اردو ایک لطیف زبان ہے ۔ اس کی شیرینی اور پیرائے اظہار کی نزاکت ہی اس کی مقبولیت کا سب سے اہم راز ہے۔ اردو کا لہجہ جہاں پیار و محبت سے دھلاہے وہیںیہ حسن و عشق کے سوز و گداز سے مزین بھی ہے۔اردو کی سرشت میں مختلف تہذیبوں، فرقوں، زبانوں کی آمیزش ، اختلاط اور میل جول شامل ہے۔اس کے خمیر میں اتحاد و یکجہتی اور رواداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔تقسیم ہند کے بعد اردو کو ہندوستان میں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کی وہ مستحق تھی۔ لیکن یہ ایک سچائی ہے کہ گلزار جہاں آج بھی اردو کی خوشبو سے معطر ہے۔اردو ایک زبان کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک زندہ چلتی پھرتی تہذیب کا نام ہے۔ اسے بدقسمتی سے ہندوستان میں قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا لیکن اس کے باوجود گفت و شنید اور بول چال میں آج بھی اسے قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اسی لئے اگر اسے قومی تہذیب و تمدن اور شائستگی کا نام دیا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔مادری زبان کی تعلیم کے ذریعہ بچہ سماجی طرز فکر کو سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔درحقیقت ہم بچوں کو زبان نہیں پڑھاتے ہیں بلکہ انھیں سماجیات کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔بچے اپنے گھروں سے جذبہ عزت و احترام ،تعظیم و تکریم کی روایات حاصل کرتے ہیں۔بچوں میں پرورش پانے والا یہ جذبہ احترام سماجی شراکت داری کے فروغ کا باعث بنتا ہے اور اجتماعی کلچر و ثقافت کی بنیادیں بھی اسی جذبے کے تحت وجود میں آتی ہیں۔ہمیں اپنے ذہنوں سے اس بات کو اکھاڑ پھینکناچاہئے کہ ہم یا ہمارے بچے اردو نہیں جانتے ہیں۔حقیقتاًہم سب اردو جانتے ہیں نہ صرف اردو مادری زبان والے اردو جانتے ہیں بلکہ ہندوستان کی ایک کثیر ی آبادی آج بھی اردو بولتی اور جانتی ہے۔مگر یہ بھی ہماری بد بختی ہے کہ ہم نے صرف اسے فطری طور پر بولنے کی حد تک محدود کر رکھا ہے۔ہم کیا تقریباً تمام ہندوستانی اپنے روز مرہ کے کام اردو زبان ہی میں انجام دیتے ہیں۔ اسے تجاہل عارفانہ کہئے کہ مجرمانہ غفلت یا پھر کور چشمی، ہم جس زبان کو ہندوستانی کہتے ہیں وہ اردو نہیں تو اور کیا ہے۔ ملک کے سبھی علاقوں کی بول چال کی زبان بلالحاظ مذہب ،رنگ و نسل اور ذات پات آج بھی ہندوستانی ہے۔اس ہندوستانی زبان نے آج ملک کے تقریباً ایک سو پچاس کروڑ عوام جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں کو ایک دوسرے سے جوڑکررکھاہے۔تعصب ،تنگ نظری یا پھر کسی وجہ سے ہم جسے ہندوستانی کا نام دے رہے ہیں وہ ہندوستانی کیا ہے؟ایسے متعصب ذہنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اردو دراصل اسی ہندوستانی بول چال کی معیار ی شکل کا نام ہے۔اردو آج بھی بول چال کی شکل میں ہمارے معاشرے کے قریب بلکہ اس میں رچی بسی ہوئی ہے۔یہ اردو کا حسن اور اس کی کشادہ دامنی ہے کہ یہ عصری اور فطری رجحانات کو بلامزاحمت اپنے میں جذب کرنے کا خوب ظرف رکھتی ہے۔آج بھی ملک کے سبھی علاقے اردو کے ہیں ۔آج جو علاقے ہندی کے کہلاتے ہیں وہ اب بھی اردو کے ہی ہیں کیونکہ آج بھی ان علاقوں میں وہی زبان بولی جاتی ہے جو پہلے بولی جاتی تھی۔مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ جو ہندی کا علاقہ ہے وہی اردو کا علاقہ ہے۔ ہندی سے مراد ہرگز اس جدید ہندی سے نہ لیا جائیجسے گزشتہ سات دہائیوں سے سرکاری طور پر رابطے کی زبان کے طور پر فروغ دینے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کے باوجود اس جدید ہندی کا کوئی علاقہ آج تک معروض وجود میں نہیں آسکااور نہ ہی یہ آج تک لاکھ کوششوں کے باوجودکسی علاقے کی بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر سکی ہے۔زبان کوروزمرہ کے کام کاج تک محدود رکھنا ہی کافی نہیں ہو تاہے۔ بول چال کے علاوہ اس کا لکھنا پڑھنا بھی زبان والوں کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کی یہ مادری زبان ہوتی ہے۔یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم اردو بول سکتے ہیں لیکن اس کے لکھنے اور پڑھنے سے معذور ہیں۔انگریزی پڑھ اور لکھ سکتے ہیں لیکن اس کے فہم سے ناآشنا ہیں۔ حالانکہ اردو لکھنا اور پڑھنا کوئی خاصہ مشکل کام نہیں ہے۔ یہ انتہائی آسان اور سہل کام ہے خاص طور پر ہم اردو مادری زبان والوں کے لئے تو یہ اور بھی آسان کام ہے۔کیونکہ ہم سبھی اردو زبان جانتے ہیں ہمیں زبان سیکھنا نہیں ہے بلکہ صرف اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھنا ہے۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ روزانہ ایک گھنٹہ ایک مہینے کی مشق کے ذریعے آسانی سے اردو لکھنا ،پڑھنا سیکھا جاسکتا ہے اور تین ما ہ میں ہم زبان میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔اس مضمون کے ذریعہ حالات مسائل اور وسائل کا رونارونے کے بجائے اردو کے فروغ میں معاون اسباب و علل پر روشنی ڈالی گئی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اردو کی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔
زبانیں سرکاری سرپرستی اور تحفظ کی محتاج نہیں ہوتیں؛۔
زبان ،کلچر اور ثقافت کا تحفظ ہمارا اپنا فریضہ ہوتا ہے ۔اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے حکومتوں اور سیاستدانوں سے سرپرستی اور تحفظ کی توقع کرنا گویا خود زبان کا گلہ گھونٹنے کے مترادف ہے۔جب ہم خود اپنے کلچر اور زبان کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو کسی اور سے اس کی توقع ایک حماقت نہیں تو کیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اردو کو لسانی جبر اور تہذیبی مخاصمت کا گزشتہ ستر سالوں سے سامنا کرنا پڑرہاہے جس کی وجہ سے ایک ثقافتی اور ترسیلی خلا پیدا ہوگیاہے۔لسانی اور تہذیبی جبر و تعصب کی وجہ سے ایک ایسی زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی جس کی لفظیات ثقیل ، تلفظ غیر معیاری اور جو معاشرے کے لئے اجنبی ہے۔اردو والے اپنی زبان کے تحفظ کے لئے سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور تحفظ پر تکیہ نہ کرتے ہوئے اس کے فروغ کے لئے خو د کمر بستہ ہوجائیں۔اردو والے انفرادی طور پر بیدار ہوجائیں تو ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔اس تبدیلی کا آغاز ہم کو اپنے گھر وں سے کرنا ہوگا۔جب تک ہم اپنے بچوں اور گھر والوں کو اردو لکھنے پڑھنے کے لائق نہیں بنائیں گے تب تک اردو کے روشن مستقبل کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ہمیں انفرادی طور پر اردو کے استعمال کو لازمی کرنا ہوگا۔جب تک ہم انفرادی طور پر اردو کے استعمال کو لازمی نہیں کریں گے اردو کا تحفظ اور فروغ ممکن نہیں ہے۔آج ہماری مادری زبان جب ہمارا مسئلہ نہیں رہی تو پھر کیسے یہ ہمارے بچوں کا مسئلہ رہے گی۔بچے اردوکوایک بے کار اور اضافی چیز تصور کر رہے ہیں اور یہ فکر ونظریہ ہم نے اپنے فکر و عمل سے بچوں کو ورثے میں دیا ہے۔زبان و ادب جب ہمارے لئے ناکارہ ہیں تو پھر بچوں کے لئے بھی یہ بے کار اور مضحکہ خیز ہی ثابت ہوں گے۔چلئے اردو کا ذکر چھوڑیئے میں پوچھتا ہوں کہ ہم میں سے کتنوں کو انگریزی آتی ہے۔کیا آپ نے چار الفاظ کی ترتیب کو زبان آشنائی کا نام تو نہیں دے دیا ہے۔آج اردو سے ناآشنائی کو فخریہ طور پر پیش کرنے کا ایک غلط رویہ عام ہوگیا ہے۔بچے تو بچے بڑے بزرگ اور نام نہاد دانشوران قوم و ملت بھی اردو سے لاعلمی پر شرمسار ہونے کے بجائے اپنی جہالت کو فخریہ اندا ز میں پیش کر رہے ہیں۔یہ مزاج اردو کے بڑے ادبا ،شعرا اورسیاستدانوں اور دانشوروں کے گھرانوں میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کر رہاہوں جو اردو والوں کے لئے تازیانہ عبرت سے کم نہیں ہوگا ۔فیض احمد فیض اردو کے ایک نامور ،ممتاز اور صاحب طراز شاعر گزر رہے ہیں۔شاید ہی کوئی اردو کا طالب علم ایسا نہ ہوگا جو فیض احمد فیض کی شاعرانہ عظمت سے واقف نہ ہو۔فیض صاحب کی چھوٹی صاحبزادی منیزہ جو فیض صاحب کی یاد میں منعقدہ محفل میں شریک و مدعوتھیں۔فیض کے شاعری اور ان کی عظمت پر اظہار خیال کے لئے جب انھیں مدعو کیا گیا تو وہ فخریہ انداز میں کہنے لگیں کہ میری اردو بہت کمزور ہے۔مصنوعی پن سے کہا کہ وہ انگریزی جانتی ہے پھر بھی وہ اردو میں بات کرنے کی کوشش کریں گے۔اسٹیج پر آنے کے بعد محترمہ منیزہ کے اس جملے کا جواب عارفہ سیدہ نے یوں دیا کہ’’فیض صاحب جو زبان لکھ کر اور بول کر دنیا میں تہذیب یافتہ کہلائے،آج وہی زبان نہ لکھ کر اور نہ بول کر ان کی بیٹی تہذیب یافتہ کہلارہی ہیں۔‘‘یہ بات بڑی تشویش نا ک ہے کہ آج ہمارے بچے بھی اردو سے لاعلمی کو فخریہ طور پر پیش کررہے ہیں۔کیا اس بات کے لئے والدین کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا؟زبان بچوں کے لئے والدین کا ایک عظیم تحفہ ہوتا ہے۔جو والدین اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان تحفے میں نہیں دے سکتے ہیں وہ اپنی تہذیب اور ثقافت کو کس طر ح ان تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔مادری زبان کی عدم فراہمی سے بچوں میں سطحی پن اور فکر بنجر پن لازمی طور پر پیدا ہوگا۔مادری زبان سے لاعلمی قد�آور بونوں کی کثرت کا سبب بنے گی۔ستھری زبان اور سلیس لہجہ و تلفظ سیکھنے کے لئے عرب اپنے نومولود بچوں کو دائیوں کے حوالے کردیتے تھے۔نبی اکرم ﷺ کو بھی ولادت کے فوری بعد حضرت دائی حلیمہ کے گھر بھیج دیا گیا۔اس واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ والدین اپنی مادری زبان بچوں کو بہتر انداز میں سکھانے کا التزام کریں۔ماں باپ اپنے بچوں کو اپنی ثقافت (کلچر) اور زبان ورثے میں دیتے ہیں ۔ اس لئے والدین خود اپنی زبان کی حفاظت کریں تاکہ بچوں کے لئے روشن مثال بن سکیں۔زبان گھر سے سیکھی جاتی ہے۔مادری زبان دانی کا اولین مدرسہ والدین ہوتے ہیں۔اردو زبان و ثقافت کے تحفظ میں فکر مند سیاستدان،دانشوران ،ادیب ،شعرا،اساتذہ جو مشرقی روایات اور اردوکے فروغ اور اس کے احیاء کی باتیں کرتے ہیں انھیں خود احتسابی کی سخت ضرورت ہے جو اس بات کو فراموش کر بیٹھیں ہیں۔
زبان کا استعمال؛۔زبان کی اہمیت اس کے استعمال سے قائم و برقرار رہتی ہے ۔ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کوئی زبان کسی بھی زبان سے بہتر نہیں ہوتی ہے۔ہم اردو کی تباہی کا واویلا تو مچاتے رہتے ہیں اور اس کی تباہی اور پسماندگی کے اسبا ب کا بھی سراغ لگانے میں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن مقامی سطح پر پائے جانے والے مسائل میں سے ایک کو بھی آج تک حل نہیں کر پائے ہیں۔معاشرے میں اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر رواج دینے کی سخت ضرورت ہے۔ریاست آندھرا پردیش ،تلنگانہ اور جہاں کہیں اردو کو دوسری زبان کا درجہ فراہم کیا گیا ہے وہاں اپنے تمام دفتری امور اردو زبان میں انجام دیں۔اردو کے استعمال کو کسر شان تصور نہ کریں۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے اردو زبان کا استعمال کریں۔اسکول دفاتر،عدالتوں،بینکوں،کچہریوں اور دیگر سرکاری،نیم سرکاری اور خانگی دفاترمیں اردو زبان کو استعمال کریں۔اپنی عرضیاں اور درخواستیں اردو زبان میں پیش کریں۔آپ کی سعی اور کاوش یہی ہونی چاہئے کہ آنے والی نسلوں میں اردو زبان سے لگاوٹ ،محبت اور الفت کو فروغ دیں۔اسکولوں میں اردو کی تدریس کو معیار ی بنائیں۔بچوں کو اگر چہ کہ غیر اردو میڈیم مدارس میں تعلیم فراہم کر رہے ہوں تب بھی ایک زبان کی حیثیت سے اردو کو بہر صورت اور لازمی طور پر اختیار کریں۔اردو اگر آپ کی مادری زبان ہے تو اپنی زبان کی حفاظت بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔اپنے فرائض سے پہلوتہی کرتے ہوئے اغیار سے اس کے تحفظ اور فروغ کی ہرگز توقع نہ کریں۔اردو میڈیم مدارس میں کام انجام دینے والے اساتذہ اپنے تمام رجسٹرس اور اپنی تمام کوائف کو اردو میں تحریر کریں۔ ریاست تلنگانہ میں تمام دفتری امور کی انجام دہی کے لئے تلگو یا پھر ریاست کی دوسری سرکاری زبان کے استعمال کی پابندی لگائی گئی ہے۔ اردو والے ان مراعات سے مکمل استفاد ہ کریں۔آپ کی غفلت اور لاپروائی زبان کے لئے سم قاتل ثابت ہوگی۔اپنی زبان کے استعمال پر دوسری زبان کو ہرگز ترجیح نہ دیں۔اس ضمن میں چین کے صدر ماوزئے تنگ کا ایک واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے ضروری ہے۔ماوزئے تنگ چینی کے علاوہ انگریزی کے بھی عالم تھے۔اس کے باوجود وہ اپنے تمام بیرون اسفار اور اندرون ملک صرف چینی زبان کو ہی استعمال کرتے تھے۔حتی کہ جب ان کو انگریزی میں لطیفہ سنایا جاتا وہ اس وقت تک نہیں ہنستے تھے جب تک کہ اس کا چینی میں ترجمہ پیش نہیں کیا جاتا۔انھوں نے انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھنے کے باوجود کبھی بھی چینی پر انگریزی کو ترجیح نہیں دی۔ایک مرتبہ اخبار کے نمائندے نے ان سے سوال کیا کہ وہ بہترین انگریزی جاننے کے باوجود بھی صرف چینی میں ہی کیوں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں۔ماوزئے تنگ کا جواب ہمارے لئے ایک بہترین مثال ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اخباری نمائندے کو جواب دیا کہ ’’میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ چینی عوام گونگے نہیں ہیں۔‘‘آج ہمیں بھی اپنی مادری زبان اردو کے استعمال کے ذریعے دنیا کو بتانا چاہئے کہ اردو والے گونگے نہیں ہیں۔
خانگی مدارس کا رویہ ؛۔اردو کی موجودہ زبوں حالی کے لئے اقلیتی خانگی مدارس کی کارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اقلیتی خانگی مدارس جو اکثر منافع خواری کے مقصد کے تحت قائم کیے گئے ہیں نے اردو کو بحیثیت زبان اول اختیار کرنے پر اردومادری زبان والے طلبہ اور اولیا ئے طلبہ پر کبھی دباؤ نہیں بنایا ۔برخلاف اس کے ہندی کو قومی زبان قرار دے کر اس کی تدریس کو اپنے مدارس میں یقینی بنانے لگے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ زبان کو اختیار کرنے کے حق کا جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا۔مدارس میں طلبہ کی تعدا د میں اضافے کے لئے ایسے نعرے اور حربے اختیار کیے جس سے اردو کا نقصان اور زوال یقینی ہوگیا۔اگر بعض مدارس نے اردو کو بحیثیت زبان اول کی اگر جگہ بھی دے دی تب بھی اس کی تدریس کے لئے منظم منصوبہ بندی اور بہترین اساتذہ کی فراہمی میں ناکام رہے۔جس کا خمیازہ گزشتہ دو دہائیوں میں اردو کی ایک ایسی نیم تعلیم یافتہ نسل تیار ہوئی جس نے اردو لکھنے پڑھنے اور سیکھنے کو کبھی بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا۔ شہر حیدرآباد میں تقریبا 1500تا 2000 اردو اقلیتوں کے خانگی مدارس پائے جاتے ہیں اگر ان مدارس میں اردو کو بحیثیت زبان اول اور ابتدائی تعلیم مادری زبان میں فراہم کرنے کی کوشش کی جائے تو یقیناً ہم اپنے زوال پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کی عظمت رفتہ بھی بحال ہوجائے گی۔
حکومت ،اردوادارہ جات،انجمنوں کا رول؛۔زبانیں بے جان ہوتی ہیں ان سے سیاسی کھیل کسی بھی طورمناسب نہیں لگتا۔اردو کے ساتھ سیاسی تعصب و جبر پر پابندی لگنی ضروری ہے۔اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج کی حامل ہے۔اردو کو اگر لسان الارض کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔اردو اپنے بین الاقوامی مزاج کی وجہ سے نہ تو مغرب کے لئے اجنبی ہے اور نہ مشرق کے لئے۔حکومت کی جانب سے اس کی سرپرستی نہایت ضروری ہے اس ضمن میں حکومت کی توجہ مبذول کروانے میں اردو کے ادارے انجمنیں اپنا تعاون پیش کریں۔ اپنے نام نہاد کارناموں سے توبہ کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کی جانب توجہ کریں۔اردو زبان میں الفاظ سازی اور اصطلاحا ت سازی کی عظیم گنجائش موجود ہے۔زبان کی ترقی کا انحصار اس کی الفاظ سازی کی گنجائش اور اسے برتنے کی قوت پر منحصر ہوتا ہے۔اردو میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اردو زبان میں عام طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی تعداد تین لاکھ سے بھی متجاوز ہیں ۔اصطلاحی الفاظ اس کے علاوہ موجود ہیں۔الفاظ کا اتنا بڑا ذخیرہ انگریزی زبان کے علاوہ غالباًکسی اور زبان میں موجود نہیں ہے۔یہی صفت اس کو بین الاقوامی مزاج عطا کرتی ہے۔ اردو میں وسعت پذیر کی بے پناہ طاقت ہے۔آج غیر زبانوں کے تکنیکی ،سائنسی ،علمی اور فنی کتب کو زیادہ سے زیادہ اردو قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ زبان کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔اردو کے اداروں،انجمنوں کو چاہئے کہ وہ ضلعی اور منڈل سطحوں پر اردو ادب کے علاوہ اردو میں معلوماتی علوم(سائنسی علوم) کے ورکشاپس،سیمنارس برائے فروغ اردو ادب و سائنسی علوم اور طلبہ کے لئے انعامی مسابقے منعقد کروائیں۔نئی نسل میں اردو زبان بالخصوص سائنسی علوم کے فروغ کو اولین ترجیحات میں شامل کریں۔علم و ادب و سائنسی علوم پر منعقدہ سیمناروں،ورکشاپس اور پروگرامس میں متعلقہ موضوعات پر اردو کے پروفیسرس،دانشوروں کے علاوہ طلبہ کو بھی اپنے مقالہ جات پیش کرنے کامواقع فراہم کیاجائیں۔سرکاری رقومات کو صرف مشاعروں اور ادبی محافل کے انعقاد پر ضائع نہ کیا جائے بلکہ تعمیری ادب کی تشکیل میں ان گرانٹس کو استعمال میں لائیں۔اردو اکیڈیمی کی جانب سے اردو کے ارلی چائلڈ کئیر اسکولس اور اردو کے فاصلاتی کورسس کا آغاز کیا جائے۔دیگر زبانوں کے تکنیکی ،سائنسی ،فنی اور ادبی شہ پاروں کو اردو میں منتقل کیا جائے۔اردو اکیڈیمی اپنے آپ کو صرف اردو شعر و ادب تک محدود نہ رکھے بلکہ اردو میں معاشراتی اور سائنسی علوم کے فروغ میں اپنا سرگرم رول انجام دے۔اردو اکیڈیمیز اشاعتی زرتعاون حاصل کرنے کے لئے شائع ہونے والے کتابوں کو (جو پچیس ،تیس کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور صرف اردو اکیڈیمی کے دفتر کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں رہتیں) جنھیںGhost Publications(فریبی اشاعتیں )کہاجائے تو بیجا نہ ہوگا، پر اپنا بجٹ ضائع نہ کریں۔مشاعروں اور غیر تعمیری امور میں اردو کی گرانٹس کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھیں۔
انٹرنیٹ پر اردو کا فروغ ؛۔فی زمانہ اور آنے والے وقتوں میں انسان کا سوفیصد ی انحصار انٹرنیٹ پر ہوگا۔اگرآج انٹرنیٹ پر مواد فراہم نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں بہت سے مسائل کا اردو والوں کو سامنا کرنا پڑے گا۔اردو کے تکنیکی ،سائنسی،فنی اور معاشرتی علوم کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا جائے۔فیس بک ،ٹوئیٹر،واٹس ایپ،سوشل میڈیا پر اردو میں لکھا جائے۔اردو میں ویب سائٹس کی تلاش (سرچ) کا کام انجام دیں۔انگلش ویب سائٹس کا اردو ورژن بھی بنایا جائے۔اردو کے بلاگز تشکیل دیئے جائیں۔
رومن اردو سے اجتناب ؛۔اردو زبان سے عدم شناسی کی وجہ سے بیشتر اردو مادری زبان والے لوگ رومن اردو کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اپنائے ہوئے ہیں۔اس طریقہ کار سے اجتناب کی سخت ضرورت ہے۔اردو مشکل سے ایک تا تین ما ہ کے دورانیہ میں مہارت کے ساتھ سیکھی جاسکتی ہے۔ اردو سیکھنا اور لکھنا خو د پر لازم کر لیں۔پبلیشرس رومن اردو میں کتابیں نہ شائع کریں۔ان کی آج کی فراہم کردہ یہ سہولت مستقبل میں اردو کے لئے زہر قاتل ثابت ہوگی۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ اکثر آسان راستہ ہی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ایک شخص کیڑوں سے بھرا ڈبہ لیئے جنگل سے گزر رہاتھا۔ایک پرندے نے پوچھا ’’تم کہاں جارہے ہو‘‘؟آدمی نے کہا میں بازار جارہاہوں ’’اس ڈبے میں کیڑے ہیں جنہیں بیچ کر میں پرندوں کے پر خرید لاؤں گا۔‘‘پرندے نے کہا تم کیڑے مجھے دے کر میرا ایک پر لے لو‘‘آدمی نے پرندے کو کیڑے دے کر اس کا ایک پر لے لیا۔اسی طرح اگلے دن بھی آدمی نے کیڑے دے کراس سے پر لے لیا اور اسی طر ح پھر اگلے دن بھی ہوا۔آخر ایک دن ایسا آیا کہ پرندے کے پاس دینے کے لئے پر نہیں رہے۔اب وہ نہ صرف بد صورت نظرآنے لگا بلکہ اپنی پرواز کی طاقت بھی گنوا بیٹھا۔اس واقعہ سے ہم کو سبق ملتا ہے کہ پرندے نے غذا کے حصول کے لئے جو آسان طریقہ اختیار کیاتھا اصل میں وہ سب سے مشکل اور خطرناک عمل تھا۔اسی لئے اردو والے رومن اردو سے بہر صورت اجتناب کریں اور ساتھ ہی ساتھ پبلیشرس بھی اس طریقہ کار کو فروغ نہ دیں بلکہ کلی طور پر اجتناب کریں۔بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم آسان راستہ ڈھونڈتے ہیں لیکن آخر میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہی سب سے مشکل اور خطرناک راستہ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اردو ایک جامع زبان ہے۔لیکن اس کے تحفظ ،فروغ او راس کی اہمیت تسلیم کروانے کے لئے مذکورہ بالا نکات پر غور کرنا ضروری ہے اور مذکورہ نکات پر عمل پیرائی کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اردو والوں کے لئے پہلاکام اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھنے کے ساتھ غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردو قالب میں ڈھالنا ہوگا جو کہ آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔دوسرا اہم کام حکومت کی سرپرستی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اردو انجمنیں،ادارے ،مدارس اور اردو اکیڈیمیز اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار انجام دیں تاکہ عالمی سطح پر اردو کی اہمیت واضح ہو اور وقار قائم رہے۔اردو سے دشمنی کے رویوں اور رجحانات کا سدباب کریں۔اردو کے مستقبل سے ناامید نہ ہوں ذہن اور نظر کھلی رکھیں۔وقت کتنا ہی پرآشوب کیوں نہ ہو گزر جاتا ہے لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جن کے پائے استقامت میں لغزش نہیں پیدا ہوتی ہے۔کوئی کتنا طاقتور کیوں نہ ہو دوسروں کے حقوق کو زیادہ دیر تک دبائے نہیں رکھا سکتا اور نہ ہی پامال کرسکتا ہے۔اردو والوں کو اپنی زبان کے فروغ و تحفظ میں سب سے پہلے اپنا گرانقدر رول نبھانا ہوگا۔بقول رالف رسل برطانوی اردو داں ومعلم کے’’اردو والوں کو خود کفیل ہوکر اور اپنے ہی وسائل کے بھروسے پر اپنی زبان کی حفاظت خودہی کرنی ہوگی‘‘۔
اہم بلاگز
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
فیملی ولاگنگ کے معاشرے پر اثرات
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں میں سے ایک برائی فیملی ولاگنگ جس کو آپ عرف عام اپنی نجی زندگی کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے جس میں آج کل ولاگر شرم و حیا کا پاس رکھے بغیر خوشی خوشی اپنے گھر والوں کو جس میں خاص طور پر خواتین کو شامل کیا جانے لگا ہے شو کرتے ہیں اور پھر ایسی ویڈیوز بنا کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کردار جہاں ہماری زندگیوں میں مثبت اثرات پیدا کر رہا ہے وہیں پر منفی اثرات بھی جنم لے رہے ہیں۔
تفریح کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی و فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کا ایک ذریعہ ولاگنگ ہے۔
پہلے پہل ولاگنگ کا آغاز صرف اور صرف اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہوا اور پھر ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لانا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری زندگی کا یہاں تک کے میاں بیوی کے نجی معاملت بھی منظر عام پر لائے جانے لگے۔
اپنے پورے دن کی روٹین کو، اپنے ذاتی معاملات کو اپنے ازداوجی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور دھیرے دھیرے حیا کا لبادہ اترتے اترتے نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ اپنے بند کمروں کے پیچھے ہونے والی روٹین کو بھی شوق کے ساتھ شیئر کرنے لگے جس کا مقصد صرف اور صرف چند لائیکس اور پیسہ کمانا ہے۔۔
اس فیملی ولاگنگ نے جہاں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کو دھندلا دیا ہے وہیں معاشرے پر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں سب سے زیادہ ان کے اندر سے شرم و حیا کی تمیز ختم ہونا ہے۔
اپنے گھر کی عورتوں کو دنیا کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرنا اور پھر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے تفریح کے نام پر نواجونوں کی منفی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نوجوانوں کے اندر دنیا پرستی کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائیشوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا اور اپنے کیئریر بنانے کے بجائے منفی عادتوں کو اپنانا اور پھر دھیرے دھیرے مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر ذہنی مریض بن جانا اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کے بجائے ناسور بن جانا اس فیملی ولاگنگ کا سب سے بڑا برا اثر ہے۔۔
حکومت اور ملحقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تفریحات کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر فی الفور پابندی عائد کرے اور سوشل میڈیا کے مثبت استمعال کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تاکہ نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے کارآمد بنا سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔