بچوں کو اپنا بنائیے

Mother Muslim and her son in the nature, reading together

آپ سروے کرلیں آپ کو ننانوے فیصد مائیں اپنے بچوں سے ناخوش اور پریشان دکھائی دیں گی۔ ان کے بچے ان کی بات نہیں سنتے ہیں ، شرارتیں کرتے ہیں ، ہر وقت موبائل ، لیپ ٹاپ یا ٹیب پر کارٹون دیکھتے یا گیم کھیلتے رہتے ہیں ، بے انتہا بدتمیز اور نالائق بھی ہو گئے ہیں۔ بات بات پر چڑ چڑا پن اور غصہ بھی دکھاتے ہیں۔ پڑھائی میں بھی انکا دل بالکل نہیں لگتا ہے۔ آپ کسی بھی ماں سے پوچھ لیں آپ کو سوائے ان شکایتوں کے اور کوئی شکایت نہیں ملے گی۔ اور آخر میں ایک ٹھنڈی آہ کے ساتھ یہ جملہ بھی’’ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں ؟‘‘۔ آپ ماؤں سے صبح سے رات تک چوبیس گھنٹوں کے دوران ان کے کیے گئے کاموں کی فہرست بنوالیں۔ آپ یقین کریں سوائے سونے ، کھانے ،ڈرامے دیکھنے اور موبائل کے علاوہ حد سے حد کھانا پکانے اور صفائی کے کوئی اور قابل ذکر کام انھوں نے نہیں کیا ہوگا۔ ہم صبح سے شام تک اور شام سے رات تک مارننگ شوز ، ڈرامے اور سوشل میڈیا کے سوا کوئی اور کام نہ کریں اور چاہیں کہ بچے ڈاکٹر عبد القدیر خان بن جائیں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ آپ بچے کو موبائل میں کارٹون لگا کر دے دیں اور خود ڈراموں میں لگ جائیں۔ بچہ کچھ پوچھنا چاہے تو دھتکار دیں۔ اپنی سوانح عمری سنانے لگ جائیں اور چاہیں کہ بچہ باادب نکلے تو مان لیں کہ آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں ، میں نے خود دیکھا ہے مائیں بچوں کو چیخ کر بولتی ہیں کہ چھوٹے بھائی سے چیخ کر بات نہیں کرتے ہیں ، باپ ایک زور کا ہاتھ لگا کر کہتا ہے ’’منع کیا ہے نا کہ ہاتھ مت چلایا کرو۔‘‘ موبائل پر بچے سے کہلواتے ہیں کہ بول دو بابا سو رہے ہیں یا ممی گھر پر نہیں ہیں۔ اور بچے کو نصیحت بھی کرتے ہیں کہ’’ جھوٹ بولنا بری بات ہوتی ہے‘‘۔ بچوں کے سامنے جھوم جھوم کر اور ہنس ہنس کر لوگوں کو بیوقوف بنانے کے قصے سناتے ہیں اور اولاد کے ایماندار ہونے کی تمنا کرتے ہیں۔ ہم بھی بڑے معصوم لوگ ہیں۔ کانٹے بوتے ہیں اور پھول لگنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ بچے نے کبھی گھر میں کوئی کتاب نہیں دیکھی اور اگر دیکھی بھی تو اماں یا ابا کے ہاتھ میں نہیں دیکھی اور ہم چاہتے ہیں کہ بچہ پڑھنے کا شوقین نکلے۔ کبھی اس نے اپنے ماں اور باپ کو قرآن کی تلاوت کرتے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا ، کبھی کسی کتاب پر ڈسکشن کرتے نہیں دیکھا اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ قرآن کا عاشق بن جائے۔ آپ یقین کریں میں نے جتنی بھی نبیؐ کی سیرت پڑھی ہے مجھے ان کی دعوت کی کامیابی میں سوائے عمل کے اور کوئی دوسری چیز نظر نہیں آئی۔ پہلے آپ نے دو پتھر اپنے پیٹ پر باندھے پھر اپنے ساتھی کو صبر کی تلقین کی۔ اللہ کے نبیؐ نے کبھی اپنی سوانح عمری لوگوں کو نہیں سنائی۔ ہمیشہ اپنے عمل سے ان کو عمل پر آمادہ کیا۔ کبھی ہم نے اپنے بچوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم نے تو بس اس کو بڑے بڑے لوگوں کے قصے سنائے ، اس پر خرچ کیا جانے والا پیسہ اور اپنی آنکھوں میں سجے خواب پیش کیے۔ ہم نے کبھی اپنے بچے کی ذہنی سطح پر آ کر معلوم بھی کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیا چاہتا ہے ؟۔’’ تمھیں کیا معلوم بیٹا ! ہم نے دنیا دیکھی ہے ‘‘ جیسا جواب دے کر پہلی ہی دفعہ خود سے دور کردیا۔اب اگر آپ نے کبھی اس کو کچھ اچھا سمجھانا بھی چاہا تو وہ کیسے سمجھے گا ؟ وہ تو جانتا ہے کہ ابھی آپ پھر اپنی قربانیاں اور بچپن سے بڑھاپا سب اس کو سنانا شروع کردیں گے۔
خدارا ! بچوں کے دوست بن جائیے۔ ان کو سمجھنے کے لیے سنیں جھڑکنے کے لیے نہیں۔ ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ، ایک دوست اور ساتھی کی طرح سنیں ، کسی جلاد کی طرح نہیں۔ بچے کو اپنائیت کا احساس دیجیے۔ اگر آپ نہیں دیں گے تو کہیں باہر سے اس کو کسی غلط قسم کا احساس کرنے والے مل جائیں گے۔ کبھی اپنے بچے کے ساتھ کوئی کتاب لے کر بیٹھ جائیں۔ کبھی کوئی اچھی سی کارٹون فلم اس کے ساتھ دیکھ لیں۔ کبھی اس کے لیے اپنا ضروری فون جان بوجھ کر کاٹ دیں۔ اور اس کی بات کو سنیں تا کہ اس کو یہ یقین ہوجائے کہ آپ اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔کبھی اپنی کوئی میٹنگ ، اپنی سہیلی کے گھر جانا اپنے بچوں کے لیے ،ملتوی کردیں۔ اپنا موبائل زیادہ تر سائلنٹ پر رکھیں۔ کوشش کریں ’’ کال بیک ‘‘ کرنے کی عادت ڈالیں۔ رات کا کھانا ساتھ بیٹھ کر کھانے کی کوشش کریں اور اس دوران موبائلز کو خود سے دور کرلیں۔ کوئی وقت بنائیں جس میں ٹی وی موبائل اور لیپ ٹاپ کا استعمال سب کے لیے ممنوع ہو۔ سب آپس میں ایک دوسرے سے دن بھر کی روداد شیئر کریں۔ بچوں کے لیے تعلیم بوجھ نہ بنائیں ان کو پریشان کرنے والے مضامین میں ساتھ بیٹھ کر مدد کریں۔ ان کو لگے کہ آپ ان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے آپ کے لیے آپ کی دوکان ، کاروبار اور ملازمت کے مسائل ہوتے ہیں۔ خود بے مقصد زندگی گذارتے ہوئے اولاد کو بامقصد زندگی گذارنے کا درس نہ دیں۔ یقین کریں جس دن آپ کی زندگی کا کوئی مقصد بن گیا اولاد خود بخود اس کو اپنا مقصد بنا لے گی شرط یہ ہے کہ آپ کا اولاد کے ساتھ تعلق ’’ جذباتی‘‘ ہو نہ کہ’’ سرسری ‘‘۔ جس دن ماں اور باپ نے اولاد کی تعلیم و تربیت کو اسکول کے بجائے اپنی ذمہ داری سمجھ لیا اور بچوں کو سمجھنے کے لیے سننا شروع کیا نہ کہ سمجھانے کے لیے۔ آپ کی اپنے بچوں سے شکایتیں خود ہی دور ہوجائیں گی۔ اس لیے اولاد کو اپنائیے اور اپنا بنائیے۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

4 تبصرے

جواب چھوڑ دیں