ایک مسلمان کے لیے سب کچھ اس کا دین ہے، اس کا خدا ہے، قرآن مجید ہے، رسول اکرمؐ کی ذات مبارکہ ہے، آپؐ کی سیرت ہے، آپؐ کی احادیث مبارکہ ہیں، آپؐ کے اصحاب ہیں، آپؐ کے اصحاب کے پیدا کردہ تابعین ہیں، تابعین کے پیدا کردہ تبع تابعین ہیں، وہ علما، وہ مفسرین، وہ محدثین، وہ فقہا، وہ مفکرین، وہ شاعر، وہ دانش ور ہیں جو دین کی روایت کے مستند شارحین اور اس کے مستند نمائندے ہیں۔ ان تمام حقائق کو مربوط کرکے ایک کُل بنایا جائے تو وہ حقیقت سامنے آتی ہے جسے ہم ’’دین کی روایت‘‘ کہتے ہیں۔ اگر ایک مسلمان دین کی اس روایت کے دائرے میں زندگی بسر کررہا ہے تو وہ ایک ’’مالدار ترین‘‘ آدمی ہے۔ خواہ اس کے بینک بیلنس میں چار آنے بھی نہ پڑے ہوں۔ خواہ وہ دنیا کے معیارات کے اعتبار سے ایک ناکام آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ سرسید کے حوالے سے ایک بہت ہی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرسید نے مذہب اور اس کی پوری روایت کی ایسی تحقیر پیدا کی کہ جدید تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی نظر میں مذہب اتنی معمولی چیز بن گیا کہ اس سے وابستہ ہونے میں کوئی ’’عظمت‘‘ رہی نہ اس کے گم ہوجانے یا اس سے دور ہوجانے میں کوئی ’’ملال‘‘ باقی رہا۔ یہ مسئلہ خود سرسید کی زندگی میں اُبھر کر سامنے آچکا تھا چناں چہ لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے
ہم نشیں کہتا ہے کچھ پروا نہیں مذہب گیا
میں یہ کہتا ہوں کہ بھائی یہ گیا تو سب گیا
اکبر کی شاعری پر نظر رکھنے والے اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اس شعر میں ’’ہم نشیں‘‘ سے مراد سرسید ہیں۔ یہ نہیں تو سرسید کی پیدا کردہ ’’مخلوق‘‘ ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کو لوگ ’’مزاحیہ شاعر‘‘ سمجھتے ہیں لیکن اکبر کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کے انتقال پر علامہ اقبال نے اکبر کے بیٹے کو جو تعزیتی خط لکھا اس میں فرمایا کہ آپ کے والد اتنے بڑے آدمی تھے کہ ان کے جیسی کوئی شخصیت پورے ایشیا میں موجود نہیں۔ اکبر کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف سرسید اور ان کی پیدا کردہ ذہنیت کی نشاندہی کرکے نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے اثرات و نتائج کی بھی نشاندہی کی۔ چناں چہ انہوں نے فرمایا
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا
مغربی علوم اور مغربی تہذیب کے مقابلے پر سرسید کی نظر میں مذہب کی کیا اوقات تھی اس کی کئی ٹھوس شہادتیں سرسید کی تحریروں میں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بہت ہی بڑی شہادت ایک انگریز ڈاکٹر ہنٹر کا وہ بیان ہے جس کا سرسید نے اپنی ایک تحریر میں حوالہ دیا۔ ڈاکٹر ہنٹر نے فرمایا ہے۔
’’کوئی نوجوان، خواہ ہندو خواہ مسلمان ایسا نہیں ہے جو ہمارے انگریزی مدرسوں میں تعلیم پائے اور اپنے بزرگوں کے مذہب سے بداعتقاد ہونا نہ سیکھے۔ ایشیا کے شاداب اور تروتازہ مذہب مغربی علوم کی سچائی کے قریب آتے ہیں، جو مثل برف کے ہے تو سوکھ کر لکڑی ہوجاتے ہیں‘‘۔
سرسید نے یہ اقتباس ’’کوٹ‘‘ کرکے فرمایا ہے۔ ’’یہ قول ڈاکٹر ہنٹر کا بالکل سچ ہے‘‘۔ (افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ221)
اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود سرسید علی گڑھ کالج میں وہی مغربی علوم پڑھائے جاتے رہے جو ہمارے اذہان میں مذہب کو اتنا معمولی اور حقیر بنادیتے ہیں کہ اگر ہم مذہب سے دور ہوجائیں یا اسے چھوڑ دیں تو ہمیں اس کا دُکھ یا ملال نہیں ہوتا۔ اس کا ثبوت ہمارے درجنوں سیکولر اور لبرل دانش ور اور ان کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ لیکن سرسید کی پیدا کردہ فکر اتنی خطرناک ہے کہ جن لوگوں کو ہم ’’مذہبی ذہن‘‘ کا حامل سمجھتے ہیں وہ بھی مذہب اور مذہبی فکر کو معمولی چیز سمجھتے ہیں۔
اس کا ایک ثبوت ڈاکٹر خالد امین کا وہ مضمون ہے جو سرسید پر لکھے گئے ہمارے ایک مضمون کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ یہ مضمون 17 تا 23 نومبر 2017ء کے فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر خالد امین لکھتے ہیں۔
’’سرسید نے جو مذہبی تعبیرات کی ہیں، کیا صرف انہی بنیادوں پر ان کی شخصیت کا محاکمہ کیا جائے گا؟ یا پھر ان کے کاموں کو کلیت میں دیکھا جائے گا‘‘۔
ہم نے ڈاکٹر خالد امین کا یہ اقتباس پڑھا تو روح کانپ اُٹھی اور دل دہل کر رہ گیا۔ اس لیے کہ سرسید کی فکر یہی سکھاتی ہے کہ دین اہم ہے مگر دنیا اس سے زیادہ اہم ہے۔ ڈاکٹر خالد امین شعوری یا لاشعوری طور پر اس فکر کے زیر اثر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سرسید کی مذہبی فکر یا ان کی مذہبی تعبیرات کو ’’صرف‘‘ کہہ کر بیان کیا ہے۔ یعنی انہوں نے کہا ہے کہ کیا ہم ’’صرف‘‘ سرسید کی مذہبی فکر کی روشنی میں سرسید کی شخصیت، فکر اور ان کے مبینہ ’’کارناموں‘‘ کا جائزہ لیں گے۔ ارے بھائی کسی بھی مسلمان کے لیے مذہب یا اس کی تعبیر ’’صرف‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’سب کچھ‘‘ ہے۔ اسی لیے اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے کہ اگر مذہب ہاتھ سے گیا تو سمجھو کہ سب کچھ مسلمان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اتفاق سے سرسید کی مذہبی فکر کا نقص بھی چھوٹا موٹا نہیں۔ ان کا تصور خدا ناقص ہے اور امت کے تصور خدا سے مختلف ہے۔ وہ قرآن مجید میں موجود تمام معجزات کے منکر ہیں اور انہوں نے ان کی ایسی عقلی توجیہات بیان کی ہیں کہ معمولی پڑھا لکھا شخص بھی حیران رہ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرسید کا تصور قرآن بھی ناقص ہے۔ وہ منکر حدیث ہیں اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری تک انہیں ’’مستند‘‘ نظر نہیں آتیں۔ انہوں نے فرشتوں اور جنوں اور جنت و دوزخ کے خارجی وجود کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے صاف کہا ہے کہ قرآن کو نہ صحابہ سمجھے، نہ تابعین سمجھے نہ تبع تابعین سمجھے۔ اس طرح انہوں نے قرآن فہمی کی پوری روایت ہی کو منہدم کردیا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر خالد امین فرما رہے ہیں کہ کیا ’’صرف‘‘ سرسید کی مذہبی فکر کی بنیاد پر ان کا محاکمہ کیا جائے گا؟ مسلمانوں کے لیے ان کی مذہبی فکر اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کا اثر ان کی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے۔ سرسید کی گمراہی اور ضلالت میں ڈوبی ہوئی مذہبی فکر نے ان کے تصور علم، تصور تہذیب، تصور زندگی، تصور ادب، تصور آزادی اور تصور غلامی تک کو متاثر کیا ہے اور ان میں ہولناک اور اسلامی معاشرے کے لیے ناقابل برداشت اور ناقابل قبول خرابیاں پیدا کی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے بعد بھی سرسید کی مذہبی فکر یا ان کی مذہبی تعبیرات کے ساتھ ’’صرف‘‘ لگائے تو ہم اس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں؟۔ سرسید کی محبت اہم ہوگی مگر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی محبت سرسید کی محبت سے کھربوں گنا بڑی چیز ہے۔
اس گفتگو میں ڈاکٹر خالد امین کی اس بات کا جواب بھی موجود ہے کہ ہمیں سرسید کے کاموں کی ’’کلیت‘‘ کے تناظر میں بھی ان کا محاکمہ کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جب سرسید کی گمراہ کن مذہبی فکر ان کی پوری شخصیت اور ہر کام کا احاطہ کیے ہوئے ہے تو جزو اور کُل کی بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر خالد امین کی تحریر میں اور کئی اہم نکات موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے لکھا ہے۔
’’جہاں تک سرسید کی مذہبی تعبیرات کا تعلق ہے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ وہ اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن ہندوستان کے ماحول نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ ان چیزوں کا سہارا لیں۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین جو مذہبی منافرت پائی جاتی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی۔ یہ کام بھی انہوں نے اپنے مطالعے کی بنیاد پر انجام دیا لیکن جایہ بجا ٹھوکریں کھائیں لیکن آج کے اس جدید دور میں بہت سارے علما علم دین کی سائنسی تعبیرات پیش کرتے ہیں اور کئی مفکرین ایسے ہیں جن کی تحریریں اس نکتہ نظر سے خالی نہیں ہیں خواہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ہوں یا اقبال‘‘۔
ڈاکٹر خالد امین کے اس اقتباس کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ وہ یہ ماننے کے باوجود کہ سرسید کی مذہبی فکر گمراہی اور ضلالت میں ڈوبی ہوئی ہے، سرسید کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ معاشرہ انہیں اسی طرح ’’عظیم‘‘ سمجھے جس طرح سرسید کے مقلد انہیں سمجھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ سرسید کے اچھے شاگرد ہیں انہیں سرسید کی فکر سے یہی تعلیم ملی ہے کہ مذہب کو نہ دیکھو دنیا کے فائدوں کو دیکھو۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر خالد امین نے یہ تک جرأت کر ڈالی کہ انہوں نے مولانا مودودی اور اقبال کو سرسید کا خوشہ چین باور کرانے کی کوشش کی۔ تجزیہ کیا جائے تو اس روش پر بھی سرسید کی فکر اور ذہنیت کا سایہ ہے۔ سرسید نے اسلامی فکر کے مرکزی دھارے کو ایک طرف پھینک دیا۔ ڈاکٹر خالد امین نے اسلامی فکر کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے مولانا مودودی اور اقبال کو سرسید کے ساتھ کھڑا کرکے ان کی توہین کر ڈالی۔
یہ ایک علمی ہی نہیں اخلاقی اور روحانی اصول بھی ہے کہ کنکر کا ذکر ہیروں کے ساتھ نہیں کیا جاتا لیکن جو شخص سرسید کے زیر اثر آجاتا ہے وہ ہیرے اور کنکر کا فرق بھول کر دونوں کو پتھر ہی سمجھنے لگتا ہے۔ ہماری یہ دلیل اپنی جگہ واضح ہے مگر عام قارئین کے فہم کو آسان بنانے کے لیے ہم ڈاکٹر خالد امین سے سوال کرتے ہیں کہ کیا مولانا مودودی اور اقبال، سرسید کی طرح خدا کو قادر مطلق نہیں مانتے؟ کیا انہوں نے سرسید کی طرح قرآن میں موجود معجزات کا انکار کیا ہوا ہے! کیا وہ سرسید کی طرح منکر حدیث ہیں؟ کیا انہوں نے کہیں یہ لکھا ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین قرآن کو سمجھے ہی نہیں؟ کیا انہوں نے سرسید کی طرح کہیں انگریزوں کی غلامی کو اللہ کی رحمت قرار دیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر انہوں نے مولانا مودودی، اقبال اور سرسید کو ایک صف میں کیوں کھڑا کیا؟۔
ڈاکٹر خالد امین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو بچانے کی کوشش کی یا تباہ و برباد کرنے کی؟۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر چھوٹا موٹا نہیں ایٹمی حملہ کیا۔ مگر اس بات کی تفصیل ایک الگ کالم میں بیان ہوگی۔ ڈاکٹر خالد امین کو اس کالم کا انتظار کرنا ہوگا۔ البتہ یہاں اتنی بات کہنی ضروری ہے کہ اسلام میں تہذیب و ثقافت مذہب سے نمودار ہوئی ہیں اور بدقسمتی سے سرسید کی مذہبی فکر کے کنویں میں دس بیس گرام نہیں دس بیس من زہر پڑا ہوا ہے۔ اس صورت حال کا مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر جو اثر ہوسکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ ڈاکٹر خالد امین نے یہ بھی لکھا ہے کہ سرسید کی وہ باتیں تو بیان کی جاتی ہیں جو انہوں نے انگریزوں کا ’’حلیف‘‘ بن کر کیں مگر ان کی ان تقریروں اور تحریروں کا ذکر نہیں کیا جاتا جو انگریزوں کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سرسید انگریزوں کے حلیف نہیں تھے۔ بلکہ ان کے ’’غلام‘‘ تھے۔ صرف سیاسی غلام نہیں، روحانی غلام، نفسیاتی غلام، ذہنی غلام، علمی غلام۔ اقبال کی اصطلاح میں وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے انگریزوں کے تسلط کے زیر اثر اپنی انفرادی نہیں اجتماعی خودی بھی کھودی تھی۔ بلاشبہ سرسید نے ایک آدھ جگہ انگریزوں سے ’’اختلاف‘‘ بھی کیا ہے مگر انگریزوں کے ساتھ ان کا ایک آدھ اختلاف بیٹے کا باپ سے اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو اصلاح میں ’’مودب اختلاف‘‘ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد امین نے سرسید کو مسلمانوں کے آنسو پونچھنے والا قرار دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سرسید نے کامل غلامانہ ذہن اور عقل پرستی کے بنے ہوئے جس رومال سے مسلمانوں کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی اس رومال سے مسلمانوں کے آنسو تو نہ پونچھے جاسکے مگر اس رومال میں ایسی زہر نا کی تھی کہ لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کی آنکھ سے بصارت جاتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ بصیرت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کا حکمران طبقہ اور ہمارے بالائی طبقات مغرب کے غلام نہ ہوتے۔ ڈاکٹر خالد امین نے علی گڑھ کالج اور سرسید کے ’’تعلیمی منصوبے‘‘ کی اہمیت پر بھی اصرار کیا ہے۔ اس موضوع پر بھی ہم تفصیلی کالم لکھیں گے لیکن یہاں چلتے چلتے ڈاکٹر خالد امین کو یاد دلائیں گے کہ اکبر جیسا عبقری علی گڑھ کالج اور علی گڑھ تحریک کے بارے میں بنیادی بات کہہ کر دنیا سے رخصت ہوچکا، لیکن پہلے دیوبند اور ندوہ کے بارے میں اکبر کا تبصرہ۔ اکبر نے کہا ہے۔
ہے دلِ روشن مثال دیو بند
اور ندوہ ہے زبان ہوش مند
اب سنیے علی گڑھ کے ’’فلسفے‘‘ کے بارے میں اکبر نے کیا کہا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے
ہاں علی گڑھ کی بھی کم تشبیہ لو
اک معزز پیٹ بس اُس کو کہو
بدقسمتی سے علی گڑھ ماضی میں بھی ’’معزز پیٹ‘‘ کے سوا کچھ نہیں تھا اور آج ہمارے سامنے علی گڑھ کالج کی جو روایت موجود ہے وہ بھی ایک معزز پیٹ کے سوا کچھ نہیں۔ معزز پیٹ کی تخلیق جتنا بڑا کارنامہ ہے وہ ظاہر ہے۔
3 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
I agreed with this article
Jazakillah khair
الله آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے جو آپ امت مسلمہ کو سرسید اور اس جیسے گمراہ عقیدہ رکھنے والوں سے آگاہ کر رہے ہیں
سر سید کی گمراہ کن سوچ اور نظریئے کو دلیل کے ساتھ اجاگر کیا۔ اس قسم کے اور کالمز کا حوالہ مل سکتا ہے؟