سابق خاتون اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مئیر جو ۱۹۶۹ سے ۱۹۷۴ تک غاصب صہیونی ریاست کے سیاہ و سفید کی مالک رہیں ایک جگہ لکھتی ہیں کہ ’’جب ہم نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگائی اور اس کے گنبد پر اپنا پرچم لہرایا تو پوری رات اِس خوف سے میں سو نہیں سکی کہ عرب فوجیں چاروں طرف سے اسرائل پر چڑھائی کرنے ہی والی ہیں لیکن جب سورج طلوع ہوا تو پتہ چلا کہ اب ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارا مقابلہ اُس قوم سے ہے جو سو رہی ہے ‘‘ ۔۔اور پینتیس سال ہونے کو آئے وہ قوم یعنی مسلم امہ آج بھی غفلت ،بے حسی ،بے ضمیری اور بزدلی کی پہلے سے زیادہ گہری نیندمیں مبتلا ہے ! وہ آج (دسمبر ۲۰۱۷ میں بھی ) اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکی ہے کہ تنظیم اسلامی کانفرنس کےاستنبول سربراہ اجلاس میں بیت ا لمقدس (یروشلم ) کو اسرائل کا دار ا لسلطنت تسلیم کیے جانے کے ’ٹرمپیانہ‘امریکی فیصلے کی مذمت میں ایک کاغذی قرار داد پاس کردے !جبکہ نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں اور نوجوانوں پر اسرائیلی فوج کےبہیمانہ مظالم کی شدت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
پرویز حفیظ نے لکھا ہے کہ او آئی سی کے حالیہ استنبول اجلاس میں ایران پاکستان اور اُردن سمیت ۲۲ رُکن ممالک کے سربراہوں نے اور ۲۵ ملکوں کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی لیکن سعودی عرب ،مصر ،متحدہ عرب امارات اور بحرین کے سربراہ، وزرائے خارجہ یا کسی اور بڑے منصب پر فائز اراکین حکومت نے شریک اجلاس ہونے کی زحمت تک گواراہ نہیں کی ۔۔نیو یارک ٹائمز نے خبر رساں ایجنسی رعائٹر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے مذکورہ اعلان سے قبل ہی سعودی عرب اور مصر کے حکمرانوں کو اپنے فیصلے سے مطلع کر کے ان کی منظوری حاصل کر لی تھی !
دوسری طرف اوریا مقبول جان نے بالکل درست لکھا ہے کہ صہیونی قوم یہود کودیگر قوموں کے مقابل تعداد میں برائے نام ہونے کے باوجود آج جو طاقت حاصل ہوئی ہےاُس کا تعلق اُن کے اِس فیصلے سے ہےکہ ۔۔
’’وہ’ ایک خدا ،ایک تورات اور ایک شریعت ‘کی بنیاد پر ایک قوم(یعنی ایک امت ) ہیں !ہر یہودی خواہ وہ جرمنی میں رہتا ہو یا امریکہ میں ،نائجیریا میں ہو یا فلپائن میں ،وہ ایک قوم (ایک امت ) ہےاور اُسے اِس پر مکمل یقین اور کامل ایمان رکھنا چاہیے کہ ایک دن اُسے یروشلم کی اَرض ِمقدَّس میں لَوٹنا ہے جہاں اُن کا مسیحا آئے گا اور وہ ان کے لیے حضرت داؤد ؑاورحضرت سلیمان ؑ جیسی عالمی حکومت قائم کرے گا ۔اس یقین و ایمان کے ساتھ وہ اس کے لیے مسلسل تیاری کر رہے ہیں کہ انہیں اپنی (اس ارض موعود اور) موعودہ عالمی حکومت کے قیام کے لیے مسلمانوں سے ایک بہت بڑی عالمی جنگ لڑنی ہے ‘‘ ۔۔
اور ایک ہم ہیں کہ ’’ایک اللہ ،ایک قرآن ایک نبی ﷺ‘‘کی بنیاد پر امت واحدہ ،خیر امت اور امت وسط ہونے کے باوجود اپنے دائمی دشمنوں یہود و مشرکین (المائدہ ۸۲) سے اپنے دفاع کے لیے حصول قوت کے قرآنی اصول (انفال ۔۶۰)پر عمل پیرا ہونے کے بجائے ’قومی ریاستوں (نیشن اسٹیٹ )کے سراب میں گرفتار اور اندھے مسلکی کنوؤں میں قید ہیں !اور ایک ’مغضوب علیہم ‘‘یہود ہیں کہ قریب دو ہزار سال کی غلامی اور بد ترین ذلت و محکومی اور معاشرتی لعنت سمجھی جانے والی قوم بن جانے کے باوجود جب قریب سوا سو سال قبل ۱۸۹۶ میں انہوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں درج مسیح موعود اور یروشلم سے پوری دنیا پر حکومت کے وعدے تصور کے مطابق ،خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں ’ایک قوم ‘(یعنی امت واحدہ ) بننے کا فیصلہ کر لیا اور برطانوی حکومت سے ۱۹۱۷ میں قیام اسرائل کا بالفور اعلانیہ منظور کر والیا اور صرف باون برسوں میں،اوریا مقبول کے لفظوں میں ’’ کئی لاکھ یہودی لندن ،پیرس ،برلن اور نیو یارک جیسے ماڈرن شہروں میں اپنی اربوں ڈالر کی جائدادیں اور عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر نہ صرف حیفہ اور تل ابیب کے ریگستان میں جا کر آباد ہو گئے بلکہ ۱۹۴۸میں فلسطین پر قبضہ کر کے اسے اسرائل کانام بھی دے دیا اور اس وقت سے آج تک وہ صرف مسلمانوں سے ایک بڑی جنگ لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تاکہ ایک عالمی یہودی حکومت قائم کر سکیں جس میں اردن ،شام ،قطر ،بحرین ،کویت ،یو اے ای اور مدینہ سب شامل ہوں !بالفور اعلانیے کی سویں برسی کے موقع پر دسمبر ۲۰۱۷ میں یروشلم کو اسرائلی راجدھانی تسلیم کر نے کا ٹرمپ اعلانیہ سید ا لا نبیا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پیشین گوئی کے آغاز کا دن ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ’بیت ا لمقدس کی آبادی اور مدینے (یثرب) کی ویرانی بڑی جنگ کا ظہور ہے (ابو داؤد ،مسند احمد ،طبرانی ،مستدرک ،ابن ابی شیبہ ) اس حدیث میں آخری زمانے کے ان واقعات کا ذکر ہے جن کا تعلق دجال کے خروج اور مہدی و عیسیٰ کے ظہور سے ہے ۔‘‘
اللہ کے حبیبﷺ کے گھر والوں (اہل ا لبیت )کے قاتلوں سے رِشتہ ولایت رکھنے والوں سے کسی خیر کی امید تو پہلے بھی نہیں تھی کہ ہم بے وقوفوں کی جنت میں نہیں رہتے لیکن، نبی کریمﷺ کے ’ذَوِی ا لقُربیٰ ‘سے ’مُؤدَّت ‘کے دعویداروں کو کیا ہوا ہے ؟ مانا کہ گولڈا مئیر کے دوران اقتدار (۱۹۶۹ تا ۱۹۷۴)ایران میں شاہ خائن کی ظالم اور گم کردہ راہ حکومت تھی لیکن۱۹۷۹ کے بعد سے آج تک ظالم کے خلاف قیام کرنے والوں کے قائد فرزند رسول ﷺکے ماننے والوں نے صہیونی مظالم کے خلاف وہ کون سا بڑا اور قابل ذکر اقدام کیا ہے جس نے فلسطینی مظلوموں کو حقیقی معنیٰ میں بڑے پیمانے پر راحت پہنچائی ہو ؟ ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۸ تک کے نو برسوں کو ہم منہا بھی کر دیں کہ اس دوران ضد انقلابیوں اور اسلام دشمن طاقتوں کی’ مسلط کردہ جنگ‘ کا مرحلہ در پیش تھا ،لیکن اُس کے بعد سے آج تک کے تیس برسوں میں؟چلیے مانے لیتے ہیں کہ پچھلے تین برسوں میں ایران نے حزب اللہ کے ساتھ مل کر خوارج کے خلاف جنگ لڑی اور کامیابی بھی حاصل کی لیکن خوارج تو صہیونی مقتدرہ اور ان کے غلاموں ہی کے زائیدہ و پروردہ تھے(اور ہیں ) ،ایران اور حزب اللہ نے اپنی یہ طاقت اس ظالم خائن اور غاصب عالمی صہیونی مقتدرہ کے خلاف کم از کم،اکیسویں صدی کے شعب ابی طالب غزہ کا دس سالہ محاصرہ ہی ختم کرانے کے لیے کیوں نہیں استعمال کی ؟
اسرائل کا خاتمہ نہ صرف خوارج کا خاتمہ ہوگا بلکہ مستضعفین فی ا لارض کے خلاف ہونے والے ہر طرح کے ظلم اور دہشتگردی کابھی خاتمہ بھی ہوگا ،خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو ۔
مسلمانوں کے موجودہ مسائل کاواحد اور شافی علاج اُن کے غیر مشروط اتحاداور ’امت واحدہ ‘کی صورت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار (بنیان مرصوص ) بن جانے میں ہےاور اِتحاد اُمت کا یہ خواب ،سرِ دَست شرمندہِ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا ۔ جب تک ظلم اور مظالم کے خلاف دنیا کے تمام مظلومین و مستضعفین اور اہل ایمان متحد نہیں ہوں گے ،ظلم کا خاتمہ بھی نہیں ہونے والا ۔تا وقتیکہ حضرات مہدی وعیسیٰ علیہم ا لسلام اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اِذنِ خاص سے دنیا میں تشریف لے آئیں اور اللہ کے عطا کردہ خصوصی اختیار اور طاقت کا استعمال کر کے ،وقت کےتمام دجالوں ،فرعونوں ،یزیدوں اور اُن کے سبھی حامیوں اور مددگاروں کا خاتمہ کر کے دنیا کو عدل وقسط سے اُسی طرح بھر دیں جس طرح وہ اس وقت ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی ۔
لیکن ،سوال یہ ہے کہ ہم کدھر ہیں ؟ اس لیے کہ وہ خاموش اکثریت بھی ظالموں ہی کے ساتھ محشور ہوگی جو ظلم کو دیکھتی ہے اور خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھتی ہے!
رشید کوثر فاروقی کی غزل کا یہ شعر اس صورتحال کا اندوہناک مرثیہ ہے کہ
ہنگام غزا ایک بزرگ آئے عقب سے ۔۔تلوار اُچَک لے گئے ،تسبیح تھما دی !