ماں کی گود،پہلی درس گاہ

میں کل سے بہت پریشان ہوں، نماز پڑھ کر اللہ سے توبہ بھی کی کہ کہیں میری تو غلطی نہیں،اس خاتون نے کہیں جھوٹا قرآن نہ اٹھا لیا ہو۔۔۔
بریک (ہاف ٹائم ) ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ بچوں کو کام دے کر میں چائے بنانے کے لیے پانی چالھے پر رکھنے گئی۔ یہ ہمارا آفس پلس کلاس ہے ،اسکول کی حالت مخدوش ہونے کے سبب کلاس آفس میں لگتی ہے۔( کلاس سوئم میں صرف دس بارہ ہی بچے ہیں جن کی عمریں 8سے 11سال تک ہیں)
چائے چولھے پررکھ کر واپس آکر بیگ کی جیب سے پیسے نکالنے چاہے کہ بسکٹ منگوانے کے لیے، تو پیسے غائب ،پورا بیگ پلٹ دیا، اسکول آتے ہوئے پچاس روپے کے دو نوٹ سامنے جیب میں ڈالے تھے،جو اب نہیں تھے ۔ہاف ٹائم کے بعد کلاس میں سب پوچھا تو پہلے تو بچے انکار کرتے رہے تھے لیکن جب سختی کی تو ایک بچی نے قبول دیا کہ بھائی ( ساتھ اسی کلاس میں ہے ) نے نکالے تھے اور ہم نے باہر سے چیز کھالی اس سے۔ابھی پچھلے ماہ بھی میرے دو ہزار روپے بیگ سے غائب ہوگئے تھے، ہزار ہزار کے تین تین نوٹ رکھے تھے ،بیگ کی اندرونی جیب میں اس میں سے دو غائب تھے حالانکہ اندر چھپا کر چھپا کر رکھے تھے گھر پر شوہر سے پوچھا بہت ناراض ہوئے۔
بچوں سے تفشیش کرتے ہوئے اس رقم کی یاد آئی تو اس کا بھی ان سے پوچھا کہ ممکن ہے وہ بھی نکالے ہوں باوجود اس کے یقین بالکل نہیں تھا کہ اتنے اندر رکھی رقم کا بچوں کو کیسے علم ہوسکتا ہے مگر حیرت اسوقت ہوئی جب ان دونوں نے اس کا بھی بتادیا کہ جی ہم نے آپ کے بیگ سے نکالے تھے۔
بے یقینی کے عالم میں ان سے پوچھا کہاں سے اور کتنے نوٹ تھے؟ وہ سب کچھ صحیح بتانے پر پوچھا کہ کیا کیا ان پیسوں کا؟تو کہنے لگے امی کو دیے تھے۔
اور امی نے کچھ نہیں کہا۔۔۔؟
بتایا تھا انھیں ہم نے کہ اسکول سے ملے ہیں۔۔۔
یہ سب سن کر بچوں کو چھٹی پر روک لیا اور ان کی والدہ کو بلوایا۔والدہ سے پوچھا تو والدہ الٹا مجھ پر گرم ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ میرے بچوں پر آپ الزام لگا رہی ہیں لیکن بات صرف چوری کی نہیں تھی ،اس سے کہیں زیادہ سنگین تھی کہ یہی بچہ چند دن پہلے ٹوٹی ہوئی کلاس کے پیچھے ایک بچے کیساتھ بے ہودہ حرکات کرتے ہوئے بھی پکڑا گیا تھا۔۔۔۔اور بہن کا کہنا تھا کہ یہ امی کا فون ہر وقت اس کے پاس ہوتا ہے فلمیں دیکھتا ہے۔۔۔اور وہ فلمیں دوکان سے میموری کارڈ میں لے کر آتا ہے۔
بالآخر ماں کی ہٹ دھرمی کہ میرے گھر موبائل نہیں ہے اور بچوں نے پیسے نہیں چرائے،آپ الزام لگارہی ہیں نہیں پڑھانا تو نکال دیں اور قرآن اٹھا لیا!!۔
لہذا ہمیں اسکول سے ان بچوں کا نام خارج کرنا پڑا ان کی وجہ سے اسکول کا ماحول خراب ہورہا تھا یہ کلینک کے سامنے گورنمنٹ اسکول کی کہانی ہے جو ٹیچر نے سنائی۔
بچوں میں پیدا ہونے والی ان خرابیوں کی ذمہ دار لازماً ان کی ماں تھی جو بچے کی خرابیوں کی پردہ پوشی کر رہی تھی۔
ٹیچر کی آخری بات سن کر میں تھوڑی دیر تک سن ہی بیٹھی رہی۔ آٹھ سے گیارہ سال عمر ہی کتنی ہوتی ہے۔
یہ ہم بچوں کو فون پکڑا کر کیا غلاظت بھر رہے ہیں؟؟ بچے جو سنتے ہیں۔ جو دیکھتے ہیں،اس کا اظہار کہیں نہ کہیں ضرور کرتے ہیں۔
یہ ہماری فصلیں ہیں، فصل بوکر رکھوالی نہیں کریں گے تو جھاڑ جھنکار کانٹوں کے ساتھ بدترین فصل بھی ہم ہی کاٹیں گے۔
کسی بھی معاشرے کے بگاڑ اور اصلاح کا انحصار اس کی ماؤں پر ہے۔ماں کی گود انسان کی پہلی درس گاہ ہے اور بچوں کی بہترین معلمہ بھی ماں ہے، ماں کا جذبۂ ایمان جتنا زیادہ ہوگا، یہ درس گا ہ اتنی ہی بلند معیار کی حامل ہو گی اور اس میں پلنے والے بچوں کی تربیت ماں کی محنت، توجہ اور ایثار اخلاق فرمانبرداری سے اتنی ہی عمدہ ہو گی۔
بچے پھولوں کی طرح نازک ،خوبصورت اور حساس ہوتے ہیں۔ان کی نگہداشت ،پرورش بھی اتنی ہی ضروری اور محنت طلب ہے جتنی کسی باغ کی دیکھ بھال اورآرائش۔ محبت محنت اور توجہ سے ان پھولوں کا رنگ بھرتا ہے۔اس طرح وہ دلکش ،خوبصورت بنتے ہیں۔
علامہ اقبال کا کہنا ہے:قوموں کی تاریخ اور ان کا ماضی و حال ان کی ماؤں کا فیض ہے۔
بچے قوم کا سرمایہ اورمستقبل ہیں، آج ماؤں کو تربیت کی ضرورت ہے آج کی بیٹی کل کی ماں ہے اور پہلی درس گاہ ۔ ماں جن صفات کی حامل ہوگی بچے میں لازماً وہی عادتیں، خصلتیں پیدا ہوں گی،وہی طور طریقہ لے کر معاشرے کا حصہ بنے گا اور اس کی ترقی یا بگاڑ میں کردار ادا کرے گا۔
نپولین نے کہا تھا۔تم مجھے اچھی مائیں دو،میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں