چند ہفتے قبل ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔بہت بہترین انتظامات تھے۔ضرور بہت عرصے سے تیاریاں کی جارہی ہوں گی۔دلہن بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ماحول بھی انتہائی پرسکون تھا۔ہم ابھی یہی سوچ رہے تھے کہ اچانک ایک بچے کی زور دار چیخوں نے ہمیں خیالوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں آنے پر مجبور کردیا۔افففف کس قدر چیخ رہا ہے یہ بچہ آخر اس کی امی اس کی بات مان کیوں نہیں رہی ؟ ہماری طرح شاید ان آنٹی نے بھی سوچاہوگا جبھی تو بچے کی ماما سے پوچھا اس کو کیوں رلارہی ہو؟بچہ شاید کوئی چیز مانگنے کی ضد کررہاتھا۔ اس ننھے بچے کی ماما بولیں یہ کھالے پی لے جی لے مانگ رہا۔وہ آنٹی شاید سمجھ نا پائی تھیں جبھی بولیں یہ کیا ہے؟ماما بولیں کوک مانگ رہا ہے ابھی زکام ختم ہوا ہے۔جہاں کوک دیکھتا ہے “بس کھالے پی لے جی لے” کی ضد شروع کردیتاہے۔پروگرام کے اختتام تک وہ3سالہ بچہ ناچاہتے ہوئے بھی چیخ چیخ کر کھالے پی لے جی لے کی صدائیں بلند کرتا رہا۔جیسے چاہو جی لو،یہ زندگی پھر نہیں آنی،زندگی جی لے،لائف کا جم کے مزا لے،سب کہہ دو،تم ہی تو ہو،ہر قدم اپنی مرضی سے،بس یہی زندگی ہے،کھالے پی لے جی لے،جسٹ ڈو اٹ،داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔یہ تمام جملے ہمارے پاکستانی معاشرے میں اپنا ایک اہم مقام بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں کیونکہ ہم میں سے سب ان جملوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔بہترین ابلاغ کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا پیغام اپنے تمام وصول کرنے والوں تک پہنچے۔
ذرائع ابلاغ میں ایک نظریہ فرحت آوری Theory Play نظریہ کے نام سے مشہور ہے۔اسے مشہور ماہر صنعت ولیم اسٹیفن سن (Stephenson William )نے 1967 میں پیش کیا۔اس نے اپنی کتاب Play Theory of Mass Communicationمیں یہ خیال پیش کیا۔مجموعی طور پر فرحت آوری کے نظریے میں یہ چند نکات پیش کیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں:
۔۔۔ ذرائع ابلاغ کے مخاطبین اور استعمال کنندگان خود کو ایک کھیل میں مصروف کرتے ہیں۔
۔۔۔ یہ کوئی عام قسم کا کھیل نہیں۔
۔۔۔ اس کھیل میں فرد کی سراب خیالی (Fantasy)ذرائع ابلاغ سے ملنے والے مواد (Content)کے ساتھ تعامل (Interact)کرتی ہے۔
۔۔۔ اس کھیل کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔
الف۔خود انتخابی کی آزادی،
ب۔عیش وآرام کا تصور،
ج۔کچھ دیر کے لیئے اپنے دکھ اور درد پس پشت ڈال دینا،
د۔داخلی تنہائی میں ابلاغی مواد سے لطف اندوزی،
۔۔۔ اس طرح استعمال کنندہ کو ضروری اور فائدہ مند فرحت اور آسودگی ملتی ہے۔
اس نظریے کے تناظرمیں اگر ہم سماجی ذمہ داری کے نظریئے کا مطالعہ کریں تو بات بڑی اچھی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس نظریے میں لطف اندوزی ،عیش و آرام اورخود انتخابی جیسے افکار و نظریات نے یورپی معاشرے میں کیا اور کیسے اثرات پھیلائے ہونگے کہ جس کے نتیجے میں انہیں بالآخر سماجی ذمہ داری نظریہ کی ضرورت پیش آئی۔
سماجی ذمہ داری کا یہ نظریہ پریس اور دیگر ابلاغی اداروں کے آزاد روی کے نظریئے پر کاربند ہونے کے بعد ان کی غلط روی وغیرہ کے ردعمل کے طور پر طویل تحقیقی کام کی بدولت سامنے آیا۔اس نظریئے میں بتایا گیا کہ ابلاغی اداروں کو جواب دہ،جرائم کے خلاف کمر بستہ،بدعنوانی سے پاک اور خود اپنے کام کا نگراں ( Censor Self)ہونا چاہیئے۔
یہ وہ نظریات ہیں جن پر ترقی یافتہ ممالک میں بہت پہلے سب کام ہوچکا ہے۔بہت سے واقعات کے نتیجے میں بہت سے نظریات وجود میں آچکے ہیں جن کی بدولت معاشرتی ترقی میں ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
اس ضمن میں اگر پاکستان کی بات کریں تو کبھی کبھی ایسا واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ تلخ تجربات،اخلاقی گراوٹ،غلط تصورات اور بے انتہا آزادی کا غلط استعمال جس کے نتیجے میں یورپی معاشرہ روبہ زوال ہوا اب پاکستان میں نافذ العمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وہ تمام تجربات ترقی پذیر ممالک (جن میں پاکستان سرفہرست ہے)میں اپنے وفاداروں اور اپنے وسائل و امداد کے ذریعے بآسانی پھیلائے جارہے ہیں۔اس کام کے لئے غیر ملکی ممالک کو امدادکھانے والے ملکی غداروں،امراء ،دیسی لبرلز،وزراء ،جاگیرداروں،وڈیروں،کرپٹ لیڈروں،بیوروکریٹس اورلٹیروں کی ہر طرح کی معاونت حاصل ہے۔
غیر ملکی اسکول،کالجوں یونیورسٹیوں کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔کیا مقصد ہوگا اسکا؟کیا آپ جانتے ہیں 11/9 کے بعد سے اب تک لارا بش پشاور میں اپنے اسکول کی تعمیر سے لے کر اس کے قیام اس میں بچوں کی تربیت کے لئے بطور خاص خود تشریف لاتی ہیں،اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے علاوہ G_8میں دو بڑی بلند منزلہ عمارتیں امریکی اہلکاروں کے لئے مخصوص ہیں۔اسلام آباد کے بیشتر علاقوں کے علاوہ،پنجاب،سندھ،بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بلیک واٹر،را و موساد کے اثرورسوخ کے بارہا ثبوت مل چکے ہیں۔پھریہ معصوم پاکستانی عوام باخبر لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ آخر امریکہ کو کیا پڑی ہے تمہارے غربت زدہ ملک کی جاسوسی کرنے کی،یہاں اپنے نظریات کا پرچار کرنے کی،یہاں غیر ملکی جاسوس پیدا کرنے کی تمہیں غریب ملک سمجھ کر امداد دیتے ہیں ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔ہم میں سے یہ بات بہت کم لوگ جانتے کہ غیر ملکیوں کی آمد سے قبل یہی خطہ سونے کی چڑیاکہاجاتاتھا۔یہاں کی زمین سونا اگلتی تھی۔اس کے پہاڑ سبزہ اگاتے اور یہاں کے کسان اپنی فصلوں پر خوش تھے،یہان کی مقامی معیشت ترقی کرتی تھی،یہاں کوئی ہنر مند بھوکا ناسوتاتھا۔غیر ملکیوں کی آمد کے باعث صرف بنگال میں 6 بار اس قدر کربناک قحط سالی ہوئی کہ 3 کڑوڑ افراد بھوک سے مر گئے۔قیام پاکستان کے بعد بھی انتہائی نامساعد حالات رہے لیکن اس وقت کی حکومت جن میں لیاقت علی خان بھی شامل تھے بیرونی قرضہ لینے سے انکار کردیا نیجتاً انہیں سازش کے تحت شہید کردیا گیا۔ بیرونی قرضہ نالینے کے باوجود پاکستان نے جرمنی جیسے ملک کو قرضہ دیا تھا۔ پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوسکتا تھا لیکن پھر ہم قرضوں سے بندھے بیرونی امداد اور شرائط میں لپٹے ڈالروں کے باعث اس غیر ملکی شکنجے میں جکڑتے چلے گئے۔اب ہمارے سارے فیصلے امریکی اشارے کی نظر ہوگئے۔ہمارے فضائی اڈے ان کی آماجگاہ بن گئے۔ہمارے زمینی وسائل ان کے نام ہوگئے۔ہماری خود داری ان کے ہاں رہن رکھوادی گئی۔ہمارے ایمان کا بارہا سودا کیا گیا۔کبھی حقوق نسواں بل کے نام پر،کبھی حدود آرڈیننس کے نام پر ،کبھی ناموس رسالتؐ قانون میں ترامیم کے نام پر،کبھی عاشق رسولؐ کی پھانسی پر،کبھی گستاخ رسول کی جیلوں میں پذیرائی پر ،چند ٹکوں کی خاطر ہمارے ایمان کا سودا کیا گیا۔ہمیں مہنگائی لاقانونیت،سفارش اور لوٹ مار میں اتنا الجھادیا گیا کہ ہم انہی کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے جو ہمارے رہزن تھے۔ہم انہی سے مدد مانگنے لگے جنھوں نے ہمیں بے آسرا کیا تھا،ہم انہی کو اپنا رہنما سمجھنے لگے جنہوں نے ہم سے ہمارے اصل رہنما چھین لئے۔یہ کس طرح ہوا ؟یہ کام اچانک نہیں ہوابقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وہ مقصد یہاں صاف واضح نظر آتاہے۔پاکستانی عوام کو کھیل کود ناچ گانے عشق وعاشقی امیری غریبی اسٹیٹس سیمبل کی دوڑ میں اتنا الجھادو کہ انہیں پتا ہی نا چل سکے کہ ان کی کونسی قیمتی متاع ان سے چھین لی گئی۔ان کی عزت و ناموس کس کو رہن رکھوادی گئی،ان کے باغات کس کے حوالے کردئے گئے،ان کی امت کس حال میں ہے،ان کاقرآن ان سے کس بات کا متقاضی ہے،انکا قبلہ اول آج کس کو آوازیں دے رہا ہے۔ان کی ماں بیٹی کشمیر،فلسطین،شیشان،برما،ہندوستان،سنکیانگ،شام،مصر،بنگلہ دیش،عراق میں کس لیے رو رہی ہے؟سوچئے محسوس کیجیئے۔دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔