سوشل چڑیا

آگ بہت شدید تھی، اور مسلسل بھڑک رہی تھی۔ اتنی بڑی شدید آگ جس کا تصور ہم، آپ نہیں کرسکتے ۔ وہ پریشان تھی، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کو کس طرح بجھایا جائے؟
آخر اس سے رہا نہیں گیا، تیزی سے گئی اور اپنے مطابق خوب بھر کر لائے گئے پانی کو آگ میں ڈال دیا!
مگر یہ کیا؟ وہ تو ایک قطرہ ثابت ہوا، مگر وہ لگی رہی، جتی رہی اپنے کام میں۔
کسی نے پوچھا کہ، بھئی اس سے کچھ ہوگا کیا؟ اپنے کام میں لگے لگے بولی، معلوم نہیں مگر میرا نام آگ بجھانے والوں میں آجائے گا۔
اس چڑیا کا کردار آج بھی زندہ ہے اس کے عمل کو بھی جاری رکھا جاسکتا ہے۔
کس طرح؟ آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔
لمحہ بہ لمحہ جس کو استعمال کیا جارہا ہو، سیکنڈ، منٹ، گھنٹے دن کا حساب موجود ہو۔افراد آئے چلے جا رہے ہیں ہوں، اس کے استعمال نہ کرنے کو تعجب سے دیکھا جائے، پیغام رسانی بہت سہولت سے ہو۔ اشتہار بازی کی سہولت موجود ہو ، اس کو کچھ اور نہیں سوشل نیٹ ورکنگ یا سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔ آسان اردو میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ کہتے ہیں۔
دوہزار پندرہ میں کل 91 سوشل سائٹس تھیں، جو کہ 2018 تک 110 سے زائد ہوگئی ہیں۔ جن میں سے کچھ جنرل ہیں اور کچھ مخصوص۔
وہ سائٹس جو مختلف طبقات میں مختلف مقاصد کیلئے استعمال ہوتی ہیں ان کی تعداد تقریباً 50 ہے۔ باقی خصوصی مقاصد پر مبنی سائٹس ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب جس کے ہاتھ میں بھی موبائل فون موجود ہے، وہ ان میں سے کسی پانچ سے ضرور آگاہ ہے۔
کسی بھی وقت ان تک رسائی حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں۔
مگر کیا ان کے اثرات بھی اسی قدر وسیع ہیں تو اس میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیئے۔
کوئی کام ایسا نہیں جو ان کے ذریعے نہیں ہو سکتا ہے۔ کسی بھی بات، معاملے، خبر، مہم کاروبار کو آگے بڑھانے، پھیلانے کے لئے سوشل سائیٹس کا استعمال ناگزیر ہے۔
اب چونکہ رسائی میں ہونے کی وجہ سے استعمال زیادہ ہے تو اثرات بھی اسی قدر ہونگے۔
اس وقت بہت زیادہ استعمال ہونے والے سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی استعمال کنندہ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،پھر کیا ان کا استعمال منفی ہے یا مثبت؟کیونکہ ان سوشل سائٹس کے حوالے سے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ مگر اہم یہ بھی ہے کہ معاشرے میں ان کو استعمال کرکے کسی بھی سوچ، بات کو لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے یہ بات بھی ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ یہ افراد کی رائے، مزاج کا معلوم کرسکتی ہیں۔بلکہ جو کچھ لکھ، شئیر، یا لائک کر رہے ہوتے ہیں ان سائٹس کی اس مواد تک بآسانی رسائی ہوتی ہے۔
اس ضمن میں یہ سوچ کر کسی مثبت، اچھی بات کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے سے ڈرنا، کسی ظلم، جبر ناانصافی کے کام کو نظرانداز کرنا کہ کہیں ہمارا شمار دہشت گرد نہ سہی دہشت گرد تنظیم سے نہ جوڑ دیا جائے۔ ہم اس، یا کسی بھی معاملے میں من اعتدال پسند رویہ اختیار کرنے والے ہوں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ جب اللہ سبحان تعالٰی کے ہاں پیش ہوں تو یہ جواز تو نہیں دے پائیں گے کہ ہم اعتدال پسند اسلام پر عمل پیرا تھے۔ایمان کے کمزور ترین سطح پر رہتے رہتے یہ آخری معاملہ بھی کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔اس میں الفاظ، جملے متوازن رکھنے ہونگے ، ایک مسلم جس اخلاق کا مالک ہوتا ہے اس کا خیال بھی رکھنا ہوگا. مگر ناپسندیدہ، ناگوار باتوں سے گزرنے کے بجائے ناپسندیدگی کا تاثر تو دیا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا کی دنیا وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے ہے ساتھ ہی اسکے معاشرے پر پڑنے والے اثرات بھی مگر اس حوالے سے ایک کام ہر فرد کرسکتا ہے کہ کہ درست کی مدد وتعاون اور غلط کو نہ آگے بڑھائیں اور نہ اس پر کوئی ردعمل دیے بغیر گزریں۔کم از کم ہمارا شمار اس چڑیا کی مانند ہو کہ آگ ہم سے بجھ نہیں سکتی لیکن ہم پانی کے قطرے ڈال کر اپنا کردار ادا کر سکیں۔

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں