جمہوری تماشہ

یوں تو وطن عزیز میں جمہوریت کا وجود کبھی بھی صحت مند نہیں رہا،اسے اپنا سفر جاری رکھنے کے لئے کبھی بندوق بردار کندھوں تو کبھی عدلیہ کی بیساکھیوں کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے.موجودہ دور حکومت میں تو مگر تمام وقت جمہوریت عملاً بستر مرگ پر ہی پڑی نظر آتی رہی.اکثر مواقع پر تو اسے وینٹی لینٹر پر بھی منتقل کردیا گیا تھا اور اس دورانیے میں اس کی زندگی سے متعلق تمام اشاریے نہایت تشویشناک صورتحال کا پتہ دے رہے تھے.جمہوریت کے تمام خیر اندیش اور نبض شناس متعدد موقعوں پر تو اس کی زندگی سے بالکل مایوس ہوچکے تھے اور انہوں نے ایسے مواقع پر کئی بار یہ پیشنگوئی کی تھی کسی بھی وقت جمہوریت کی زندگی بتانے والی لکیر بالکل ساقط ہوسکتی ہے۔
لیکن یہاں یہ بتانا بھی نہایت ضروری ہے کہ جمہوریت کو بستر مرگ پر بار بار پہنچانے میں اس کے نام سے فیض اٹھانے والوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا.یہ بات بھی کسی ذی شعور سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کی حدود وقیود اور دائرہ اختیار کیا ہوتا ہے اور وہ کون سی پالیسیز اور معاملات ہیں جن پر مضبوط سے مضبوط جمہوری ممالک میں بھی عوامی نمائندوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوتے ہیں.پھر یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں تین دہائیاں گزارنے والے اور اختیار وقوت کے تمام اصل سرچشموں سے واقفیت رکھنے والے لاعلم ہوں گے۔
اسے بدقسمتی کہہ لیں یا پھر بیوقوفی مگر مسلم لیگ ن کی تمام تاریخ یہی رہی ہے وہ ہمیشہ جان بوجھ کر بم کو لات مارنے کی کوشش میں رہتی ہے.یاد رہے کہ اس سے قبل بھی دو بار مسلم لیگ ن اپنی کچھ بے وقوفیوں اورغلط فیصلوں کے باعث ہی قبل از وقت رسوا کن انداز میں اقتدار کے ایوانوں سے نکلی تھی اور ایک طویل عرصے کے لئے اس کی قیادت کو جلاوطنی اور قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا.پچھلے تمام نا خوشگوار تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بار یہ توقع کی جارہی تھی کہ شاید مسلم لیگ کی قیادت اقتدار میں آنے کے بعد دوبارہ ان غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرے گی اور اپنا دور اقتدار سکون سے گزارنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
لیکن اس بار بھی اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد سے مسلم لیگ کی قیادت کے موڈ سے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنا طرز عمل اور زاویہ نگاہ بدلنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہے.یوں تو موجودہ حکومت کی جانب سے اب تک درجنوں چھوٹی موٹی غلطیاں سرزد ہوچکی ہیں مگر اس دورانیے میں چار مواقع پر دانستہ ایسی ریڈ لائنز کراس کی گئی تھیں کہ جن کی سزا کے طور پر واقعتاً ہمارے جیسے ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹی جاسکتی تھی.ان چار ریڈ لائنز میں سے دو کا تعلق ملک کے اندرونی معاملات سے اور دو کا بیرونی معاملات سے جڑا ہوا تھا.لیکن بہرحال یہ چاروں اتنی سنگین غلطیاں تھیں کہ اگر ان کی سزا ہمارے ملک کی گذشتہ تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پر دی جاتی تو شاید بہت کچھ تہہ وبالا ہوسکتا تھا.انہی غلطیوں کی وجہ سے عملا چند مواقع پر حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ جن کی وجہ سے جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں بہت سے شکوک وشبہات پیدا ہوگئے تھے۔
ان غلطیوں کے ردعمل میں آنے والے آفٹر شاکس کی وجہ سے جب ملک میں تھوڑی بہت ہلچل جاری تھی,تو اس وقت جمہوریت کے غیر یقینی مستقبل سے اپنے سنہری مستقبل کی امید ڈھونڈنے والے بعض افراد نے بہت سی توقعات وابستہ کرلی تھی.ان دنوں بعض دانشور اپنے آرٹیکلز اور ٹاک شوز کے ذریعے ہر روز کسی انہونی کی خبر سناتے نظر آتے تھے.کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ عنقریب مارشل لا لگنے والا ہے تو کبھی تین سال کے لئے کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کی خبریں سننے کو ملتی تھیں.ایک موقع پر تو کچھ ٹیکنوکریٹس کی جانب سے قوم کو یہ باور کرانا شروع کردیا گیا تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل صدارتی نظام میں پوشیدہ ہے اور مزید یہ نوید سنائی گئی کہ عنقریب ملک میں صدارتی نظام نافذ کردیا جائے گا۔
اس کے بعد جب احتساب اور کرپشن کے خاتمے کا نام لے کر سیاستدانوں کے خلاف ڈنڈا اٹھایا گیا تو اس وقت ایک بار پھر ایسی تمام اسٹوریز میں تیزی آگئی اور کہا جانے لگا کہ پہلے بڑے مگر مچھ پکڑے جائیں گے اس کے بعد تین سال کے لئے قومی حکومت بنے گی جو جمہوریت کے نام پر ملک میں ستر سال سے مچایا جانے والا گند ختم کرے گی.جب پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اس وقت تو بالکل ہی حد ہوگئی بعض افراد نے یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ مسلم لیگ ن کی غداری کے ثبوت مل چکے ہیں اور قومی سلامتی کے اداروں نے پوری جماعت کو بین کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے.حدیبیہ اور ماڈل ٹاؤن کیس کھلنے کی خبروں کو ایسے افراد اپنے دعوے کے حق میں ثبوت کے طور پر پیش کرتے تھے۔
لیکن اللہ کے فضل وکرم سے یہ معمولی طالب علم موجودہ دور حکومت میں پیش آنے والے بد سے بدترین حالات میں بھی جمہوری مستقبل سے مایوس نہیں ہوا تھا اور ناہی اس وقت جب اچھے خاصے باخبر سمجھے جانے افراد کی قلمی رو بہک رہی تھی کسی پراپیگنڈے کا شکار ہوا تھا.میرا اول روز سے یہ ایمان تھا کہ نا تو کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی کوئی توقع ہے اور نا ہی کسی شخصیت کو ماورائے آئین انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا.ہاں یہ ضرور کہتا رہا تھا کہ وقت کے ساتھ کچھ کردار سرکش ہوچکے ہیں اس لئے انہیں ڈرانے اور واپس اطاعت گزاری پر مائل کرنے کے لئے چھوٹے موٹے ڈراوے دئے جارہے ہیں۔
میرے اس موقف کی وجہ سے سوشل میڈیا پر میرا مذاق بھی اڑایا گیا,مجھے گالیاں بھی دی گئیں.مسلم لیگ ن کے مخالف کچھ لوگوں نے مجھے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بھی کہا اور کچھ نے تو پاکستان مخالف اور غداروں کا حمایتی بھی کہ ڈالا.دکھ کی بات تو یہ ہے کہ میری سوچ سے واقف چند نہایت قابل احترام دوستوں نے بھی یہ الزام دیا کہ شاید میں کسی سوشل میڈیا ٹیم کی ایما پر یہ سب کچھ لکھتا ہوں.طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے دوستوں نے بھی میری تحریروں کی وجہ سے مجھے جھوٹا,دوغلا,منافق اور جمہوریت دشمن جیسے القابات دے ڈالے.انہوں نے یہ کہا کہ میں محض بغض نواز شریف میں جان بوجھ کر ایسی باتیں لکھتا ہوں تاکہ کسی طرح ان کی حب الوطنی مشکوک بنائی جاسکے۔
میں اپنی محدود بصیرت کے مطابق مگر جو کچھ دیکھتا اور سمجھتا رہا وہی رقم کرتا رہا.اب گذشتہ دو ہفتوں میں جس تیزی سے حالات نے پلٹا کھایا ہے,جس عجلت میں حدیبیہ کیس بند ہوا,جس انداز سے ماڈل ٹاؤن کیس کی رپورٹ پبلک ہونے کے باوجود اس کی گرد بیٹھتی نظر آرہی ہے,جس طرح اچانک آرمی چیف نے سینیٹ کا دورہ کیا اور اس میں جو باتیں کہیں اس کے بعد میاں صاحب کی طرف سے شہباز شریف کو مسلم لیگ کے آئندہ وزیراعظم نامزد کرنے اور پھر سعودی عرب سے خصوصی طیارہ بھیج کر شہباز شریف کو بلانے سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ چلمن کی اوٹ میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے پارہے ہیں اور اب تو خود وہ لوگ بھی اس بات کو تسلیم کررہے ہیں جو اس سے پیشتر اس سب کاروائی کو احتساب بتارہے تھے۔
بہت سے قابل احترام لوگوں نے تو بہت پہلے ہی گیم ختم ہونے کی خبر سنادی تھی مگر میں ان سے نہایت ادب کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ ابھی تو بہت پکچر باقی ہے اور آئندہ کے حالات کا بڑی حد تک انحصار میاں صاحب کے رویے پر ہوگا.اگر تو وہ چند معاملات پر زبان بندی پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور شہباز شریف کو مکمل اختیار کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ سونپ دیتے ہیں تو پھر آنے والے دنوں میں سیاسی ماحول بالکل شانت ہوسکتا ہے اور کینیڈین شہری کی قیادت میں جو ٹڈی دل لشکر جمع ہے یہ بھی دارلخلافہ پر یلغار سے قبل ہی منتشر ہوجائے گا.لیکن اگر میاں صاحب اب بھی اپنی ضد پر اڑے رہے تو آنے والے دنوں میں مارا ماری کا خدشہ ہے اس کے علاوہ حکومت گرانے کے لئے کچھ مزید لاشوں کا بھی بندوبست ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فروری کے آخر میں سینیٹ الیکشن سے قبل کسی ایک دو ریفرنسز کا بھی فیصلہ سنادیا جائے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں