آئیے ماتم کریں

نو پارکنگ ۔۔۔دیوار کے ساتھ گاڑی کھڑی نہ کریں ۔۔۔انتظار کر نا منع ہے۔۔۔بغیر اجازت اندر آنے والے کو گولی مار دی جائے گی۔۔۔دیوار کودنے والے کو گولی مار دی جائے گی۔
کار ساز روڈ پر شدید ٹریفک جام تھا ۔حسن اسکوائر سے آتے ہوئے بے ساختہ بائیں جانب نظر اُٹھی ۔مرکزی سڑک کے ساتھ سروس روڈ دیوار اُٹھا کر بند کر دی گئی ہے اور ساری دیوار پر اردو زبان میں یہ ہدایات لکھی ہوئی ہیں ۔کنکریٹ کی ایک دیوار فٹ پاتھ اور اس کے بعد سروس روڈ کے درمیان حائل ہے اور عوام کے لیے بند ہے ۔اس دیوار کے اوپر خاردار تاروں کی باڑھ ہے ۔اس دیوار سے پہلے ایک اور آہنی تاروں کی باڑھ ہے، لگتا ہے کہ حفاظتی انتظامات کی سب سے زیادہ ضرورت اس علاقے کو ہے ۔جو سروس روڈ بند کر دی گئی ہے ۔اس کے پیچھے یقیناً کوئی قلعہ نما حفاظتی انتظامات ہوں گے ۔کسی بھی کینٹ کے علاقے سے گزر جائیے ۔حفاظتی انتظامات کا یہی تام جھام نظر آتا ہے ۔
قلعہ کی دیواروں سے ملتی جلتی دیواریں اور اس کے اوپر خاردار تاروں کی باڑھ ،آہنی دروازے اور ان سے جھانکتے میرے ڈھول سپاہی ۔
ٹھیک ہے جان تو سب کو پیاری ہو تی ہے لیکن میں ماتم کر نا چاہتا ہوں زرغون روڈ کوئٹہ کے چرچ کے اپنے مسیحی بھائیوں کا ۔مولود مسیح سے چند روز قبل اتوار کی دعائیہ تقریب میں 400مردو عورتوں کا اجتماع، حضرت عیسیٰ مسیح اللہ کو خراجِ عقیدت پیش کر نے جمع ہوا تھا کہ دو گمراہ دہشت گرد اپنے گمراہ قائدین کی ہدایت پر جنت کی تلاش میں چرچ پر حملہ کرنے پہنچ گئے ۔
میرا سلام پہنچے اس چوکیدار کو کہ اس نے ان کو سب سے پہلے روکا ۔سلام ہو پولیس کے ان سپاہیوں پر کہ جو دن رات ہماری تنقید کا نشانہ بنتے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ شہادتیں بھی ہماری بہادر پولیس کے حصے میں آتی ہیں ۔
یہ پولیس والے نہ تو ان دیواروں کے حصار میں رہتے ہیں جن پر یہ ساری ہدایات لکھی ہو تی ہیں جن کا ذکر میں نے بلاگ کے شروع میں کیا تھا نہ وہ اپنی وردیاں اُتار کر گھروں کو جاتے ہیں نہ ان کے پاس کاروں اور جیپوں کے فلیٹ ہو تے ہیں ۔جو چوراہوں اور سڑکوں پر کھڑے ہماری حفاظت کر تے ہیں۔
سلام پولیس کی وردی پہنے ہوئے ان جان فروشوں کو کہ جو ہر تنقید کے جواب میں ہم پر جان نچھاور کرتے ہیں۔
سلام کوئٹہ پولیس ۔سلام پاکستانی پولیس

حصہ
شکیل خان ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ ادب اور ادبی سرگرمیوں بالخصوص شاعری سے شغف رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں