آج، فقیرعرصہ پانچ چھ سال کے وقفہ کے بعد، اپنے ایک ایسے پاکستانی دوست سے ملنے چلا گیا جو دبئی کے ایک سرکاری ادارے میں جاب کرتا ہے اور فقیر سے بہت بہتر مالی حیثیت کا حامل ہے۔ فقیر کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور آگے بڑھ کر تپاک سے استقبال کرتے ہوئے عربی انداز والا بوسہ بھی دیا۔
مہمان نوازی کے طور اس نے فقیر کو اعلیٰ قسم کی کھجوریں بھی پیش کیں جن میں سے فقیر نے فقط دو دانے لیے اور کھا چکنے کے بعد، جیب سے ٹوتھ پِک نکال کر، باقی وقت دانتوں میں خلال کرتا رہا۔ میزبان نے قہوہ اور چائے کا بھی پوچھا مگر فقیر کی عدم التفات کے باعث باز رہا۔
دنیا جہاں کی باتیں ہوئیں۔ فقیر نے اس سے اس کے بیٹے کے بارے میں پوچھا جسے اس نے پانچ چھ سال قبل دیکھا تھا۔ اس نے بتایا کہ اب وہ چھٹی کلاس میں زیرتعلیم ہے۔ اس کے علاوہ کراٹے بھی سیکھ رہا ہے۔
فقیر نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کراٹے؟‘‘
کہنے لگا، ’’ہاں، کراٹے سیکھ رہا ہے۔‘‘
فقیر نے دریافت کیا کہ یہ اس کا اپنا شوق تھا کہ والد کا؟
کہنے لگا کہ وہ ’’موبائل ایڈکٹ‘‘ (موبائل کا نشئی) ہوگیا تھا۔ حالت یہ ہوگئی تھی کہ ہر وقت موبائل میں نظریں گاڑے انگلیاں چلاتا رہتا تھا۔ ایک دن میں نے اس کا نام پکار کر کہا کہ یہ برتن کچن میں رکھ دو۔ تو اس نے گویا کہ سنا ہی نہیں۔ پھر میں نے ذرا زور سے کہا تو بھی لگا کہ اس نے سنا ہی نہیں۔ پھر میں تقریباَ چلاّتے ہوئے اس کا نام پکارا تو اس نے سنا۔ پھر وہ اٹھا۔ اس حال میں کہ نظریں موبائل ہی میں گڑی تھیں۔ بغیر دیکھے اس نے ایک ہاتھ بڑھا کر برتن اٹھائے اور بجائے کچن کے، باتھ روم کی طرف جانے لگا۔ اس کی ماں نے چیخ کر کہا: ’’ارشد!!! تم ہوش میں تو ہو؟ یہ برتن تم کہاں لے کر جا رہے ہو؟‘‘
بس، اس کے بعد میں نے اسے پہلے ایک اسپورٹس کلب میں داخل کروا دیا، جہاں اسکول سے واپس آنے کے بعد، سارا دن وہ مختلف کھیل کھیلتا رہتا۔ اس کے بعداب میں نے اسے کراٹے میں داخل کروا دیا ہے تاکہ موبائل سے اس کی جان چھوٹ جائے اور اس کا جسم کچھ مشقت سے آشنا ہو جائے۔ ویسے شوق تو اس کا بھی تھا کراٹے سیکھنے کا۔
اٹھنے سے پہلے، اس نے فقیر کو بتایا کہ رات کو سونے کے لیے اسے نیند کی گولی لینی پڑتی ہے۔ بلکہ اس نے یہ کہہ کر فقیر کو حیران کر دیا کہ نہ صرف وہ، بلکہ اس کی بیوی اور والد بھی رات کی پرسکون نیند کے لیے ٹیبلیٹس کھا کر سوتے ہیں۔ بقول اس کے، جب رات کو سونے کا وقت آتا ہے تو ہم سب گھر والے ایک جگہ بیٹھ کر، اجتماعی طور پر ’’خواب آور‘‘ گولیاں کھاتے ہیں۔
ملاقات کے اختتام پر فقیر نے جب اجازت چاہی تو اس نے بڑی حسرت سے پوچھا:
’’اور آپ اپنی سنائیں، آپ کو رات کو نیند آ جاتی ہے؟‘‘
فقیر نے جواب دیا: ’’الحمدللہ، بہت اچھی اور پرسکون‘‘۔
یہ جواب سن کر میزبان کے چہرے پر گویا کہ حسرت و یاس کی کالی گھٹائیں چھا گئیں۔ ایسا کرب اور ایسی حسرت۔۔۔۔ جسے بیان کرنے کے لیے فقیر کے پاس الفاظ نہیں۔
سچ یہ ہے کہ فقیر کو جب بھی ملاقات کے آخر پہ کیا جانے والا یہ سوال یاد آتا ہے، اس کا دل، اپنے مالک کے حضور جھک جھک جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھنے لگ جاتا ہے۔
بھئی ہے نا فقیر خوش قسمت؟ اچھی اور پرسکون نیند۔۔۔۔۔وہ بھی بغیر گولی کے۔