آج کی لڑکی کا مسئلہ صرف عشق، محبت نہیں

یہ جو چھتوں پر رنگین سنگین مناظر ڈراموں میں دکھائے جاتے ہیں اور لڑکی جس طرح دبے پاؤں آدھی رات کو چوروں کی طرح لڑکے کو ملنے جاتی ہے اور پھر کھلی لمبی زلفیں، ہری چوڑیوں کی کھنک، پازیب کی جلترنگ، دوپٹے کا لہرانا، سینے کا زیروبم، بہکتی سانسیں، اور نظریں ملتے ہی شرمانا، لجانا، دوپٹے کا کونا انگلیوں پر لپیٹنا، نزدیکیاں، بیک گراونڈ رومینٹک میوزک، ہواؤں کا سرسرانا۔۔۔ ایسے سین کا پرائم ٹائم میں چلانا، اور پردے کے اس پار کم سن جذبوں کا مچل جانا بعید از قیاس تو نہ ہو گا۔۔۔
منظر ختم ہونے کے بعد بھی ذہنوں کا اسی منظر کی سنسنی میں ٹکے رہنا، خام ذہنوں پر اس کے منفی اثرات کا پڑنا، مشکل تو نہیں۔۔۔۔
سوال تو یہ ہے کہ پھر ایسے ڈراموں کے تھیم غیرت پر مبنی ہوتے ہیں ان کا انجام مرڈر ہوتا ہے، گویا ہم بہت آسانی سے اپنے خونی رشتوں کو ویمپائر، اپنی گھر کو دوزخ، والدین کی ناموس کو ہیل کی نوک تلے مروڑ کر رکھنے اور اجنبی رشتوں کو فرشتہ اور ان کے ساتھ کو نعمت بنا کر، صرف ریٹنگز کے چکر میں، سماج کی قدریں کس ڈھٹائی سے پامال کر رہے ہیں۔آخر پیمرا نوٹس کیوں نہیں لیتا؟ کیا بیڈ رومز کے سین، ایک بیڈ پر لیٹ کر، چپک کر دکھانے ضروری ہیں؟ کیا بغیر چپکے ڈائیلاگ نہیں بولا جا سکتا؟ کیا رومینٹک ڈائیلاگ کے ساتھ پریکٹیکل کر کے دکھانا ضروری ہے؟
ہمارے بہت سے ایسے ڈرامے بھی بنے جو اپنی جاندار اداکاری سے بغیر ایک دوسرے کو چھوئے، چپکے ہوئے، اب تک اتنے مشہور ہیں کہ پڑوسی ملک کے اسٹار پلس پر بھی چلے… جیسے دھوپ کنارے، تنہائیاں، بندھن، ایلفا براؤو چارلی، دھواں، وغیرہ… جن کو آج کی نسل بھی شوق سے دیکھتی ہے۔
ان ڈراموں میں جو سب سے روشن پہلو دکھایا جاتا ہے وہ ایک لڑکی کا مضبوط کردار کا مالک ہونا ہے… مگر آج کل کے ڈراموں کے مین تھیم میں ہر لڑکی عشق و محبت کی کیفیات سے دوچار ہے، عشق میں پاگل ہو رہی ہے، لڑکے کی محبت میں باؤلی ہوکر گھر سے بھاگ رہی ہے، بس سوتے جاگتے یہی خواب بن رہی ہے… اس کی زندگی میں بس یہی مقصد رہ گیا کہ کسی طرح لڑکے کے ساتھ کو پا لے، چاہے اس کے لیے والدین کی ازلی محبت،اور گلی محلے میں ان کی عزت کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔۔۔
آخر ہمارے پدرسری سماج کے میڈیا ہاؤسز لڑکیوں کے خوابوں کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ کیوں کرتے ہیں؟ کیوں صرف ان کے خوابوں کو ایک ہی سمت دی جاتی ہے؟ لڑکیوں کو صرف عشق کے بھوت ہی میں مبتلا کیوں دکھایا جاتا ہے ؟ یہاں پر لڑکیوں کو اپنے کیریئر پر فوکس کرنے کے لیے اپنی جان مارنے کی حد تک محنت کرتے کیوں نہیں دکھایا جاتا؟
باکسنگ رنگ میں اترنے سے پہلے اپنے حریف کو زیر کرنے تک جس محنت سے گزرنا پڑتا ہے جو مہارتیں سیکھنے کے لیے اپنی توانائی کا اخراج کرنا پڑتا ہے اسے کیوں نہیں دکھاتے؟
کیوں نہیں دکھاتے، ایک لڑکی کا ڈاکٹر بننے کا سپنا، کتنی راتوں کے رتجگے کے بعد ممکن ہوا۔۔۔کیوں نہیں دکھاتے کہ روٹی گول پکانے کے لیے ہتھیلی کتنی بار جلی؟ اور کیوں نہیں دکھاتے کہ جب ایک بیٹی کینسر کے تیسرے اسٹیج پر ماں کی بیماری کی رپورٹس لے کر سیڑھیوں پر خالی ذہن بیٹھی ہوتی ہے تو وہ اس وقت زندگی ڈھونڈنے کے چکروں میں ہوتی ہے۔۔۔ چکر صرف عشق کے ہی تو نہیں ہوتے ناں…
یہ بھی تو بتائیں کہ جب ایک لڑکی ماں کی بیماری سے لڑنے کا عزم لے کر اٹھتی ہے تو ایک کائنات اس کے ہم قدم ہوتی ہے۔ بیٹی کے واحد سہارے پر ماں کی آنکھوں میں جو ایک نئی طاقت ابھرتی ہے یہ عشق کی طاقت ہے وہ ایسی عشق کی روداد کیوں نہیں سنواتے؟
بیٹی کا باپ دنیا سے ہارا جب گھر لوٹتا ہے تو تپتے صحن کی پروا کیے، ننگے پیر دوڑتے ہوئے اس کے سینے سے لپٹنے والی گڑیا اس کی ساری تھکان ختم کر ڈالتی ہے اس عشق بے مثال کو نام کیوں نہیں دیتے؟
ہمارے سماج میں کئی خواتین رول ماڈل کے طور پر ابھری ہیں۔ہزاروں رکاوٹوں، نامساعد حالات کے باوجود افواج، سیاست، طب سفارتکاری، غرض ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔
شاہدہ بادشاہ آرمی میڈیکل کور میں پہلی خاتون جنرل بنیں، یہ اعزاز پہلی بار فوج میں ایک خاتون کو ملا۔پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو تھیں کیا انھیں یہ عہدہ پلیٹ میں سجا ملا؟ کیا اس مقام پر آنے کے لیے ان کی قربانیوں کو فراموش کرنا آسان ہے؟
ایک لڑکی فضا میں جہاز اڑاتی ہے مگر قدم زمین پر رکھتی ہے روزمرہ میں ایسی کہانی دکھائی؟ نہیں تو کیوں؟
پاکستان کی پہلی پائلٹ خاتون پر فقط چالیس منٹ کی ڈاکومنٹری صرف چھ دسمبر کو دکھانا ہی واجب ہے باقی عام روٹین میں کیا ان پر ڈرامے پندرہ سے بیس قسطوں کے نہیں بننے چاہئیں؟
اپنے کیریئر پر فوکس رکھنے والی لڑکیوں کو ڈرامے کی میں ہیروئن اور ان کی جدوجہد کو ڈرامے کا مین تھیم پیش کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ہم ایسے روشن کرداروں کے ذریعے اپنی قوم کی بیٹیوں کو موٹیویٹ کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے، آخر کیوں؟
ہمارے دیہی علاقوں میں چوہدریوں، وڈیروں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی کسی نہتی لڑکی کی کوششوں کی تشہیر کیوں نہیں کی جاتی؟ آخر لڑکی ذات کو کمزور ہی کیوں دکھایا جاتا ہے جو گھر سے باہر خوف کے حصار کو توڑ کر نکلتی ہے اسے کیوں اجاگر نہیں کیا جاتا؟
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی زندگی اور ان کی اسٹریگل کی عکس بندی کیوں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں بتاتے کہ بیٹی اتنی باہمت بھی ہو سکتی ہے جو دیارِ غیر میں بڑی بڑی قوتوں کے سامنے اپنے قوم کے ایشوز پر آواز اٹھانے سے بھی نہیں ہچکچاتی۔
چھریوں کے وار سہنے کے بعد اپنے لیے خود آواز بننے والی اور انتہائی بااثر ملزم کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنے والی اس کمزور، مگر ہار نہ ماننے والی لڑکی کی جدوجہد کسی کہانی کا اہم موضوع کیوں نہ بن سکی؟
خاوند کے مرنے کے بعد بچوں کی کفالت کی بھاری ذمہ داری اٹھانے والی اس باہمت ٹیکسی ڈرائیور کو کسی ڈرامے یا فلم کی ہیروئن کیوں نہ بنایا گیا؟
بلقیس ایدھی نے کس طرح اپنے خاوند کے مشن میں اپنی ساری زندگی تیاگ دی ۔کیا ہماری نوجوان نسل کو ان کے کارہائے نمایاں دکھائے گئے؟
ایم ایس سی کیمسٹری کی گولڈ میڈلسٹ لڑکی جو پیدائشی طور پر ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہے اس کی وہیل چیئر یونیورسٹی کی تعلیم میں حائل نہیں ہوئی،کبھی ایسی نڈر لڑکی کے جذبات، احساسات سے ہمارے خام ذہنوں کو روشناس کروایا؟
کیا عشق اور ساجن کی مالا جپنا ہی زندگی کے اہم پیمانے ہیں،مقاصد رہ گئے ہیں؟ تو یقیناً آپ غلط ہیں۔
آپ کے ہاں عشق کی کہانی شروع ہوئی اور ملن پر ختم ہوگئی مگر اس کے بعد کی زندگی کی مشکلات، گھر سے بھاگنے کے بعد لڑکی کے والدین کی محلے میں زندگی، کڑھن، اور کچھ عرصے بعد ہی جب اسے بھاگی ہوئی لڑکی کا طعنہ ملتا ہے تو اسے کیا محسوس ہوتا ہے؟ کیا اس کے بعد کے سنگین نتائج سے بھی ویور کو آگاہ کیا؟
اس پدرسری سماج میں کتنے ہی کردار ہیں ایک بیٹی کے۔۔۔ مگر آپ کی آنکھوں سے ریٹنگز کی پٹی اترے تو کچھ نظر آئے ناں۔۔۔
جناب آج کی لڑکی بہت مضبوط کردار کی ہے جیسا آپ سوچتے ہیں یا پوٹریٹ کرتے ہیں اس سے بلکل مختلف۔۔۔وہ اپنے سے منسلک ان رشتوں کے کچے دھاگوں سے بندھی ہے اور ان کے ساتھ ہی زندگی سے کی گئی اپنی کمٹمنٹ بھی پوری کرتی ہے۔۔۔ مگر رشتے توڑ کر نہیں، انھی رشتوں سے جڑے رہ کر، انھی رشتوں میں سانس لیتے ہوئے وہ اپنی ساری توانائیاں صرف کرتی ہے اسٹریگل کرتی ہے، لڑتی ہے، ٹوٹتی بھی ہے مگر اپنے رشتوں کو جھکنے نہیں دیتی انھیں مرنے نہیں دیتی۔
آج کی لڑکی ہیر کی طرح رانجھا ڈھونڈنے نہیں نکلتی، نہ ہی اسے ہیر بننے میں دلچسپی ہے ۔آج کی لڑکی مضبوط اعصاب اور کردار کی مالک، زندگی کی مشکلات کو سمجھنے والی اور مقابلہ کرنے والی جانباز فائٹر ہے، یہ آپ کے ڈراموں، ڈائجسٹ کے سحر سے نکل چکی ہے۔ بہتر ہوگا اس کا وہ کردار دکھائیں جو وہ پریکٹیکل زندگی میں پلے کر رہی ہے۔
ڈرامے، ڈائجسٹ، فلم یہ ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، بہتر ہوگا کہ ان کے ذریعے مثبت رجحان کو اجاگر کیا جائے تاکہ کچے ذہنوں کی کریکٹر بلڈنگ کی بنیاد مضبوط خطوط پر استوار ہو۔
کوشش کیجئے کہ لڑکیوں کے اندر فکری شعور اجاگر کریں، غیرت کے نام پر بننے والے ڈراموں میں باپ بھائی کے کردار کو ولن کے طور پر مت دکھائیں اور دوسری طرف لڑکی اور اس کے محبوب کے کردار کو مظلوم بنا کر پیش کرنا، غلط ہے، نتیجتاً ویور باپ بھائی کے کردار سے نفرت کرے گا، اور لڑکی کے کردار کے ذریعے خوف و ڈر کی کیفیت میں مبتلا ہوگا، اور بغاوت کی طرف مائل ہو گا ایسے ڈراموں کے ذریعے رشتوں کے درمیان نفرت کو فروغ نہ دیں ہمارا سوشل سسٹم مغرب جیسا نہیں تو پھر ان جیسی اقدار کو پروان چڑھانے کا کیا مقصد ہے؟
ڈراموں کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا کام احسن طریقے سے لیا جا سکتا ہے۔ باپ بھائی کے کردار کو بھی سوچ دیں۔کرداروں کے درمیان مکالموں کے ذریعے مسائل حل کی طرف لائیں، قتل مسئلہ کا حل نہیں، اپنے دیکھنے والوں کو یہ پیغام دیجیے۔
ہم اس میڈیم کے ذریعے فکری شعور اجاگر کر سکتے ہیں، اگر ریٹنگ کے جن کو کسی بوتل میں بند کر کے مضبوط کارک چڑھا دیں تب۔۔۔۔۔
۔۔۔کوئی ہے؟؟؟

حصہ
سائرہ فاروق ایم ایس سی کی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں