اسلامی اسکول‎

یہ لطیفہ کہہ لیں یا پھر تلخ حقیقت کہ ایک صاحب یورپ کے کسی ملک میں گئے جب ان کو روزگار کے حوالے سے مسائل پیش آئے تو ان کے دوست نے ان کو شراب کا کام شروع کرنے کا کہا تو ان صاحب نے کہا کہ میں مسلمان ہوں اور شراب اسلام میں حرام ہے تو ان کے دوست نے مشورہ دیا کہ کوئی بات نہیں اس کے ساتھ اسلامی لگا کر اسے، “اسلامی شراب” کہہ دو۔
پاکستان میں جب ابتدا میں نجی اسکول کھولے گئے، تو ان اسکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب عام افراد ، تھوڑا مذہبی رجحان رکھنے والے اور متوسط طبقے کے لئے خاصا الجھن کا باعث تھا، متوسط طبقہ ان اسکولوں میں داخل کروانے سے قاصر تھا. مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے چھوٹے انگلش میڈیم اسکول گلی گلی کھلنے لگے. پھر بھی تعلیم کے حوالے سے ایک بے چینی سی تھی چنانچہ ایک خاص نہج پر سوچا جا نے لگا اور اسلامی اسکول کے نام سے اسکول کھلنے لگے، جس کا مختلف طبقات میں خیر مقدم کیا گیا۔
کہیں نصاب کو اسلامی بنایا گیا، کہیں قرآن ناظرہ و حفظ کے حوالے سے والدین کے دل جیتنے کی کوشش کی گئی. کہیں کردار سازی کا نام لیا گیا اور کہیں اسلامی تعلیمات پر مشتمل نصاب و ماحول کو متعارف کروایا گیا۔
ان اسکولوں کے حوالے سوچنے والے کبھی کسی دینی و مذہبی جماعت سے منسلک ہونے کی بنیاد پر یہ کام کر رہے ہیں اور کہیں کسی فرقے کی ترغیب و ترویج کے حوالے سے۔
یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام خود کر رہے ہیں کہ یہ وہ کام ہے جو حکومت کے کرنے کا تھا اور جس کو عوام کررہے ہیں۔
ان اسکولوں میں سے تو کچھ باقاعدہ سرکاری طور پر منظور شدہ عمارت کے نقشے پر قائم ہیں، مگر عمومی طور پر چھوٹے انگلش میڈیم اسکولوں کی طرز پر گھروں / بنگلوں میں کھولے گئے ہیں.
ان اسلامک اسکولوں کے حوالے سے بہت سی خوش آئند باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ان اسکولوں کو معاشرے میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے ان میں چیدہ چیدہ باتیں یہ ہیں۔
۔ بچوں اور بچیوں کی علیحدہ کلاسز/کیمپس۔
۔ نصاب میں قرآن ناظرہ /حفظ کی موجودگی۔
۔ نصاب میں اسلامیات پر زور۔
۔ جزوی اسلامی تربیت کی موجودگی۔
۔ دینی و دنیاوی علوم کی فراہمی۔
یہ سب اور بھی بہت کچھ مثبت ہے جو ان اسلامک اسکولوں میں ہو رہا ہے. مگر جو کچھ ہونا چاہیے اس کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔
۔ ان اسکولوں کی فیس متوسط طبقے کے قابو نہیں آرہی۔
۔ نصاب پر بہت سے زاویوں سے کام باقی ہے۔
۔ اسٹاف کی تربیت سازی کا فقدان ہے۔
اساتذہ کے بارے میں اقبال کا کہنا ہے کہ
اہل دانش عام ہیں، کمیاب ہیں اہل نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
اساتذہ چونکہ اسی معاشرے سے نکل کر آرہے ہیں تو ان کے اوپر اور ان کے حوالے سے کام کی کافی ضرورت ہے۔پھر کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی بھی فیصلے کو برقرار رکھنے، لاگو کرنے کے لیے استاد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔کسی بھی تعلیمی ادارے کی پالیسیوں کے اثرات بھی براہ راست استاد پر ہی پڑتے ہیں اور پڑیں گے۔اسی وجہ سے جدید دور کی جدید اصطلاحات “ریڈی میڈ اسلام”، ” اسلامک پروفیشنل ازم” کے بعد اب کمرشل اسلامی اسکولوں کی کھیب کی کھیب تیار ہو چکی ہیں۔
جس کی وجہ سے ان اسکولوں کے مقاصد اور اثرات و ثمرات معاشرے میں اس قدر نہیں پڑ رہے ہیں جس قدر توقع کی جارہی تھی۔اس سلسلے میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے، مشترکہ پالیسیاں بنائی جائیں، نصاب پر مزید کام ہو۔اساتذہ، طلبعلموں کی تربیت کے حوالے سے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ورنہ برسوں سے ان اسکولوں کے ساتھ کام کرنا اور پڑھنے کے باوجود معاشرے میں مثبت تبدیلی کے اثرات نظر نہ آنا حیران کن عمل نہیں ہوگا۔
ان کمرشل اسلامی اسکولوں کو مکمل اسلامی اسکول بننے کے لئے بہت تگ و دو اور ایک لمبے سفر کی ضرورت ہے۔

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں