اور بقول علامہ جوادی ’’ انسان کے’ کردار کا کمال ‘نہ تنہا قول سے ظاہر ہوتا ہے اور نہ تنہا عمل سے ۔اور عمل کا کمال بھی نہ تنہا انفرادیت سے حاصل ہوتا ہے ،نہ تنہا اجتماعیت سے ۔ بلکہ کردار کا ’کمال ‘یہ ہے کہ ’خیر ‘ کے تمام شعبے اس کی ذات میں اس طرح اکٹھا ہو جائں کہ انسان ہر شعبہ حیات میں صاحب خیر (اور صاحب کمال )کہلائے ۔’’اور اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی جو لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے ،نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں اللہ کے اطاعت گزار بندوں میں سے ہوں۔ نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی اس لیے تم برائی کا جواب احسن (بہترین ) طریقے سے دو(تو یہ ہوگا کہ )جس سے تمہاری دشمنی ہے وہ ایسا ہو جائے گا جیسے گہرا دوست ! اور یہ صلاحیت انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو (مصیبتوں اور برے سلوک پر ) صبر کرنے والے ہوتے ہیںاور یہ نعمت انہیں کو حاصل ہوتی ہے جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں (سورہ حم سجدہ (سورہ فٰصِلٰت) (آیات ۳۳ تا ۳۵ ) یعنی انسان اسلام کا اعلان کرے یہ یہ زبان اور ’قول کا کمال ‘ہے ۔پھر عمل صالح کرے کہ یہ اعضا و جوارح اور ’کردار کا کمال ‘ہے اور پھر(ان دونوں انفرادی کمالات کے حصول کے بعد ) دوسروں کو بھی اللہ کی طرف دعوت دے کہ یہ ’اجتماعیت کا کمال ‘ہے ۔تنہا انفرادی اعمال کسی انسان کے ’’کمالِ کردار ‘‘ کا ذریعہ نہیں بن سکتے تا وقتیکہ کہ اجتماعی اور سماجی حالات پر نگاہ نہ رکھی جائے اور بندگان خدا کو اللہ سبحانہ کی طرف دعوت نہ دی جائے ۔اللہ ہر شخص پر دوسروں کی ہدایت کرنے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے اور ہر شخص سے اس کے معاشرے کے بارے میں بھی سوال کیے جانے کا اعلان کرتا ہے ۔امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کا مطلب بھی یہی ہے کہ نہ صرف انسان سے اُس کے انفرادی کردار کے بارے میں سوال کیاجائے گا بلکہ اجتماعی حالات کے بارے میں بھی اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنا فرض امر و نہی ادا کیا یا نہیں ! اگر سماج بگڑا ہوا ہے ،جیسا کہ فی زمانہ ہم سب کا عام مشاہدہ ہے ،تو اس کا جواب تو ہر انسان کو دینا ہوگا کہ اس فساد فی ا لارض میں ،جو انسانوں کے اپنے کرتوتوں ہی کا نتیجہ ہوتا ہے ،خود اس کی خاموشی اور نام نہاد گوشہ نشینی کا کتنا حصہ ہے کہ عام طور پر معاشرتی تباہی مصلحین کے سکوت ِبے جا اور بے محل تقدس ہی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔
مطلب یہ کہ ’عزیز جہاں‘ ہونے کے لیے خدمت ،احسان،ایثار اور انفاق لازمی ہیں ،کسی بھی طرح کا ظلم اور نا انصافی نہیں،ہر گز نہیں کہ ظلم تو بالآخر خود ظالم کی ذِلَّت اور بربادی پر مُنتَج ہوتا ہے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم قطع رحمی ،حقوق ا لعباد کی ادائگی سے مجرمانہ غفلت ،خود غرضی بے انصافی اور ظلم کے اس دھارے میں شامل ہیں جس میں پوری دنیا کے بندگان ابلیس ,دائمی قعر مذلت اور نار جہنم کی طرف آنکھ بند کر کے بہے چلے جارہے ہیں! قرآن کہتا ہے :’’کیا وہ شخص ،جو یہ جانتا ہے کہ جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا سب بر حق ہے ،اس شخص کے جیسا ہوسکتا ہے جو بالکل اندھا ہے (ہر گز نہیں۔لیکن ) اس بات کو صرف صاحبان عقل ہی سمجھ سکتے ہیں (وہ) جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور کبھی کسی میثاق (عہد اور معاہدے ) کو نہیں توڑتے (یعنی کبھی عہد شکنی اور وعدہ خلافی نہیں کرتے ) اور جو اُن تعلقات کو قائم رکھتے ہیں جنہیں اللہ نے قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ،جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور جویوم حساب سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔اور جنہوں نے صرف اللہ کی مرضی حاصل کرنے کے لیے (مصیبتوں اور برائیوں پر ) صبر سے کام لیا ہے،نماز قائم کی ہے اور ہمارے (دیے ہوئے ) رزق میں سے خفیہ اور علانیہ اِنفاق کیا ہے اور جو (ہر ) برائی کو نیکی کے ذریعے دفع کرتے ہیں ،آخرت کا گھر انہیں کے لیے ہے (جہاں ) ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں ،جن میں یہ خود اور اُن کے آبا و اَجداد اور اَزواج و اَولاد میں سے سارے نیک بندے داخل ہوں گے۔ ملائکہ (فرشتے )،جو ان کے پاس ہر دروازے سے حاضری دیں گے ،اُن سے کہیں گے ’تم پر سلامتی ہو ‘(سلام علیکم ) کہ تم نے صبر کیا ہے (جس کے صلے میں ) آخرت کا یہ گھر تمہاری بہترین منزل ہے ۔(اس کے بر خلاف ) جو لوگ اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں اور جن سے ہمیشہ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اُن سے قطع تعلق کر لیتے ہیں ،اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اُن کے لیے (اَبدی ) لعنت ہے اور (جہنم کا ) بد ترین ٹھکانہ ! اور جس کے لیے اللہ چاہتا ہے (اُس کے ) رزق کو وسیع یا تنگ کر دیتا ہے ۔ یہ لوگ دنیا کی(تھوڑی سی ) زندگی سے خوش ہیں جبکہ آخرت کی (ہمیشہ رہنے والی )زندگی کے مقابلے میں یہ ’حیات ا لدنیا ‘ ایک متاع قلیل کے سوا اور کچھ بھی نہیں (سورہ رعد آیات ۱۹ تا ۲۶)۔