سائبیریا کے مہمان اور قطری شہزادے

بلوچستان کے سفر پر آنے والے مہمان پرندوں کا شکار کرنا عام بات ہے۔ ہم پرندوں کی خوب مہمان نوازی کرتے ہیں۔مگر سائبیریا سے آنے والے مہمان پرندے ہمارے مہمانوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ سخت سردی میں اپنا دیس چھوڑ کر ہمارے دیس میں ان کا کیا حشر ہوتاہے یہ ہم لوگ اپنے قریبی اضلاع میں دیکھ چکے ہیں۔ وفاقی حکومت نے قطرکے بادشاہ سمیت شاہی خاندان کی دیگر اعلیٰ شخصیات کو نایاب پرندوں کے شکار کیلئے 7 خصوصی پرمٹ جاری کئے ،ذرائع کے مطابق یہ پرمٹ ملک میں 17۔2016 میں تلور کے شکار کیلئے جاری کیے گیے ہیں۔یوں یہ بات سامنے آگئی کہ انسان آج بھی پرندوں کا بھوکا ہے۔میزبان کے لئے مہمان کا دل جیتنے کے لئے اسے مہمان پرندوں کا لذیذ گوشت نہ صرف کھلانا ہوتا ہے بلکہ اس کو پرندوں کے شکار پر اکسانا بھی ہوتا ہے۔اس کو وہ تفریح کہتے ہیں حالانکہ جن پرندوں کی بدولت بلوچستان میں تفریح اور رنگارنگی پیدا ہوتی ہے وہ اپنی موت سے بے خبر ہوتے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں نایاب پرندے کے شکار کیلئے جن افراد کو پرمٹ جاری کیے گئے ہیں ان میں بادشاہ کے ایک بزرگ رشتہ دار، ان کے مشیر دفاع، ایک فیلڈ مارشل اور آرمی چیف جبکہ شاہی خاندان کے دیگر دو اراکین شامل ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے ناصرف ان نایاب پرندوں کے شکار کی پابندی کے حوالے سے مختلف بین الاقوامی نوعیت کے تحفظ کے کنونشنز پر دستخط کررکھے ہیں بلکہ ملک میں جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون بھی ان پرندوں کے شکار کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
میرے ذہن میں ایک سوال کلبلاتاہے کہ آخر تلور کا شکار قطری یا عرب شہزادوں کے لئے اتنااہم کیوں ہے۔ مغربی لوگ بھی تلور میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں، یہ لوگ اس مقصد سے پاکستان کیوں نہیں آتے؟
در اصل مسئلہ یہ ہے کہ قطری شہزادوں کے لئے تلور کا گوشت کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ اتنا پیسہ خرچ کرکے اس کا شکار کریں۔وہ اربوں روپیے کیوں تلور کے شکار پر خرچ کرتے ہیں۔اسکے درپردہ کوئی اور وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔جن پر قومی مفاد کی پھٹی پرانی چادر چڑھا کر اسے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔
تلور وہ پرندہ ہے جو سردی سے بچنے کے لیے پاکستان اور عراق کے صحرائی علاقوں کی جانب ہجرت کرکے آتے ہیں۔ کچھ صحافی دوست کہتے ہے کہ تلور کا گوشت جنسی خواہشات کو بڑھانے کی دوا کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمل صرف تلورکی اس نسل میں ہے جو خود خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔
یہ ہرسال سردی سے بچنے کے لیے وسطی ایشیاء سے ہجرت کرکے پاکستان اور عراق کے صحرائی ریتلے علاقوں کا رخ کرتے ہیں لیکن یہ معصوم پرندے ان ریتلے علاقوں میں عرب یا قطری شیوخ کے شوق کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
تلور پرندہ زیادہ تر سردیوں میں پاکستان، ہندوستان، بنگلادیش اور عرب ممالک میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے مقامی افراد بھی اس نایاب پرندے کا شکار کرتے ہیں
میرے ماموں بھی بڑے پرانے شکار کے شوقین ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اس پرندے کا ذائقہ زیادہ اچھا نہیں ہے ۔اس سے تو زیادہ ذائقہ دوسرے پرندوں کا ہے ۔حتٰی کہ مقامی کھانے اس سے زیادہ لذیذ ہوتے ہیں۔بہر حال کیا کہہ سکتے ہیں ۔شراب بھی تو بدذائقہ ہوتی ہے لیکن جس کو جو لت لگ جائے وہ اسکے لئے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ہاں یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ قطری شہزادے تلور کا بدذائقہ گوشت کھا کر کون سی لت پوری کرتے ہیں؟

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں