القدس ملین مارچ۔۔۔لبیک یا اقصی

وہ دو چار آدمیوں کے ساتھ گاڑی سے اترتے نظر آۓ..تیزی سے لمبے لمبے قدم اٹھاتے مارچ کے لۓ بناۓ گۓ اسٹیج پر چڑھے..کسی کو خبر نہ ھوئ حتی کہ اسٹیج انتظامیہ اسوقت تک لاعلم جب تک ان پر نظر پڑی..جیسے ھی وہ اناؤنسر کے قریب پہنچے پرجوش اعلان ھوا مجمع بے خود ھوگیا…لبیک یاغزہ کے نعروں سے… یہ امیر جماعت ہیں..!
کوئ پروٹوکول نہ اسکی طلب


اک اتنے سادہ مہربان انسان نے جان ڈال دی مجمع میں
انداز نہ واعظوں والا نہ خطیبوں جیسا..نہ پیشہ ور سیاستدانوں سے میل کھاتا..
اک مصلح مخاطب تھا اور میں ضربیں محسوس کررھی تھی چودہ سوبرس پرانی ..جب غزوہ خندق کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدال کی ضربوں میں قیصر اور کسری کی فتح کی آھٹ سنائ دے رھی تھی..
کیسا ایمان اور اس سے جڑا ایقان کہ…سن اٹھارہ کا سورج القدس کی فتح دیکھے گا …کشمیر کی زنجیروں کو ٹوٹتا دیکھے گا..اسلامی پاکستان  کے خواب کی تعبیر دیکھے گا


اس میں کیا شک ھے کہ
..مسافروں سے چھلکتا ھے منزلوں کا یقین..چودہ سو برس کا سفر کرکے پچھلی صدی میں جھانک لیتے ھیں …اک خواب کو دیوانے کا خواب کہہ کر ٹھٹھا لگایا گیا تھا..تب بھی دیوانوں نے ھی اس خواب کو تعبیر دی تھی..
خواب دیکھنا لازم ٹہرا..تعبیر اوپر والا دیتاھے


امیر حلقہ کراچی کی آواز رندھ گئ جذبہ جہاد میں ڈوبی ھوئ ..ابراھیم ابو ثریا دیکھو تو سہی ھم تمہارے نقش قدم پر چلنے کوتیار ھیں..تم چلے گۓ مگر تمہارا مشن ھماری رگوں میں جب تک لہو ھے تب تک جاری رھیگا..
امیر جماعت نے خراب آواز کے باوجود جب فضا میں ھاتھ لہرا کر نعرے لگواۓ تو خالد کی للکار سنائ دی .
اپنا بیت المقدس بچانے کو تومیرے بچے ابابیل بن جائیں گے..جب یہ ترانہ فضا میں گونج رھا تھا تو پرندے پر پھیلاۓ آخری اڑان بھر رھے تھے اپنے آشیانوں میں اترنے کے لۓ


میں نے دائیں بائیں کھڑی خواتین کو بیگ میں سے ٹشو نکالتے دیکھا..سر پر آسمان اور غروب ھوتا سورج کتنی گواھیاں ثبت کرکے غروب ھوا ھے آج…
دل نے ڈھلتے سایوں میں رب سے فریاد کی کہ مولا اس زندہ قوم کو بیدار حکمران دے دے..قوم شیروں کی ھے مگر جن حکمرانوں کے نشان شیر ھیں وہ شیر کی کھال میں گیڈر..
آہ کیسی ھوتی ھے جرم ضعیفی کی سزا..کبھی اس روڈ پر ھم روھنگیا کے مسلمانوں کے دکھ میں ڈوبے کھڑے ھوتے ھیں ..کبھی مقبوضہ وادی کشمیر سے یک جہتی کے لۓ..کبھی ڈاکٹر عافیہ کی رھائ کی تمنا لۓ


آج پھر عورتوں ..بچوں..بزرگوں ..بھائیوں..جوانوں کا یہ پرجوش ٹھاٹھیں مارتا ..اپنے ایمان کی گواھی پیش کرتا سمندر ھے..
اگر امیر جماعت یہ فرماتے کہ جلسہ گاہ کے دائیں بائیں بسیں تیار کھڑی ھیں اقصی جانے کے لۓ…سوار ھوجاۓ جو جانا چاھتاھے..مجھے یقین ھے مجمع چیرتی عورتیں بچوں کا ھاتھ تھامے دوڑ رہی ھوتیں..سبقت کررھی ھوتیں اس بس میں سوار ھونے کے لۓ…کوئ مشکل ھی سے گھر جانے پر آمادہ ھوتا..
ھم سب گھروں کو لوٹ آۓ ھیں..ابراھیم ابو ثریا جیسے نوجوان اب ھمیں تیار کرنا ھیں..یہ عزم مصمم لۓ..جگہ جگہ بینر گواھی دے رھے تھے..القدس فی قلوبنا…سچ ھی تو لکھا تھا…

حصہ

2 تبصرے

  1. السلام علیکم
    افشاں میں آپ سے بہت کم واقف ہوں۔ مگر آپ کا لکھا ” میں نے جانا ک گویا میرے دل میں تھا” کے مصداق ہے۔ ہر ہر لفظ اور جملہ ایسے جو میں نے سوچا آپ نے لکھا۔ ہم سب کا درد سانجھا ، جذبہ مشترک ا اور منزل ایک ہے۔
    “ابراھیم ابو ثریا جیسے نوجوان اب ھمیں تیار کرنا ھیں..یہ عزم مصمم لۓ..جگہ جگہ بینر گواھی دے رھے تھے..القدس فی قلوبنا…سچ ھی تو لکھا تھا…”

جواب چھوڑ دیں