زمانہ بدل گیا ہے صاحب

’’میرا‘‘انتظار کررہی تھی۔ میں نے دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔اپنے بیگ کو سینے سے لگا لیا، یہی میرا سفری اثاثہ ہے۔جدید دور میں سفر کے نئے انداز سیکھنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ میں ٹھیرا پرانے زمانے کا آدمی، سو پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوں، کوئی قریب آکر زور سے سلام کرے تو ڈر جاتا ہوں۔ سلام کا جواب دینے سے ڈرنے لگا ہو۔ ایک بار ایک موٹر سائیکل سوارنے راستے میں آکر زور سے سلام کیا، میں نے جواب دیا، بولا پہچانا میں ذہن پر زور دے ہی رہا تھا کہ اس نے قریب آکر تفصیلی تعارف کرایا اور فون، والیٹ، اور سب کچھ لے گیا۔ اس دن سے سلام کا جواب دینے سے ڈرنے لگا ہوں۔ ایک بار راستے میں ایک صاحب مل گئے ، بہت زور سے سلام کیا بلکہ مصافحہ کے لیے ہاتھ بھی بڑھا دیئے۔ میرے ہاتھ کو ہاتھوں میں مضبوطی سے دباتے ہوئے کہا’’اپنا موبائل اور پرس دے دو،، یہ جو آس پاس دو موٹر سائیکل سوار ہیں نا، ان کے پاس’’ سامان‘‘ ہے سمجھے۔ میں کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔ بس اب میں سلام کرنے والوں سے ڈرتا ہوں، جو پہچان کراتے ہیں، ان کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہوں۔ چہرے پر اجنیت طاری کرلیتا ہوں۔ کئی بار بھانجے اور بھتیجے شکایت کرنے لگے ہیں کہ جانے ماموں کو کیا ہوگیا ہے۔ میں نے زہرہ سے پوچھا، تم گھر کیسے آئیں ؟ کریم بھائی لے کر آئے تھے۔ میں بہت دیر سوچتا رہا۔ ہمارے گھر میں کریم کون ہے۔ دو دن سے میں بھی کریم کے ساتھ ہوں۔ اکثر کو راستے پتہ نہیں ہوتے۔ کراچی میں مرکزی شاہراہیں(جنہیں مرکزی شاہراہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے) دو تین ہیں۔ پورا کراچی شاہراہ فیصل، شاہراہ پاکستان(سہراب گوٹھ سے کیماڑی) اور ناظم آباد والی شاہراہ پر چل رہا ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ کراچی بدل گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں۔ لیکن نہیں کراچی کہاں بدلا ہے۔ میں ہی بدل گیا ہوں۔ میری سوچ بدل گئی ہے، میرا انداز بدل گیا ہے، میرا اخلاق، ادب ، تمیز، رہنا سہنا بدل گیا ہے۔ اب میں سڑک کنارے کھڑا ہوکر چاٹ چھولے نہیں کھا سکتا، بھیل پوری، پانی پوری ، کچوری، پاپڑ، شکرقندی سب کچھ مجھ سے دور ہوگئے ہیں، یا میں ان سے دور ہوگیا ہوں۔شاہراہوں پر اڑتی دھول سے سانس لینا محال ہے۔ سڑک کنارے درخت دھول مٹی،دھوئیں سے سیاہ ہورہے ہیں۔ سوچتا ہوں مجھے سانس لینے میں دقت اور مشکل ہے تو یہ جو مجبوری میں برس ہا برس سے اسی طرح سڑک کنارے کھڑے ہیں، یہ کیسے سانس لے رہے ہیں۔ کیسے جی رہے ہیں۔میں پیدل چلنے سے بھی ڈرنے لگا ہوں، ابھی کل ہی کی تو بات ہے، میں نے فٹ پاتھ کو ڈھونڈا تو اس پر مکینک کی دکان کھلی تھی، اس سے آگے بند کباب کا ٹھیلہ کھڑا تھا، اس سے آگے چند بابے گدڑی بچھائے،سگریٹ کے کش لگا رہے تھے۔ میں نے ان سب کو ڈسڑب کرنا مناسب نہیں سمجھا، تو سڑک کنارے چلنے لگا ہی تھا کہ ایک رکشہ نے پیچھے سے مجھے سڑک پر اچھال دیا، میری قسمت اچھی تھی، کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی۔ میں کپڑے جھاڑ کر کھڑا ہوا، رکشہ والے سے باز پرس کرنے ہی لگا تھا کہ لوگ جمع ہوگئے، ہر کوئی رکشہ والے کا سفارشی تھا، صاحب چھوڑ دو، غلطی ہوگئی معاف کردو۔ جانے دو۔ میرا کوئی حمایتی اور طرف دار نہ تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے صاحب، نہیں نہیں میں ہی بدل گیا ہوں، میری ہی غلطی ہے۔

حصہ
mm
عطا محمد تبسم سینئر صحافی، کالم نگار ہیں،وہ خرم بدر کے قلمی نام سے بھی معروف ہیں اور ان کئی کتابیں، قاضی حسین احمد انقلابی قیادت، محبتوں کا سفر رپوژ تاژ کاروان دعوت و محبت،سید مودودی کی سیاسی زندگی، پروفیسر غفور احمد،محبتوں کا سفیر سراج الحق عوام میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں، مارکیٹنگ کے موضوع پر ان کی تین کتابیں فروخت کا فن، مارکیٹنگ کے گر، اور مارکیٹنگ کے 60 نکات اور 60 منٹ ان کے ان کے اصل نام سے شائع ہوچکی ہیں۔وہ ایک ٹی وی چینل کی ادارت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔جنگ، جسارت، نوائے وقت ایکسپریس، جہاں پاکستان میں ان کے کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ ایک اچھے بلاگر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ بیمہ کار میگزین اور بیمہ کار ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔

جواب چھوڑ دیں