سانحۂ قصور ! قصور وار کون؟

قصور میں ہونے والے حالیہ المناک سانحے نے ہر ذی شعور اور دردمند شخص کو خون کے آنسو رلا دیا ہے۔ ایک معصوم کلی کو جس بے دردی سے مسلا گیا ہے اس نے حیوانیت کو بھی شرما دیا ہے، اس کرب ناک واقعے پر تو شیطان بھی شرما رہا ہوگا۔ معصوم زینب جو گھر سے قرآن پاک پڑھنے نکلی تھی اور کسی شیطان کے ہتھے چڑھ گئی۔ پاکستان بالخصوص قصور میں تواتر سے ہونے والے یہ واقعات نہ صرف یہ کہ لمحہ فکریہ ہیں بلکہ ہمارے نظام انصاف و قانون کے کھوکھلے پن کا کھلا اعلان بھی ہے۔
قصور میں پہلی بار یہ واقعہ نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے قصور میں پے درپے ایسے واقعات ہورہے ہیں لیکن پولیس، انتظامیہ، حکومت اس کا کوئی تدارک کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ برس بھی بچوں سے زیادتی اور ان سے بد فعلی کا ایک بہت رسوا کن واقعہSCANDAL سامنے آیا تھا، جس میں قصور کے ہی با اثر لوگوں کا ایک گروہ بچوں اور نو عمر لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کرکے ان کی ویڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل کرتا تھا۔ قصور میں گزشتہ برس 11 بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوئے ان گیارہ میں سے 6 بچیاں تھیں۔علاوہ ازیں زینب کے سانحے سے چند دن پہلے بھی ایک بچی کائنات کی لاش اسی طرح ملی تھی جب کہ زینب کے واقعے کے فوری بعد ایک دس سالہ بچے کی لاش برآمد ہوئی۔ ان تمام بچوں کی لاشوں میں مشترک بات یہ ہے کہ ان تمام کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد بے دردی سے قتل کرکے لاش کو پھینک دیا گیا، اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے مطابق قصور کے حالیہ واقعات میں ایک ہی شخص کا ڈی این اے سامنے آیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سارے واقعات کا ذمے دار کون ہے؟ ان سب میں قصور وار کون ہے؟ کیا صرف وہ فرد جس نے یہ انسانیت سوز جرم کیا ہے یا اس کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل بھی یہاں کار فرما ہیں؟
جب ہم ان سارے واقعات کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں پہلی چیز جو نظر آتی ہے وہ ہے بڑھتی ہوئی بے حیائی، فحاشی، انٹر نیٹ پر موجود فحش مواد۔ یہ ایسے عوامل ہیں جو کہ اس طرح کے واقعات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فی زمانہ بے حیائی عام ہوگئی ہے، فحش مواد سرِ عام فروخت کیا جارہا ہے۔ اگر کبھی آپ میں سے کسی کا صدر ، کراچی میں ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والی سڑک ( جہاں پرندوں کی مارکیٹ ہے) جانا ہو تو آپ کو نظر آئے کہ ٹھیلوں میں فحش سی ڈیز کھلے عام فروخت کی جارہی ہیں، کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔دوسری جانب فیشن کے نام پر خواتین جس طرح کا لباس پہن رہی ہیں وہ اس حدیث مبارکہ کے مصداق ہے کہ عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی ہونگی۔اس تصویر کا تیسرا رخ فلموں اور ڈراموں میں دکھائے جانے والے مناظر اور ان میں خواتین کے لباس ہیں(فیشن ایبل لباس کے نام پر جسم کی نمائش کرنے میں مارننگ شوز کی خواتین میزبان بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔) جب کہ انٹر نیٹ اور موبائل اس حوالے سے سب سے زیادہ اثر انگیز اور تیز رفتار چیز ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں موجود موبائل دراصل ایک خودکش بمبار ہے جس سے ہماری نئی نسل بہ رضا و رغبت خود کشی کررہی ہے۔ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے ویڈیوز اور تصاویر کا سیکنڈوں میں تبادلہ کرلیا جاتاہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔جب نو عمر لڑکے اور جوان مرد ایسے مناظر دیکھتے ہیں تو ان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور پھر یہ معصوم بچے ان کی ہوس کا شکار بنتے ہیں۔
ایسے واقعات میں مجرموں کا گرفتار نہ ہونا یا گرفتار ہوکر سزا سے بچ جانے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ ہمارا پولیس اور عدلیہ کا نظام ناکارہ ہوچکا ہے۔ پولیس اب صرف سڑک کنارے موٹر سائیکل سواروں یا کینٹ اور سٹی اسٹیشن سے نکلنے والے مسافروں کو روک کر ان سے پیسے بٹور سکتی ہے، لیکن جرائم کی روک تھام ، مجرموں کی بیخ کنی، جرائم کے اڈوں کا خاتمہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔زیادہ دور نہ جائیں چند ماہ پہلے کراچی میں نمودار ہونے والے چھری مار کے واقعے کو ہی ذہن میں رکھیے، درجنوں خواتین کو زخمی کرنے والے ایک شخص کو پولیس گرفتار نہیں کرسکی حالانہ یہ ساری وارداتیں ایک مخصوص علاقے میں ہوئیں ، اگر پولیس میں اہلیت ہوتی تو ان مجرم کو پکڑنا مشکل نہ تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔مجرموں کا گرفتار نہ ہونا پولیس کی ناکامی ہے اور مجرموں کی گرفتاری کے بعد ان کو سزا نہ ہونا، مقدمے کا برسوں تک طول کھینچنا اور متاثرین کو انصاف نہ ملنا دراصل ہمارے نظام عدل کی ناکامی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالتی نظام کی اصلاح کی جائے، تاریخ پر تاریخ لینے، مقدمات کو طول دینے سے گریز کیا جائے اور فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ جب کہ مقدمے کا فیصلہ ہوجانے کے بعد مجرموں کی سزا پر عمل درآمد میں تاخیر ہونا، سیاسی بنیادوں پر ان کی سزاؤں کو موخر کرنا اور صدر مملکت کا اخلاقی مجرموں کو معافی دینا بھی ہمارے نظام کی ناکامی ہے اور اس کی بھی اصلاح ہونی چاہیے۔
آخر میں ہم یہاں ان نام نہاد حقوق انسانی کے اداروں اور غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے غیر سرکاری اداروں NGOs کا ذکر کریں گے۔ ایسے واقعات کے بڑھنے میں ان اداروں اور ان کے کرتا دھرتاؤں کا ایک بہت بڑا کردار ہے۔ یہ NGOs آزادی کے نام پر فحاشی کو فروغ دینے میں پیش پیش ہوتی ہیں، ان کے ذمے داران دین بیزار افراد ہوتے ہیں جو کہ لوگوں کو اسلام سے دور لے جانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ان کے ایجنڈے میں یہ بات شامل ہے کہ نکاح کو مشکل لیکن زنا کاری کو آسان بنایا جائے۔یہ این جی اوز اور غیر ملکی فنڈنگ پر پلنے والے ان کے ذمے داران کم عمری کی شادی پر تو بہت واویلا مچاتے ہیں لیکن اسکول اور کالجز کے طلبہ و طالبات کے باہم جنسی تعلقات پر ان کو کوئی تشویش نہیں ہوتی۔زینب جیسی معصوم بچیوں پر ہونے والے ظلم پر یہ لوگ مگر مچھ کے آنسو تو بہاتے ہیں لیکن اسکول اور کالجز کے نابالغ بچے بچیوں کو جنسی بے راہ روی کی ترغیب دینے میں بھی یہی لوگ پیش پیش ہوتے ہیں۔
اس لحاظ سے غور کیا جائے تو بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مجرم صرف وہ درندہ نہیں جو یہ فعل سر انجام دیتا ہے بلکہ اوپر بیان کیے گئے یہ تمام عوامل اور کردار بھی ایسے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے اگر یہ فعل انجام دینے والا سزا کا مستحق ہے تو ایسے فعل کی حوصلہ افزائی کرنے والے، مجرموں کی سرپرستی کرنے والے، مجرموں تک نہ پہنچنے والے، متاثرین کو انصاف فراہم نہ کرسکنے والوں کو بھی ان کی جرم، کوتاہی اور نہ اہلی کی سزا ملنی چاہیے۔

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

جواب چھوڑ دیں