زینب ۔ ہم شرمندہ ہیں ،ہم تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتے

میڈیا کے ذریعے ایک دل دھلانے والی خبر سن کر پہلے تو یقین نہیں آیا، لیکن جب تمام نیوز چینلز نے اس خبر کو بریک کرنا شروع کیا تو آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو جاری ہوگئے۔ ایک طرف زینب کاچہرہ تو دوسری طرف اپنی بیٹی سکینہ کا چہرہ نظرآنے لگ گیا، ایک باپ ہونے کے ناطے میں اس غم کو سمجھ سکتا ہوں لیکن نہ تو اسے لفظوں میں بیان کرسکتا ہوں اور نہ زبان سے ادا کرسکتا ہوں ۔ یہ کسی سانحے سے کم نہیں ، شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں سانحات بھی آئے روز کا معمول بنتے جارہے ہیں ۔ اس سانحے پر لکھنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں، کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا لکھوں ،حکمرانوں کاسیاسی کھیل لکھوں ،معاشرے کی بے حسی لکھوں ، انصاف کا بکنا لکھوں یا محافظوں کا لٹیرا بن جانا لکھوں ۔ ؟
اس مردہ معاشرے کی چند جھلکیاں بتا رہاہوں جو آئے روز ہمیں دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں، اگر کسی محلے میں کسی بہن بیٹی کو کوئی دو کوڑی کاغنڈہ چھیڑتا ہے تو محلے والے اسے کچھ کہنے کے بجائے اس بہن بیٹی پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیتے ہیں کہ اس کا کریکٹر صحیح نہیں ہے ا س لیے تو اس غنڈے نے اسے چھیڑا ہے۔ اگر کوئی لڑکی غنڈے سے مڈبھیڑ کرلے تو کچھ شریف زادے آکر اس لڑکی کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں آپ اس راستے سے مت آیا کریں ، ان سے مت الجھا کریں ، یہ لوگ ٹھیک نہیں کہہ کراس غنڈے کی حوصلہ افزائی کردیتے ہیں ،اور اسے پوری چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ اپنی بے غیرتی والا کام پوری ایمانداری سے کرے۔ اسی طرح اگر یہی صورت حال کبھی ان کی بہن بیٹی سے پیش آجائے تو پھر وہ اپنی بہن بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ، دونوں صورتوں میں اس معمولی اور دوکوڑی کے غنڈے کو کچھ نہیں کہاجاتاہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اتنا پاور فل ہوجاتا ہے کہ وہ قانون تک کو خریدنے کی طاقت پا لیتا ہے اور ہم پھر اس کی غلامی میں جت جاتے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے لیے اس کے آگے سربجود ہوتے نظر آتے ہیں۔
زینب کا واقعہ کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے ، اس سے پہلے بھی کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن پر نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا، کیوں کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں صاف صاف فرمادیا ہے جیسے اعمال ہوں گے ویسے حکمران مسلط کیے جائیں گے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب کا بیان بھی آج آنکھوں کے سامنے سے گزرا جس میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان میں انصاف اتنا مہنگا ہے ، وکیلوں کی فیسیں دے دے کر تھک چکا ہوں ، یہ بات ایک ایسا شخص کررہا ہے جو خود کو عوامی نمائندہ کہتا ہے ، جس نے تین بار وزیراعظم کا معتبر عہدہ سنبھالا ،وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوا،وہ شخص ایسی باتیں کررہا ہے ۔؟ شاید درست ہی کہہ رہا ہے جب اپنی پر آتی ہے تو پھر سب کچھ یاد آتا ہے ، تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے کو اب جاکر معلوم ہوا کہ پاکستان میں انصاف مہنگا ہے۔ وکیلوں کی فیسیں مہنگی ہیں ۔ مگر انہیں ابتک یہ معلوم نہیں ہوا کہ ملک میں تعلیم بھی بہت مہنگی ہے ، ملک میں ادویات بھی بہت مہنگی ہیں ، ملک میں دو وقت کی روٹی کمانا بھی بہت مہنگا ہے ۔ غریب کی بیٹی کی شادیاں بھی نہیں ہورہی ہیں کیوں کہ جہیز بھی بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ صرف یہ معلوم ہوا ہے کہ انصاف مہنگا ہے کیوں کہ وہ اب اس چکر میں بری طرح پھنس چکے ہیں اس لیے اس بات کا اندازہ انہیں اب ہوا ہے۔ مگر عوام جو پچھلے ستر سالوں سے چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ ہم پر رحم کیاجائے اس کی پکار اب تک کسی نے نہیں سنی۔
زینب کے قتل کاذمے دار صرف معاشرہ ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا،ہر وہ شخص جو تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ، ہر وہ شخص جو روزگار کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ، ہر وہ شخص جو عوامی اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود عوام کے لیے کچھ نہیں کرتاوہ سب اس کے ذمے دار ہیں۔ عوامی نمائندے اپنے مطلب کے لیے راتوں رات قانون میں تبدیلیاں کردیتے ہیں ، مگر عوام کے لیے ایک بل بھی کئی کئی سالوں تک دفاتروں کی دھول میں اٹایاجاتا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو کچھ کہہ دو تو اگلے دن اسمبلی میں اس پر مذمتی قرارداد پاس ہوجاتی ہے ، پنجاب میں خادم اعلیٰ کو کچھ کہہ دو تو لمبا چوڑا بیان حکومتی مشینری کی طرف سے آجاتا ہے ، وزیراعظم کو کچھ کہہ دو تو قومی اسمبلی میں تہلکہ مچ جاتا ہے ۔ مگر عوام کو کچھ بھی ہوجائے ایک قرار داد تو دور کی بات اس پر بات تک کرنے کا وقت نہیں دیاجاتا ہے ۔
نوازشریف کو پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے لیے فوری طورپر بل پاس کرواکر چند دنوں میں اسے قانون کا حصہ بنادیاگیا لیکن عوام کے بنیادی مسائل کے لیے کوئی ایک بل تک اسمبلیوں کی سڑھیوں تک بھی نہیں پہنچایاجاتا۔
زینب ہو،طیبہ ہو ،طوبا ہو یاپھر عمران ہو، از خود نوٹس لیے جائیں گے ،قاتل بھاری فیسیں دے کر یا تو ضمانتیں کروالیں گے یا پھر کچھ عرصے بعد باعزت بری ہوجائیں گے۔ سانحات ہوتے رہتے ہیں اور ہم بھولتے رہتے ہیں ۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستان میں قانون بکتا ہے ۔ اگر قانون سخت ہوتا تو کسی میں کیا مجال تھی وہ ایسی گھٹیاپن اور درندگی کا مظاہرہ کرتا ۔ قانون ساز اداروں کے کرتا دھرتا اپنے مطلب کی ترامیم کے لیے ہروقت تیار بیٹھے رہتے ہیں ، مگر عوام کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ۔ اگر زینب کسی صاحب منصب کی بیٹی ہوتی تو شاید راتوں رات قاتل بھی پکڑ لیے جاتے اور اگلے دن قانون میں ترمیم کرکے ایسے مجرم کو سرے عام پھانسی پر لٹکانے کا بل بھی پا س ہوجاتا ، مگر زینب غریب کی بیٹی تھی اس لیے ہمیں کسی بھی قسم کی توقع نہیں کرنی چاہیے کہ قاتل اس کھوکھلے قانون کی گرفت میں آئے گا، اور اگرکسی طورآبھی گیا تو کم از کم ہمارے جیتے جی تو اسے سزا نہیں ملنے والی، صرف سماعت پرسماعت ہوگی ، انکوائریاں ہوں گی، کیس چلتا رہے گا اور قانون بکتا رہے گا۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اگر زینب جیسے سانحے کی روک تھام نہ کی گئی تو کل کو یہ حادثے غریب کی جھونپڑی سے نکل کر امیر کے محلوں تک پہنچے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ پھر اس وقت کی جانے والی قانون سازیاں کسی کام کی نہیں رہیں گی۔ اب بھی وقت ہے قانون کو مضبوط کیاجائے ، فوری انصاف کی راہ ہموار کی جائے اور سفارشیوں اور کرپٹ لوگوں کو نوکریوں سے برخاست کیاجائے تاکہ کل کوکوئی اور زینب کسی اور درندے کی حیوانیت کا نشانہ نہ بنے۔ ورنہ بقول راحت ا ندوری کے ۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا ہی مکان تھوڑی ہے

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں