ایک دن ہم نے پریس کلب میں اگلی میز پر بیٹھے ایک معروف اینکر کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے یہ سوال، یعنی قرۃ العین حیدر نے پاکستان کیوں چھوڑا؟اپنے دوست اشفاق سے کیا، اور بلند آواز سے کیا۔ نتیجہ حسبِ خواہش نکلا۔
اس سے پہلے کہ اشفاق سوال پر غور کرتا، اینکر صاحب (انہیں آپ بیگ صاحب سمجھ لیجیے) جھپٹ کر ہماری میز پر آگئے، (اپنا)منہ کان کے قریب لا کر سرگوشی میں پوچھنے لگے ’’یہ کتنے بجے کی بات ہے؟‘‘ ہم نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا ’’کون سی بات؟‘‘۔ بیگ صاحب نے وضاحت کی ’’یہی…. پاکستان چھوڑنے والی بات، یہ کسی چینل پر بریک ہوئی ہے یا نہیں؟‘‘۔ ہم نے اطمینان سے عرض کیا ’’یہ بات پچاس پچپن برس پہلے کی ہے‘‘۔ ’’ہت تیرے کی…..‘‘ کہتے ہوئے بیگ صاحب نے اپنا موبائل فون واپس جیب میں رکھ لیا۔ انہیں اپنی بریکنگ نیوز اس طرح ضائع ہونے کا بہت دکھ تھا۔ وہ واپس اپنی میز پر جا بیٹھے۔
اب اشفاق کی باری تھی۔ وہ قرۃ العین سے تو واقف تھا لیکن وہ کوئی گلوکارہ تھی۔ اسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ گلوکارہ اتنی پرانی ہے، پر لگتی نہیں ہے۔ پچپن برس پہلے پاکستان چھوڑا اور اب پھر آگئی ہے؟ اس کی اصل عمر کیا ہوگی؟
اشفاق بولا ’’مجھے تو اس بات پر حیرت ہے کہ اس نے خود کو کتنا فٹ رکھا ہوا ہے، اُسے پاکستان واپس آنے پر راضی کس نے کیا؟ جس نے بھی کیا، اُس نے فن کی بڑی خدمت کی ہے‘‘۔ ہم نے اشفاق کی پیٹھ پر نرم سا مُکّا مارتے ہوئے کہا ’’فن کے بچّے! قرۃ العین حیدرادیبہ تھیں، بہت بڑی ناول نگار، ’آگ کا دریا‘ کی مصنف۔ پاکستان بننے کے کئی سال بعد بھارت سے یہاں آئیں، لیکن چند سال بعد نہ جانے کیا ہوا کہ وہ واپس وہیں چلی گئیں۔ کچھ سال پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ اب مجھے جستجو ہے کہ کوئی میرے اس سوال کا جوب دے‘‘۔
’’اچھا ، تو یہ بات ہے۔ میں تمہیں خالو کے پاس لے جاتا ہوں،وہ بھی ادیب اور شاعر ہیں، چلو، اُٹھو!‘‘
تھوڑی دیر بعد ہم غزالی صاحب کے روبرو بیٹھے تھے۔ قلم اور بیاض اُن کے ہاتھ میں تھا اور پان منہ میں۔ عادتاً وہ (اپنا)گھُٹنا مسلسل ہلا رہے تھے۔ اپنی مشقِ سخن میں سے کچھ وقت نکال کر ہمارا سوال سنا اور پھڑک کر بولے ’’بھئی! بڑے موقع سے آئے۔ میں نے قرۃ العین کے پاکستان سے چلے جانے پر پچاس سال پہلے جو پُرسوز نظم کہی تھی، وہ آج بھی تازہ ہے،پیش کرتا ہوں۔ اجازت ہے؟‘‘
ہماری حالت چھُری کے نیچے آئے ہوئے بکرے جیسی تھی، بکرے جیسی نظروں سے ہم نے قصائی….. معاف کیجیے گا، غزالی صاحب کو دیکھا۔ اُن کی آنکھوں میں رحم نہیں تھا۔ شکایتی نظروں سے اشفاق کو دیکھا۔ وہ موبائل فون پر (خاموشی سے)گیم کھیلنے میں مصروف تھا۔ خالو کی نظروں میں وہ بدذوق کا درجہ پہلے ہی حاصل کر چکا تھا، اور اِس درجے کو گنوانے کا ابھی اُس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اِس وقت خالو کو پورے گھر میں ہم واحد ادب شناس نظر آ رہے تھے۔ ناچار ہم نے مریل سی آواز میں کہا ’’ارشاد، ارشاد‘‘۔ دوسرا ’ارشاد‘ پہلے والے سے کمزور تھا۔
دو گھنٹے بعد خالو کے گھر سے نکلے، اور نکلتے ہی اشفاق کی پیٹھ پر سچ مچ کا گھونسہ رسید کیا۔ ایک نہیں، بہت سے۔
***