دنیا۔۔۔۔ دھوکے کا گھر

Hand made earth toy on hands

یہ عین ممکن ہے کہ آپ صوم و صلوۃ کے پابند ہوں، خداترسی کی زندگی گزار رہے ہوں، گناہوں سے بچتے ہوئے، ہمہ وقت نیکیوں کے حصول کے لیے کوشاں ہوں مگر پھر بھی مسائل اور پریشانیوں نے آپ کو گھیر رکھا ہو۔ اس کے برعکس آپ ہی کے آس پاس کوئی ایسا انسان بھی ہو جو ڈنکے کی چوٹ پر اللہ کا باغی ہو۔ نہ صوم و صلوۃ کا پابند اور نہ اچھا مسلمان، الٹا گناہوں اورکبائر میں دھنسا ہوا ہو، مگر پھر بھی آپ سے زیادہ خوشحال اور مطمئن زندگی گزار رہا ہو۔
یہ عین ممکن ہے کہ آپ اللہ سے صبح و شام کثرت سے دعائیں مانگتے ہوں۔ ہمہ وقت اسی کے در پہ پڑے رہتے ہوں، اسی کو اپنے دکھڑے سناتے ہوں، اپنے رزق اور کاروبار میں برکت یا نوکری میں ترقی کے لیے التجائیں کرتے ہوں مگر آپ کو لگے کہ آپ کی سنی نہیں جا رہی۔آپ کی دعائیں قبول نہیں ہو رہیں، اس تک پنہچ نہیں پا رہیں، وہاں سے کوئی جواب آ نہیں رہا۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ بے اولاد ہوں، اللہ سے دعائیں مانگ مانگ کر تھک چکے ہوں مگر مراد پھر بھی بر نہ آئی ہو۔ کئی رشتہ داروں اور دوستوں کے کہنے کے باوجود کسی بزرگ کے مزار پر جا کر اولاد مانگنے سے بچ رہے ہوں۔ پھر،آپ کے خاندان، دوستوں یا جاننے والوں میں سے کوئی بے اولاد جوڑا کسی بزرگ کے مزار پر حاضری دے تو اولادی بن جائے، اس کی دیکھا دیکھی آپ بھی اس بابے کی قبر پر جا کر ماتھا ٹیکیں اور آپ کو بھی اولاد مل جائے۔
یہاں، یہ بھی ممکن ہے کہ نیک آدمی کو بری عورت اور بری عورت کو نیک شوہر مل جائے۔ اسی طرح کسی ولی کے گھر میں شیطان اور کسی شیطان کے گھر میں ولی کی ولادت ہو جائے۔ خوبصورت شخص کو قبول صورت بیوی اور واجبی چہرہ دار کو خوبصورت بیوی مل جائے یا اچھے شخص کو برا پڑوسی مل جائے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اذان کی آواز سن کر نماز نہ پڑھتے ہوں، زکات فرض ہونے کے باوجود ادا نہ کرتے ہوں، رشوت بھی لیتے یا دیتے ہوں، کاروباری دونمبریاں بھی کرتے ہوں، نوکری بھی ٹھیک سے نہیں کرتے ہوں، شعبدہ بازیاں بھی دکھاتے ہوں مگر پھر بھی کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہوئے بغیر، ہموار زندگی گزار رہے ہوں اور دل ہی دل میں سوچ رہے ہوں کہ اتنے سال سے قدرت کی لاٹھی حرکت میں نہیں آئی تو آئندہ بھی کیوں آئے گی؟
یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے دل میں اللہ، کسی انسان یا کسی چیز کی شدید محبت ڈال دے اور اس چیز کی محبت آپ کو اللہ کی یاد اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غافل کردے۔ مثلاََ، آپ کو کرکٹ بہت پسند ہے۔ میچ کے آخری لمحات ہیں اور مقابلہ بڑے کانٹے کا ہے۔ مگر نماز کا بھی وقت ہو چکا ہے اورآپ کے قدم بجائے مسجد کی جانب بڑھنے کے، زمین پر جم گئے ہیں۔ مثلاََ،آپ دوکاندار ہیں، عین نماز کے وقت آپ کے پاس گاہک بھیج دیا گیا۔ اب نماز پکڑتے ہیں تو گاہک چھوٹتا ہے۔ یہ سب اس انداز سے آپ کے ساتھ پیش آ جائے کہ آپ سمجھیں کہ یہ سب ’’اتفاقی‘‘ تھا، جب کہ وہ مالک کی جانب سے ’’پری پلانڈ‘‘ تھا۔
یہ دنیا ہے۔ یہ دھوکے کا گھر ہے۔ اور یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ اس لیے کہ یہ دارالعمل ہے، دارالجزا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ’’بعض کو بعض سے آزمانے‘‘ کی جو بات کی ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ آپ کو بہت سے نافرمان خوشحال نظر آئیں گے اور بہت سے ایمان والے بدحال۔ سطح بین لوگ، انسانوں کی ظاہری حالت کو دیکھ کر رائے قائم کر لیتے ہیں کہ اللہ اس بندے سے خوش ہے یا ناراض۔ مگر وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ یہ سب تو مالک نے محض لوگوں کی آزمائش کے لیے کیا تھا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں