ادارے ،مدارس اور اردو اکیڈیمیز اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار انجام دیں تاکہ عالمی سطح پر اردو کی اہمیت واضح ہو اور وقار قائم رہے۔اردو سے دشمنی کے رویوں اور رجحانات کا سدباب کریں۔اردو کے مستقبل سے ناامید نہ ہوں ذہن اور نظر کھلی رکھیں۔وقت کتنا ہی پرآشوب کیوں نہ ہو گزر جاتا ہے لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جن کے پائے استقامت میں لغزش نہیں پیدا ہوتی ہے۔کوئی کتنا طاقتور کیوں نہ ہو دوسروں کے حقوق کو زیادہ دیر تک دبائے نہیں رکھا سکتا اور نہ ہی پامال کرسکتا ہے۔اردو والوں کو اپنی زبان کے فروغ و تحفظ میں سب سے پہلے اپنا گرانقدر رول نبھانا ہوگا۔بقول رالف رسل برطانوی اردو داں ومعلم کے’’اردو والوں کو خود کفیل ہوکر اور اپنے ہی وسائل کے بھروسے پر اپنی زبان کی حفاظت خودہی کرنی ہوگی‘‘۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...