’’کیا تم اُن سے ڈرتے ہو؟اگر تم مؤمن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اُس سے ڈرو !کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤگے ؟حالانکہ ابھی تو اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے اُس کی راہ میں جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول(ﷺ)اور مؤمنین کے سوا کسی کو اپنا جگری دوست نہیں بنایا ۔جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے خوب باخبر ہے ( توبہ ۔۱۳تا ۱۶ )‘‘
زمانہ ہوا حبیبی ارتضیٰ نشاط نے اپنی ایک غزل کے یہ دو شعر سناکر ممبئی کا ایک مشاعرہ لوٹ لیا تھا کہ :
ایک سے ایک ہے رُستم کے گھرانے والا ۔ہے کوئی قبلہ اَوَّل کو چُھڑانے والا ؟
اور اک نعرہ تکبیر ۔۔بآواز ِبلند ۔۔۔۔۔اور پھر کوئی نہیں سامنے آنے والا۔۔!
ایک عرب شاعر کے بقول ۔۔:
جز ی ا للہ ا لشدائد کل خیر ۔۔عرفت بھا عدوی من صدیقی
یعنی ۔اللہ مصیبتوں کو جزائے خیر دے کہ میں نے اُن کے ذریعے دوست اور دشمن میں تمیز کر لی ہے!
یوں تو عراق و افغانستان اور یمن و سیریا سبھی امت مسلمہ کے لیے سخت امتحان تھے اور ہیں لیکن بیت المقدس تو بلا استثنا ایک ایسا Test Case،ہے کہ جس میں ناکامی عذاب ِاِلٰہی کے نزول کا باعث ہو سکتی ہے کیونکہ یہ صرف ’حرم ِ القدس‘ کا نہیں ’ حرمین شریفین‘کا مسئلہ بھی ہے !
اہل ایمان کے دائمی دشمن(المائدہ ۔۸۲) قوم یہوداور دبراہمہ(مشرکین ) دنیا کی تنہا دوایسی قومیں ہیں جو پیدائشی بلندی و پستی کے جاہلانہ و مفسدانہ نظریے پر یقین رکھتی ہیں ۔یہودی ہر غیر یہودی کو گولم GOLLAM یا GENTILEہی نہیں کہتے بلکہ اپنے تحفظ کے لیے ان کے بے سبب اور بے خطا قتل کو بھی جائز سمجھتے ہیں ۔ جبکہ اسلام انسانوں کی بلندی و پستی اور عزت و ذلت کا معیار اللہ کا تقویٰ ہے ( ان اکرمکم عند ا للہ اتقاکم )اور ایک بے گناہ کا قتل کو قرآن پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے ۔
یہ جو آجکل(دسمبر ۲۰۱۷میں) چھوٹے چھوٹے بچوں، کم سن لڑکوں اورنوجوانوں کے بے دردانہ ،بہیمانہ اور سفاکانہ قتل کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں اُن میں اس کے سوا اور کچھ نیا نہیں کہ اب یہود اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے انہیں علانیہ پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں ورنہ وہ تو اپنے نام نہاد مذہبی عقیدے کی رو سے اپنی تحریف کردہ مذہبی کتابوں میں درج احکامات کے مطابق ایسے بچوں کے قتل کو بھی درست سمجھتے ہیں جو یہودیوں سے نفرت کرنے والے غیر یہودی گھروں میں پیدا ہوئے ہوں کیونکہ بڑے ہوکر وہ بھی یہود دشمن ہوں گے !اس لیے اُنہیں بچپن ہی میں قتل کر دینا اُن کے لیے مذہباً جائز ہے ۔
حال ہی میں ایک اسرائلی پرائمری اسکول کے کسی کلاس کے ایک منظرپر مشتمل جو ویڈیو سوشل میڈیاپر ہمارے کچھ قارئین نے بھی ضرور دیکھا ہوگا ، اس میں یہی دکھایا گیا ہے کہ یہودی بچوں کی تربیت کس طرز پر کی جاتی ہے ۔
ستمبر ۲۰۱۰ کے اخباروں میں ربی عوفا یوسف کا یہ فتویٰ شایع ہوا تھا کہ ’’فلسطینیوں اور عربوں کا قتلِ عام جائز اور اُن سے رواداری حرام ہے ‘‘! در اصل اِس طرح کے اَحکامات اُن کی تحریف شدہ مذہبی کتاب ’تالمود ‘(یا تلمود) وغیرہ میں بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں کہ ۔۔۔(۱) (غیر یہودیوں کے )ہر آباد شہر کومنہدم کردو ۔(۲)(ان کے استعمال کی )ہر پاک چیز کو نجس کردو (۳)(انکے )تمام ہرے بھرے کھیتوں اور باغات کو جلاکر خاک کردو تا کہ یہودی اپنے سرمایے سے نفع اندوزی کر سکیں (۴)(اسرائلی )شہروں میں رہنے والے تمام غیر یہودیوں ،مردوں ،عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں سب کو مار ڈالو (۵) ان تمام کار آمد چیزوں کو تباہ و برباد کر دو جن پر غیر یہود قابض ہیں (۶)یہود کے علاوہ دیگر اَدیان اور اَقوام کے علما ،رؤسا اور قائدین پر دن میں تین بار لعنت بھیجو (۷)غیر یہود کو صدقہ و خیرات دینا بھی حرام ہے اور (۸ٌ)غیر یہود لوگوں کی تمام ذہنی و جسمانی قوتیں اور صلاحیتیں یہود کی ملکیت ہیں (یہی عقیدہ شودروں کے لیےبرہمنوں کا بھی ہے )۔۔وغیرہ وغیرہ ۔
درج بالا سبھی آٹھ نکات ربی اسحق شاپرہ کی کتاب ’دی کنگس توراہ (The Kings Torah ( سے ماخوذ ہیں جو ۲۰۰۹ میں شایع ہوئی تھی ۔ اس کتاب کا مقصد ہی یہ تھا ،اور ہے ،کہ اسرائل کے ہر سابقہ ،موجودہ اور آئندہ عمل کو خواہ وہ کتنا ہی غیر انسانی اور ظالمانہ کیوں نہ ہو ،ایک مذہبی جواز فراہم کیا جا سکے ۔ خواہ وہ غیر یہودی فلسطینی اور عرب مسلم بچوں کا بہیمانہ قتل ہی کیوں نہ ہو ! آج جو کچھ سوشل میڈیا پرصہیونی فوجوں کے ویڈیوز کی شکل میں دنیا دیکھ رہی ہے ،ربی شاپرہ کی ۲۳۰ صفحات کی انگریزی زبان میں یہ کتاب آٹھ سال قبل اسی کو جائز ٹھہرانے اور جواز فراہم کرنے کے مقصد سے شایع کی گئی تھی ۔ربی یوسف الیزر اس کتاب کے کو آتھر ہیں۔