ہمارے یہاں دینداروں ہی کے بھیس میں کچھ لوگ ہیں جن کے نزدیک، صحاح ستہ میں موجود اخبار احاد، قابل اعتبار اور قابل اعتناء نہیں اور ان کے بقول، ’’اخبار احاد سے دین کا کوئی اصول نہیں نکلتا‘‘۔ مگر یہی لوگ، دین اور اہل مذہب کو بدنام کرنے کے لیے تمام کے تمام اصول، خود تک پنہچنے والی ’’اخبار احاد‘‘ سے لے رہے ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ وہ روایتی دینی منہج اور اسے فالو کرنے والے اہل مذہب کو بدنام کرنے کے لیے جو دن رات مساعی فررما رہے ہیں، ان کی تمام کی تمام بنیادیں، انہی ’’اخباراحاد‘‘ پر مبنی ہیں۔
ملک کے دور دراز پسماندہ علاقہ میں کوئی شوہر اپنی بیوی پر ظلم کرے یا پھر کسی چھوٹے سے گمنام مدرسے میں کوئی مولوی کسی بچے کو پیٹ دے، ان کے طلسماتی نیٹ ورک کا ’’مارک ٹیلی‘‘ فورا انہیں اطلاع کردیتا ہے، بلکہ ویڈیو کلپس تک بھیج دیتا ہے، جسے لے کر یہ فوراَ بریکنگ نیوز کی صورت اپنی والز پر لگا لیتے ہیں اور کئی روز تک ’’لعنت بر مذہب و مولوی‘‘ ہوتی رہتی ہے۔
مگر حیرت انگیز طور پر انہیں دنیا بھر میں جاری مسلمانوں کے اوپر ڈھائے جانے والے اغیار کے بھیانک مظالم اور زیادتیاں نظر نہیں آتیں اور یہ اس سے منہ موڑے، کانوں میں روئی ٹھونسے رہتے ہیں۔ حکمران تو خواب خرگوش کے مزے لے ہی رہے ہیں، مگر کہیں، کسی جگہ، امت مسلمہ کے اندر کوئی معمولی سی ہلچل بھی نظر آجائے تو سب سے زیادہ انہی پر گراں گزرتی ہے، لہٰذا یہ لگ جاتے ہیں پہلے سے لٹی پٹی، غموں کی ماری امت کا موارل گرانے میں۔
ان کے اندر اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اپنے ملک کے حکمرانوں اور افواج سے صرف زبانی کلامی مطالبہ ہی کر ڈالیں کہ تم نے ستر سالوں سے ہمارا خون چوس کر میزائلوں اور بموں کے جو انبار کھڑے کر دیے ہیں اور طرح طرح کے لڑاکا جہازوں، ٹینکوں اور توپوں کی جو قطاریں لگا رکھی ہیں، وہ کیا بعد از قیامت کام آئیں گی، الٹا یہ درد کی شدت سے چیختے چلاتے مسلمانوں اور ان کے لیڈروں پر تبرّے و تمسخر کرتے نظر آئیں گے اور کہتے ہیں کہ اپنے ملک میں جلسے جلوس نکالنے اور احتجاج کرنے کا اسرائیل پر کیا اثر پڑے گا؟
یاد رہے کہ یہ وہی طبقہ ہے ۔۔۔۔۔ چالاک، مکار اور عیار انگریز کا ذہنی غلام، جس نے پہلے امّت مسلمہ سے یہ کہہ کر ہتھیار رکھوائے کہ اب ان کی ضرورت نہیں کیوں کہ اقوامِ متحدہ موجود ہے، ہم اپننے قضیے وہیں نمٹائیں گے۔ ہاں اگر کچھ کرنا ہے تو ’’پر امن‘‘ احتجاج کا حق تمہیں حاصل رہے گا، کہ یہ انداز جمہوری رویوں کے عین مطابق ہے۔ پھر ہے کوئی جو دیکھے کہ آج اسی انگریز کے ذہنی غلام، امّت سے پرامن احتجاج کا حق بھی چیننا چاہتے ہیں۔ یعنی کہ گھائل ہو کر گر پڑنے کے بعد، رونے، آہ و بکا کرنے اور تڑپنے تک کا حق چھینا جا رہا ہے کہ اس سے آقاؤں کو ’’سمع خراشی‘‘ ہوتی ہے۔
ان کالے انگریزوں اور ذہنی غلاموں سے بس اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ اللہ کا سچا وعدہ ہے ۔۔۔۔۔ ایک دن یہ دین ان شاء اللہ غالب آ کر رہے گا۔ ہم نہیں کوئی اور سہی۔۔۔ مگر یہ ہو کر رہنا ہے۔ آپ، مذہب اور اہلِ مذہب کو بدنام کرنے، لفظ ’’جہاد‘‘ کو مطعون کرنے اور مسلمانوں کے اندر پژمدگی، مایوسی اور شکوک پھیلانے کے لیے جتنا چاہے زور لگا لیں، پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ ان شاء اللہ