بڑا ہے درد کا رشتہ

معاملہ تو صرف 3 سے 4 گھنٹے کا ہی تھا ۔۔۔

بہت آرام سے گزارتے یہ چار گھنٹے آپ گھر پہ گزارتے ۔۔۔

نرم و گرم بستر میں آرام کرتے۔۔ ۔

شام میں گھر پہ چائے اور سموسے کھاتے یا فیملی کے ساتھ کسی ماڈرن آوٹ لیٹ میں شاپنگ کرتے یا کسی دوست کے ساتھ گپ شپ کرتے ۔۔۔۔۔

 کسی رشتہ دار سے ملنے چلے جاتے ۔ ۔۔۔

یا گھر پہ بیٹھ کہ برا بھلا کہتے کہ راستے بند کر دئیے ۔۔۔۔

 یا فلسفہ بگھارتے کہ کراچی میں سب کچھ کر کے کیا فائدہ ؟۔۔۔۔

 اور اگر حکومت تمہارے ہاتھ میں ہوتی تو کون سا تیر مار لیتے ؟۔۔۔۔

 کوئی فتوی لگاتے کہ منافق ہو تم لوگ۔۔۔۔

 مگر اس شہر میں ہیں کچھ احمق اور دیوانے ایسے بھی ہیں جو امت کا درد اپنا سمجھتے ہوئے  امت کے رشتے کو سب رشتوں پہ مقدم رکھتے ہیں جو اپنی تمام ترذاتی و نجی مصروفیات کو تج کر ۔ حسن اسکوائر پہنچے ۔۔۔یہ ان کیلئے نیا نہیں ۔ یہ پہلے بھی دیوانہ وار نکلے تھے۔ یہ پہلے بھی غزہ ۔ حلب و شام ۔ کشمیر و برما کیلئے نکلے تھے ۔ یہ شان رسالت کیلئے بھی گھروں سے باہر آئے تھے اور قانون توہین رسالت کے دفاع میں بھی میدان میں آئے تھے۔۔۔ یہ دیوانے   آج رات کو سکون سے سوئیں گے کہ امت کی خاطر اپنے پیر تو غبار آلود کیئے ۔ کچھ تو سعی کی ۔ سروں میں سر اور حمایت میں اٹھنے والے ہاتھوں میں ہاتھ تو شامل کیئے ۔ اللہ کی کبریائی کی آوازوں میں آواز تو شامل کی اور یہی امت کے دیوانے عبادات میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر امت کی سربلندی کیلئے دعائیں مانگیں گے ۔

الحمدللہ آج میں بھی اس زمین کے نمک اور پہاڑیوں کے چراغوں کے ساتھ تھا ،جسم تھکن سے ٹوٹ رہا ہے مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس تھکن میں بھی ایک عجب نشہ ہے ۔

افضال خرد کیا سمجھے گی کیا ذوق ہے عقبی بینی کا

کرگس کی بلا سے کیا حاصل کیا لطف ہے اس شاہینی کا

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں