ماحول دشمن پلاسٹک کی تھیلیاں

تصور کریں کہ آپ ایک مچھلی ہیں اور مزے سے وسیع و عریض سمندر میں تیر رہے ہیں کہ اچانک بلکل اچانک آپ کے سامنے ایک استعمال شدہ پلاسٹک کی تھیلی آجائے، آپ سانس لینا چاہیں بھی تو نہ لے سکیں آپ پریشان ہوکر ادھر اْدھر مڑنے کی کوشش کریں مگر جتنا سلجھائیں اتنا ہی الجھیں کے مصداق وہ تھیلی آپ سے ایسے چپکے کہ آخر کو سانس ہی نہ آئے۔ اور زندگی ختم ہو جائے۔
اسی قسم کی صورتحال سے ہر روز مختلف آبی جانور اور پرندے نبرد آزما ہوتے ہیں۔
پلاسٹک کی تھیلیوں کے جا بجا ڈھیر کسی بھی معاشرے کے ذوق کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس کا اثر نہ صرف انسانوں بلکہ زمین پر موجود ہر ذی رو ح پر پڑتا ہے. اس کے نقصانات بے شمار اور فوائد صرف چند ایک ہیں۔
پلاسٹک بیگز، جنہیں عرف عام میں شاپر (تھیلی) کہا جاتا ہے کے بنانے کا عمل آسان اور سستا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا استعمال بھی گزشتہ چالیس سال میں بڑھتا رہا ہے سوائے کچھ سالوں سے جب شاپرز (تھیلیوں) کے نقصانات کے متعلق آگاہی پھیلانے کے کام کا آغاز کیا گیا۔
اس کے لئے حکومتوں نے بھی برائے نام اقدامات کیے ہیں. جو کہ ماحولیاتی آلودگی میں تبدیلی لانے کے لئے اونٹ کے منہ زیرہ والی مثال ہے۔
ہر سال دنیا بھر میں ایک کھرب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال ہوتی ہیں. اس طرح ہر ایک منٹ میں دو ارب تھیلیاں استعمال ہو رہی ہیں۔ان میں دو طرح کی تھیلیوں کا استعمال عام ہے۔
(hdpb)مضبوط پولیتھین
( ldpb)ہلکا پولیتھین
دنیا میں اس وقت 80 فیصد ہلکا پولیتھین بیگ استعمال ہو رہا ہے جبکہ 20 فیصد مضبوط پولیتھین استعمال کیا جاتا ہے. پوری دنیا میں تھیلیوں کی وجہ سے پھیلنے والی آلودگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ تقریباً پچاس فیصد سے زائد ہے۔
تھیلیوں کے بیشمار نقصانات میں سے کچھ یہ ہیں.
یہ عموماً ایک دفعہ استعمال ہوتی ہیں۔
اس کو زمین میں مکمل جذب ہونے کے لئے نو سو سے ہزار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
یہ وزن میں بے حد ہلکی ہونے کے باعث دور تک پھیل کر ماحول پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب کرتی ہیں۔
پاکستان میں پلاسٹک کی تھیلیوں کا بڑھتا ہوا رجحان اس کو بھی کرہ ارض پر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بننے والے ممالک کی فہرست میں آگے لے جا رہا ہے۔
گیلپ رپورٹ کے مطابق کیے گئے سروے سے اس صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، جس میں سوال پوچھا گیا کہ،”آپ اپنے گھر میں سامان لانے کے لئے کس کا استعمال کرتے ہیں؟ ”
۔ پلاسٹک تھیلیوں کا
۔کپڑے کے تھیلے کا
۔کاغذ کے تھیلے کا
۔ٹوکری کا
تو 73 فیصد نے پلاسٹک تھیلی کا بتایا، 10 فیصد نے کاغذ کے بیگ کا، 13 فیصد نے کپڑے کے تھیلے کا، اور 4 فیصد نے ٹوکری کا بتایا۔
اس سروے اور کراچی شہر میں جابجا کچرے کے ڈھیر میں پلاسٹک تھیلیوں کو دیکھتے ہوئے جامعہ کراچی کے طالب علموں نے کچھ سالوں سے اس حوالے سے کام کا آغاز کیا ہے۔
ایک ایسی ہی سرگرمی کے دوران آگاہی مہم چلائی گئی جس میں مختلف بازاروں، جامعہ کراچی اور ایک نجی اسکول میں اس حوالے سے کام کیا گیا۔اس دوران عام افراد سے بات چیت کی گئی،اور ان سے سروے کیا گیا جس میں مختلف سوالات پوچھے گئے. جوابات کے خانے میں ہاں، نہیں، کبھی کبھی،کچھ حد تک، بلکل نہیں
کے آپشن دیے گئے. جس سے صورتحال مزید واضح ہوئی۔
ننانوے فیصد نے کہا کہ ان کے ہاں پلاسٹک کی تھیلیوں میں سامان آتا ہے۔
چہتر فیصد نے جواب دیا کہ ہاں انہیں معلوم ہے کہ تھیلیاں استعمال کے بعد کہاں جاتی ہیں۔
اس کے متبادل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کپڑے، کاغذ کے تھیلے کے آپشن کو چنا گیا۔
مہم سے متعلق پمفلٹ دیے گئے۔
مختلف اخبارات میں خطوط لکھے گئے۔
پلاسٹک تھیلیوں سے متعلق نیوز پیکچ بنایا گیا اور متبادل کے طور پر ماحول دوست کپڑے کا تھیلا بھی دیا گیا۔سب سے اہم کام اسکول کے بچوں کو اس حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں ہمارے اور ہمارے ماحول، ملک، معاشرے اور دنیا کے لئے کس قدر بڑا خطرہ ہیں۔
اس سلسلے میں پوسٹرز، پریزینٹیشن اور کہانی سے مدد لی گئی۔بچوں کو ریسٹ بینڈ بھی دیے گئے۔کیونکہ یہی بچے بڑے ہو کر اس ماحول کو مزید بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے. ان شاء اللہ

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

1 تبصرہ

  1. بہترین کاوش اللہ آ پکی کوششوں کو کامیابیوں سے ھمکنار کرےاود ھم سب کو عمل پیرا ہونے کی آ مین جزا ک اللہ خیر

جواب چھوڑ دیں