پاکستان میں نافذالعمل آئین1973 میں ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا، جس کے تحت پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنّت کیخلاف نہیں بنایا جاسکتا اب چونکہ اسلام میں سزائے موت کا تصور موجود ہے لہذا یوں سزائے موت کو پاکستان کے قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اسلام میں سنگین جرائم سرزد ہونے پرسزائے موت کے احکامات ہیں جیسے کہ قتل،اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت یا حالت جنگ میں مدمقابل کے لیے۔
دنیابھر میں سزائے موت زیادہ تر قتل یا بغاوت کے جرم میں سنائی جاتی ہے لہذا بحث کو ان ہی جرائم اور ان کے نتیجے میں ملنے والی سزائے موت تک محدودرکھا ہے۔ اسلام میں بنیادی طور پر دو قسم کے حقوق بیان کئے گئے ہیں حقوق اللّہ اور حقوق العباد، حقوق اللّہ سے مراد اللّہ کے حقوق ہیں یعنی فرائض نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ۔ ان حقوق میں کوتاہی کو معاف کرنا خالصتاً اللّہ کا اختیار ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق حقوق العباد جن کا تعلق انسانوں سے ہے یعنی ماں باپ کے حقوق، بہن بھائیوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ ان حقوق میں کوتاہی، اللّہ تب تک معاف نہیں کرتا جب تک متاثرہ شخص یا گروہ معاف نہ کردے یا پھراسلامی قانون کے مطابق مجرم کو سزا نہ دے دی جائے۔ اسلام میں قاتل شخص کے لئے معافی کا تصور بھی موجود ہے جس میں لواحقین کواختیارحاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بغیر کسی دباو کے خون بہا کی رقم کے عوض قاتل کو معاف کرسکتے۔درج ذیل چند آیات بیان کی گئی ہیں جن سے ہمیں اسلام میں سزائے موت کے احکامات سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔
“کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کردینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہوجائے( تو اور بات ہے ) جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مارڈالے اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں اگر مقتول تمھاری دشمن قوم کاہو اور ہو وہ مسلمان تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنا لازمی ہے، اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ضروری ہے پس جو نہ پائے اس کے ذمّے دومہینے کے لگاتار روزے ہیں اللّہ تعالی سے بخشوانے کے لئے اور اللّہ تعالی بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔”
دنیا بھر میں سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے میں سرے فہرست ادارہ ایمنسٹی انٹر نیشنل (AI) ہے اس ادارے نے 1977 میں سویڈن میں سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے ایک کانفرنس منعقد کی جو 1979 میں نوبل انعام حاصل کرنے میں سنگ میل ثابت ہوئی اس کانفرنس میں ایک عالمی منشور پیش کیا گیا جس میں تمام ممالک سے سزائے موت کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی اور اسی سال AI نے دنیا بھر کے ممالک میں سزائے موت کے اعداد شمار پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی تب سے ہی AI سزائے موت کو مانیٹر کرنے اور اس حوالے سے نگرانی کر نے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے ادارے کے طور پر جانا جانے لگا۔1981 میں AI نے فرانس کے صدارتی انتخابات کے دوران فرانس میں سزائے موت کے خلاف لوگوں کو متحرک کرکے بھرپورمہم چلائی اور صدارتی امیدواروں سے سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جو بعد میں نو منتخب صدرنے منطور کرلیا اور فرانس میں سزائے موت ختم کردگئی۔ نومبر 2007 میں AI نے کچھ دوسری انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں پانچ ملین لوگوں کے دستختوں کے ساتھ ایک قرار داد پیش کی جس میں اقوام متحدہ (UN) سے سزائے موت کو دنیا بھر سے ختم کروانے کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی۔ دسمبر 2007 میں UN نے اس قرار داد کو منظور کرلیا تو یوں اس مقصد میں UN بھی شامل ہوگیا ان تمام کاوشوں کے نتیجے میں اب تک 105 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کا قانون مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے اور 8 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کو فوج سے متعلق معاملات تک محدود کردیا گیا ہے اور 29 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کا خاتمہ تو نہیں کیاگیا لیکن سزائے موت پانے والے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے مجرم عمر قید کی سزا کاٹتے ہیں۔2014 تک پاکستان بھی ان ممالک میں شامل تھا لیکن آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جب نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تو سزاء پر عمل درآمد دوبارہ شروع کردیا گیا۔
اس کے علاوہ 56 ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت کاقانون بھی ہے اور اور اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔
بنیادی طور پر AI کے سزائے موت پر پانچ اعتراضات ہیں جوکہ اس ادارے کی آفیشل ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ سزائے موت ایک حتمی اور ناقابل واپسی سزاہے جس میں غلطی کا عنصر ہمیشہ موجود رہتا ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا AI کے مطابق امریکہ میں 1973 سے اب تک 150ایسے قیدی تھے جنہیں سزائے موت سنائی گئی لیکن بعد میں بے گناہ ثابت ہونے پر رہا ہوگئے اور کچھ ایسے بھی سزا یافتہ قیدی تھے جن کے مجرم ہونے پر شدید شکوک و شبہات تھے لیکن انہیں پھانسی دے دی گئی۔
مندرجہ بالا بیان کئے گئے اعتراض کی حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہo منصف بھی انسان ہوتے ہیں اور ان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن ہمیشہ بیماری کا علاج کرنا ترجیح ہوتا ہے نہ کہ بیمار عضو کو کاٹ کر پھینک دیا جائے اس لئے بجائے سزائے موت کو ختم کرنے پر توانائیاں صرف کریں ہمیں دنیا بھر میں عدالتی نظام کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے کے لئے کوششیں کرنی چاہیے نظام انصاف کو بہتر بنانے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ آخر سائنس نے اتنی ترقی کی ہے وہ کس کام آئے گی ہمیں ثبوت اکھٹا کرنے کے جدید طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے نہ کہ کسی قانون کو ختم کرنے کی کیوں کہ یہ ایک فطری قانون ہے اور اسلام بھی دین فطرت ہے اسی لئے سزائے موت کا تصور پیش کرتا ہے مثلا اگر کسی کو کوئی شخص قتل کر دے اور قا تل پکڑلیا جائے اس پر جرم بھی ثابت ہوجائے پھر مقتول کے لواحقین سے سوال کیا جائے کہ قاتل کے لئے سزا تجویز کریں تو میرے خیا ل سے 99 فیصد لواحقین موت کی سزاتجویز کریں گے اسی سے لواحقین کی تسلی ہوگی یہی انصاف کا بھی تقاضہ ہے۔
۔AI کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس بات کا کوئی قابل ذکر ثبوت موجود نہیں ہے کہ سزائے موت جرائم کی روک تھام کے لئے معاون ثابت ہوئی ہے۔
اس اعتراض کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر دنیابھر کے ممالک میں قتل کی وارداتوں کی شرح کا جائز لیا جائے جو کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات اورجرائم کی جانب سے شائع ہو تے ہیں تو درج ذیل معلو مات ملتی ہیں۔
105 ایسے ممالک بشمول 13 مسلم ممالک جہاں سزائے موت کے قانون کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی شرح 63.25 ہنڈراس کی ہے اور کم سے کم 0.51 آسٹریا کی ہے باقی ممالک میں زیادہ تر کی شرح 5 سے کم ہے۔
8ایسے ممالک بشمول 2 مسلم ممالک جہاں سزائے موت کا جزوی خاتمہ کیاگیا ہے ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی شرح 108.64 ایلسلاویڈر کی ہے اور کم سے کم 1.36 اسرائیل کی ہے۔
29 ایسے ممالک بشمول 13 مسلم ممالک جہاں سزائے موت کے قانون کا خاتمہ تو نہیں کیا گیا لیکن سزائے موت پانے والے مجرموں کو عمر قید میں رکھا جاتاہے ان ممالک میں ذیادہ سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی شرح 09۔13 وسطی افریقی جمہوریہ کی ہے اور کم سے کم 49۔0 برونائی دارالسلام کی ہے ان میں شامل باقی تمام ممالک کی شرح 13 سے کم ہے۔
56 ایسے ممالک بشمول29 مسلم ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں سزائے موت کا قانون بھی موجود ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی شرح 66 عراق اور اس کے بعد 21۔43 جمیکا کی ہے اور کم سے کم 25۔0 سنگاپور اور پھر 31۔0 جاپان کی ہے۔ پاکستان میںیہ شرح 81۔7 ہے اور ان میں شامل ممالک میں زیادہ تر کی 10 سے کم ہے۔
مندرجہ بالا اعدادشمار کو مد نظر رکھتے ہوے اس اعتراض کہ اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ سزائے موت جرائم کی روک تھام میں مدد گار ثابت ہوتی ہے سے اس حد تک تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ صرف سزائے موت کو نافذ کر لینے سے جرائم کی شرح میں کمی نہیں لائی جاسکتی اس کے لئے ان وجوہات کا خاتمہ بھی ضروری ہے جن کی وجہ سے لوگ جرائم کرتے ہیں جن میں سماجی، معاشرتی اور معاشی ناانصافیاں شامل ہیں۔ ہمارا دین اسلام بھی ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں اگر سزائے موت کا حکم ہے توساتھ ہی ساتھ سماجی معاشرتی اور معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام پر بھی بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے بغیر جرائم کی روک تھام ممکن نہیں۔لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایسے ممالک جہاں نا انصافیوں کی وجہ سے جرائم کی شرح سزائے موت کے ہوتے ہوئے بھی زیادہ ہے اگر وہاں سے سزائے موت کا خاتمہ کر دیا گیا تو جرائم کی شرح مزید بڑھ سکتی ہے لیکن ایک بات تو واضح ہے ایسے ممالک جن کی معیشت بہتر ہے اور انصاف کا نظام بھی موثر ہے اور سزائے موت بھی دی جاتی ہے وہاں قتل کے جرائم کی شرح انتہائی کم ہے جس کی مثال سنگاپور (0.25) اور جاپان (0.31) ہیں۔
۔AIکا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اکثر ممالک میں ملزم کو اپنے دفاع کا پورا حق نہیں دیا جاتا اور تشدد کے ذریعے اعترافی بیان لے کر سزادے دی جاتی ہے ان ممالک میں ایران ‘ عراق اور چین کی مثال دی گئی ہے۔
اور AI کا چوتھا اعتراض یہ ہے کہ سزائے موت کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں ایران اور سوڈان کی مثال دی گئی ہے۔
بجا طور پر ان دونوں اعتراضات میں حقیقت ہو سکتی ہے لیکن اس بنیاد پر سزائے موت ختم کرنے کے جواز تلاش کرنے کے بجائے سیاسی اور سفارتی سطح پر ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس کے ذریعے ایسے واقعات کو روکا جاسکے کیونکہ دنیا میں اور بھی قوانین اور آلات ہیں جن کے غلط استعمال سے کسی کی جان لی جاسکتی ہے تو پھر کیا سب ختم کردیا جائے ؟ نہیں بلکہ نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
۔AI کا پانچواں اعتراض یہ ہے کہ اگر کوئی ملزم غریب ہے یا کسی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے تو اس کیلئے زیادہ امکان ہے کہ اسے سزائے موت دے دی جائے اس کی وجہ مذہبی تعصب ہے اور اس کے علاوہ غربت کی وجہ سے آپ اچھے وکیل کی خدمات بھی حاصل نہیں کرسکتے اگر مدعی مالدار ہے تو وہ اچھے وکیل کے ذریعے آپ پر برتری لے جا سکتا ہے اور یہ بھی کے نچلی عدالتوں سے سزائے موت پانے کے بعد سپریم کورٹ تک اپیلیں کرنا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں۔
بے شک یہ اعتراضات بھی درست ہیں اور یہ مسئلہ دنیا بھر کے بیشتر مما لک کے نظام انصاف کو لاحق ہے غریب شخص کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ مہنگے وکیلوں کی خدمات حاصل کرسکے اور موجودہ نظام انصاف میں وکیلوں کی مہارت اور تعلقات کا مقدمہ پر کافی اثر ہوتا ہے اس سلسلے میں ایک حدیث ہے جسے اسی معنی میں لیا جا سکتا ہے۔
” رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے والوں کا شور سنا ، آپ باہر نکل کر ان کی طرف گئے اور فرمایا میں ایک انسان ہوں اور میرے پاس جھگڑا کرنے والے آتے ہیں، ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی دوسرے سے زیا دہ زبان آور ہو اور میں یہ سمجھوں کے وہ سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، میں جس شخص کے حق میں کسی دوسرے مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے ، وہ چاہے تو اسے اٹھالے یا چاہے تو چھوڑ دے۔ (صحیح مسلم)
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اقلییتوں اور غریب لوگوں کا استحصال تو اور بھی معاملات میں ہورہا ہے جو کہ بلآخر ان کی موت کا باعث بنتا ہے سزائے موت تو ایک قانونی عمل ہے چس میں بہرحال کوئی نہ کوئی جواز دیا جا تا ہے بجائے اس سزا پر اعتراض کرنے کے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ان وجوہات کے خلاف جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے جو جرائم کی وجہ بنتی ہیں جن میں تعلیم کی کمی اور مالیاتی نظام کی خرابیاں شامل ہیں تو پھر کیوں نہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوخہد کرلی جائے ؟اور دنیا بھر میں ایسے نظام کے لئے جدو جہد کی جا ئے جس میں غریبوں کا استحصال اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نہ ہو۔
یہاں کو شش کی گئی ہے کہ ان ممکنہ دلائل کو لکھا جائے جو سزائے موت کے حق میں یا خلاف دئیے جا سکتے ہیں لیکن موضوع کی وسعت اور حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کو ئی حتمی رائے نہیں دی گئی اس پر اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے جو کہ سزائے موت کے حق میں اور خلاف بھی ہو سکتا ہے لہذا سزائے موت پر فیصلہ آپ کا۔
3 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
من کی توانائی کیلیے’’ص‘‘۔
کسی اسکالر کا بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ روح اور نفس کے لئےــ’’ ص‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کو اپنی ذات میں شامل کریں جو آپکے لئے’’ وٹامن ‘‘ ثابت ہونگی۔وہ پانچ چیزیں صوم، صلوات، صدقہ، صلح رحمی، صبر ہیں۔
غور کیا تو واقعی بندہ ان پانچوں باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرلے تو اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی، اسکے تن اور من دونوں کو سکون اور تقویت بھی مل جائے گی۔
1_۔ صلواۃ جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ، ہمارا اللہ رب العزت ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے وہی ہماری سنتا ہے اس کا قرب ہی بندگی کی علامت ہے دن میں پانچ مرتبہ اسکے دربار میں حاضری دینے سے قلب کو صرف سکون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم سرگوشیوں میں اس سے مانگتے ہیں اسکی بے شمار نعمتوں پر اشکبار شکریہ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمارا رب اپنی رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھرتا جاتا ہے ،سبحان اللہ !
2۔ روح اور نفس کی پاکیزگی اور طاقت کے لئے دوسرا وٹامن صوم یعنی روزہ ہے جس میں بندہ صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے گرمی ہو یا سردی، دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور روزے کی حالت میں وہ اپنے نفس کو کسی بھی بدی کی طرف جانے سے سختی سے روکتا ہے یعنی روزہ ڈھال بن جاتا ہے برائیوں کے وار سے بچنے کے لئے بلکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے اور پھر یہی کوشش اسکے لئے اجر ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے سبحان اللہ !
3۔ مومن حقوق العباد کے بعد حقوق العباد کی پاسداری سے ہی رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے جو حقوق العباد کی پاسداری کا پابند ہوجائے تو وہ آس پاس کے تمام رشتوں کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا ہے انکے حقوق ادا کرنے کو وہ اپنے لئے لازم بنا لیتا ہے ماں باپ کا رشتہ تو سب سے افضل و اعلی ہے جس سے غافل ہوکر وہ اپنی آخرت بھی گنواسکتا ہے لیکن باقی رشتوں کا بھی خیال رکھنا اسکے فرائض میں شامل ہے جس سے غافل رہ کر وہ رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے یہ غفلت اسے اس دنیا میں بھی سکون نہیں دے سکتی نہ ہی اسکے رزق میں برکت ہوسکتی ہے اور نہ آخرت کی بھلائی حاصل ہوپائے گی جبکہ صلح رحمی کرنے والے کے لئے( یہ وٹامن) اسے دنیا کے ساتھ اخرت کی خوشیاں بھی عطاکرے گی ان شاءاللہ لہزا اس وٹامن کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا بے حد فائدہ مند ہے سبحان اللہ !
4۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ بلاوں کو روکتا ہے بیشک اس کا تجربہ سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکے ہیں اللہ رب العزت کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے اور اسکے بندوں کے لئے دنیا وآخرت کے فائدے ہی فائدے ہیں ،مشکلات اور تکالیف میں یہ صدقہ رب کی طرف سے بندے کا مددگار بن جاتا ہے اور سامنے والے مستحق کی مدد کا ذریعہ بھی، سبحان اللہ !
5۔ زندگی...
قاضی بابا
قاضی حسین احمد بہت بہادر اور ذہین انسان تھے عام لوگوں میں رہ کر کام کرتے تھے ان کا نام عام لوگ بھی عزت سے لیتے تھے چاہے وہ ان کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ قاضی حسین احمد سے میری کچھ ملاقاتیں ہوئیں جن میں میں نے ان میں محبت اور شفقت دیکھی 1993 میں جب میں نے الیکشن میں حصہ لیا تو دیکھا کہ اس وقت قاضی صاحب جماعت اسلامی میں نئی جان لے آئے تھے انہوں نے جماعت کو عام اور پاپولر بنایا ایک شادی میں جب میری ملاقات قاضی حسین احمد سے ہوئی تو وہ میرے متعلق بہت کچھ جانتے تھے حالانکہ میں بہت زیادہ مشہور نہیں تھا قاضی حسین احمد سیاست کرتے تھے تو بہادر کی طرح کھڑے ہو جاتے تھے جس کی مثال لال مسجد واقعہ ہے جس کی انہوں نے مخالفت کی اور سینٹ سے بھی استعفی دیا سینٹ میں صرف حاضری لگوانے نہیں جاتے تھے بلکہ کام کرتے اور اپنے علاقے کے لوگوں کا بھی بہت کام کیا مطالعہ بہت کرتے تھے اور مسلسل کرتے تھے مولانا مودودی کی وفات کے بعد جو خلا جماعت اسلامی میں پیدا ہوا تھا اس کو قاضی حسین احمد نے پُر کر دیا۔۔،
یہ الفاظ ہیں مسلم لیگ نون کے ایک رہنما کے جن کا تعلق سندھ سے ہے ۔۔۔۔
میں اس ہستی کے بارے کچھ لکھنے بیٹھی تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ان کی شخصیت کے کون سے پہلو پہ لکھوں کیونکہ ہمہ جہت شخصیت کو احاطہء تحریر میں لانا خاصا دشوار ہوتا ہے پھر یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ایک غیر جانبدار کی طرح لکھوں، مخالف کی طرح لکھوں یا ایک عقیدت مند کی طرح ۔حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں حیثیتوں کے ساتھ بھی لکھوں تو مواد ایک ہی ہوگا وہ اس لیے کہ ان کے مخالف بھی ان کے عقیدت مند پائے گئے اور عقیدت مند اعتدال کی راہ میں رہ کے ان سے شجاعت صداقت اور جرأت کے اسباق سیکھتے نظر آئے۔۔
یہ بات ہے جون1996 کی ۔ مجھے کچن میں ابو کی آواز سنائی دی، امی کو بتا رہے تھے
او زبردستی چلا گیا اے،
۔کس طرح۔۔،
منتظمین نے بڑا کہیا کہ بیٹا کوسٹر وچ جگہ نہیں تو نہیں جاسکدا پنڈی۔۔ او انہاں نوں دسے بغیر کوسٹر دی چھت تے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔،
یہ تو معلوم تھا کہ راولپنڈی لیاقت باغ میں احتجاجی جلسہ ہے آج جماعت اسلامی کے تحت۔اب ابو کی گفتگو سے پتہ چلا کہ میری دوست کا چھوٹا بھائ چودہ پندرہ سالہ نوجوان بصد شوق روانہ ہو گیا ہے قاضی کی پکار پر۔۔
بے نظیر حکومت کی ،روٹی کپڑا مکان ، کی ،عطا و بخشش، کی پالیسیاں ، افلاس زدہ عوام کی سسکتی بِلکتی زندگی کی محرومیوں کی قیمت پہ حکمرانوں کی عیاشیوں پہ یہ احتجاجی جلسہ ہورہا تھا۔۔۔۔
عصر کے قریب ابو خاصے دکھی لہجے میں کہنے لگے چلو سب ۔۔۔۔
کہاں۔۔۔۔؟ پی ٹی وی کی مختصر سی خبر کے الفاظ میری سماعت میں محفوظ تھے۔۔۔۔۔ یااللہ خیر ہو۔۔۔
۔۔وہ ۔۔۔ شہید ۔۔۔ہوگیاہے۔۔۔۔پولیس نے سیدھے فائر کھول دیے ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔اس کے آگے ابو کچھ کہہ نہ سکے ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میں اپنی انتہائی قریبی دوست کے...
جماعت اسلامی اور فرض کفایہ
یہ کرب و اذیت اب برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ وجود چھلنی ہے۔۔۔۔زخم زخم ہے۔۔۔اتنے ٹکڑے ہوئے ہیں وجود کے ان کو سمیٹتے سمیٹتے صدیاں لگ جائیں۔۔۔۔ صرف سوا سال کی مختصر مدت میں اتنے بڑے انسانی المیے نے کرہ ارض کے ایک چھوٹے سے حصے پہ جنم لیا ہے کہ اس سے پہلے شائد دنیا کی تاریخ میں ایسی نسل کشی نہیں دیکھی گئی۔ ظلم کی ایسی بدترین مثال نہیں ملتی۔
آج کی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ کہلانے والی قومیں !!! سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ہلاکت خیز ایجادات ،کائنات کی بلندیوں کو چھونے اور مریخ پہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے شوقین انسانوں کی درندگی نے درندوں کو شرمادیا ہے۔ اس درندگی کی سب سے بدترین مثال اسرائیل نے اور اس کے دہشت گرد یار امریکہ اور اس کے حواریوں نے پیش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلم ممالک کے سربراہان اور سیاستدانوں نے خاموش حمایت کے ذریعے اس درندگی میں اپنا حصہ بھی ڈال دیا ہے ۔ ظالم کے ظلم پہ خاموشی اختیار کرنا دراصل اس ظالم کا ساتھ دینا ہی ہے ۔ اس کے ظلم کی تصدیق کرنا اور اخلاقی جواز مہیا کرنا ہے۔
فلسطین کے ایک حصے غزہ میں جس انسانی المیہ نے آج سے چودہ ماہ پہلے جنم لیا گو کہ یہ ظلم تو کئی عشروں سےجاری ہے اور غزہ درحقیقت ایک بہت بڑی جیل ہے جس میں بقول حافظ نعیم الرحمن اکیس لاکھ انسان بطور قیدی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اب تو یہ مذبح خانہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک 45،484 افراد کی شہادت( ایک اندازہ کے مطابق تو یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جوکہ ملبے تلے دبے ہیں ) ، لاکھوں افراد زخمی ہیں، بیماری ،سردی اور بھوک سے ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔۔۔ رپورٹ کے مطابق 365 اسکوائر کلومیٹر پہ مشتمل غزہ کا علاقہ 85000 ٹن سے زیادہ بارودی بمباری کے نتیجے میں ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے ۔ شہر کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ مکانات،کاروبار،مساجد،اسکول،یونیورسٹیاں، ہسپتال ( اسرائیل کی تازہ کارروائی کے نتیجے میں آخری ہسپتال کمال عدوان ) و دیگر انفراسٹرکچر اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 40 ملین ٹن کے ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے جس کو صاف کرنے کیلئے 15 سال کی مدت اور 500 ملین ڈالر کا سرمایہ درکار ہے ۔
اس وقت غزہ کے مظلوم مسلمان سردی، بارش میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں اور ان کے خیموں پہ اسرائیلی بمباری بھی جاری ہے،خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث بھی شہادتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس موقع پہ امت مسلمہ کہاں ہیں ؟؟؟ نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی کہاں ہیں؟؟؟ نبی مہربان نے تو امت کو جسد واحد سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے جسم کے ایک حصے میں درد ہوتو پورا جسم متاثر ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مسلمان کسی تکلیف میں ہو تو پوری امت اس کرب کو محسوس کرتی ہے اور بے چین ہو جاتی ہے ۔۔۔ لیکن وائے افسوس!!! آج امت بے...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
comprehensive, balanced and well written
Muhammad shahzad
بلاگ کا موضوع انتہائ اہم ہے. بہت سے حقائق بیان کئے گئے ہیں. بہتر ہوتا اگر سردست اس بات کا بھی تذکرہ کردیا جاتا کہ پاکستان میں سزاۓ موت پر غیر اعلانیہ پابندی کب سے کب تک رہی اور اس کے محرک کون تھے.
آپ کا تبصرہ درست ہے
پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمدپر پابندی پیپلز بارٹی کے دور حکومت میں 2008 میں لگائی گئی اور 2014 تک رہی اس پابندی کی وجہ ایمنسٹی کی UN میں پیش کی جانے والی قرار داد ہی بتائی گئ لیکن خراب معیشت کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی خاطراور بیرونی دنیا میں پاکستان کا لبرل اور سافٹ امیج بنانے کی خاطر جن لابی کی خدمات حا صل کی جاتی ہیں ان کی فرمائش بھی ہو سکتی ۔