آزادوخودمختاریہودی ریاست کاقیام یہودکاسب سے بڑاخواب ہے،جس کی تکمیل کے لیے اپنے ضرب المثل بخل کے باوجودوہ اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں،آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے زن،زراورزمین کواس امت کاسب سے بڑافتنہ یوں ہی قرارنہیں دیا،آج یہودکی خوش نودی کے حصول کے لیے امریکاکے عیسائی صدرنے مقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کادارالحکومت قراردینے اوروہاں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کااعلان کیاہے اوراس کے جواب میں ساٹھ کے لگ بھگ اسلامی ممالک کے اکثر حکم ران مہربہ لب ہیں،تواس کے پیچھے اسی فتنے کی حشرسامانی ہے۔مسلم ممالک یہودی دولت کے قرضوں میں گھٹنوں گھٹنوں پھنسے بلکہ دھنسے ہوئے ہیں،مشرق وسطیٰ کے مسلم فرماں رواں کے حرم میں یہودی حسینائیں،ان کی عیاشی وتن آسانی ،وہ ناسور ہے،جس نے انھیں سیال سونے کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجودعزم وارادے اورفیصلہ وعمل کی آزادی سے محروم رکھاہواہے۔
افغانستان سے امارت اسلامیہ کاخاتمہ،عراق میں امریکاواتحادیوں کی جارحیت اوروہاں یہودنوازحکومت کاقیام،یمن وشام میں شبِ خون،مصرمیں ڈاکٹرمحمدمرسی کی حکومت کاخاتمہ اوراخوان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے اورموت کی سزائیں،پاکستان میں لفظ ”جہاد”و”مجاہد”کوگالی بنایاجانااورجہادی جماعتوں پرپابندیاں،مدارس کی حریتِ فکرکوسلب کرنے کی کوششیں،مسلم ممالک میں اسلام کے نام پرذہنی ارتدادکی تحریکوں کی پشت پناہی…سب کے پیچھے ہمیں یہودی سازش اورپیسانظرآتاہے۔بلکہ تھوڑااورپیچھے جائیے توخلافت عثمانیہ کے سقوط،ایران میں شاہ کی حکومت کاخاتمہ اورطویل عراق ایران جنگ بھی شاطرانہ یہودی گریٹ گیم کاحصہ معلوم ہوتی ہے،جس کایہودخودبھی اعتراف کرتے رہے ہیں۔
انیس سو تیرہ میں اسرائیلی وزیردفاع نے بیان دیاتھا:سلطان عبدالحمیدکی حکومت کا خاتمہ ہم نے کیا تھا۔یہ سلطنت عثمانیہ کے واحد غیور حکم ران تھے،جو یہودی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے،چناں چہ اسی جرم میں یہودیوں نے ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔اس کے لیے یہودیوں نے اپنا روایتی’ پروپیگنڈے کا ہتھیار’ استعمال کیا،عوام کو خلیفہ کے خلاف اکسایا،سول نافرمانی کی سی صورتِ حال پید کی،جس کے نتیجے میں سلطان کی حکومت کاخاتمہ ہوگیا۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ:اس وقت تک فلسطین خلافت عثمانیہ کاایک صوبہ تھا۔پورے فلسطین میں کسی جگہ کوئی یہودی بستی موجود نہیں تھی۔سلطنتِ عثمانیہ نے پابندی لگا رکھی تھی کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے یہودی اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے وزٹ ویزے پر فلسطین آ اور چند روز قیام کرسکتے ہیں، لیکن انھیں فلسطین میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں ہوگی،کیوں کہ خلافت کے علم میں یہ بات تھی کہ یہودی فلسطین میں بتدریج آباد ہونے اور اس پر قبضہ جمانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، تاکہ وہ اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست قائم کر سکیں۔
سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے ،خلافت سے دست برداری کے بعد جو اپنی یاد داشیں مرتب کیں،ان میں لکھا ہے : یہودیوں کی عالمی تنظیم کے سربراہ ہر تزل نے متعدد بارمجھ سے خود ملاقات کر کے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں زمین خرید کر محدود تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں، مگر میں نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔پھر کہا کہ آپ ہمیں ایک اعلیٰ سطحی یونی ورسٹی قائم کرنے کی اجازت دیں،میں نے کہا کہ اس کی بھی صرف ایک صورت میں اجازت ہے،کہ یہ یونی ورسٹی فلسطین کے علاوہ کہیں بھی بنائی جائے،کیوں کہ مجھے اندازہ تھا کہ وہ اس یونی ورسٹی کو بھی یہودی آباد کاری کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کریں گے۔سلطان نے لکھا ہے : ایک بار ہرتزل نے میرے سامنے چیک بک رکھ کر منہ مانگی رقم دینے کی پیشکش بھی کی، جس کے جواب میں مَیں نے انتہائی تلخ لہجے میں ہرتزل کو ڈانٹ دیا اور اس سے کہا کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا۔یہی تھا وہ جرم،جس کی پاداش میں سلطان کو خلافت سے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ ان کو خلافت سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی شامل تھا۔ سلطان کے بعد جو بھی عثمانی امرا آئے،وہ نرم روی سے چلتے رہے،یہاں تک کہ1920 ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔
خلافت ِ عثمانیہ کے سقوط کے بعدفلسطین کوبرطانیہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا اور برطانوی گورنر کی زیر نگرانی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، دنیا کے مختلف حصوں سے یہودی آتے اور فلسطین میں زمین خرید کر آباد ہو جاتے۔ اس موقع پر سرکردہ علمائے کرام نے صورت ِ حال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے یہ فتویٰ دیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر بیت المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ریاست قائم کرنے کے خواہش مند ہیں، اس لیے یہودیوں پر فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعا ًجائز نہیں ،لہٰذافلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اراضی یہودیوں کو فروخت نہ کریں۔ (حضرت مولانا محمداشرف علی تھانوی کی کتاب ”بوادر النوادر”میں اس موضوع پر خود ان کا تفصیلی فتویٰ بھی موجود ہے)۔
علما ئے کرام کی یہ مہم کارگر نہ ہوئی ۔اس کی جوہری وجوہ یہ تھیں:اول:حکومت کے ہم نوا علمانے عوام کو باور کرایا کہ حضرت مہدی کے آنے کا زمانہ قریب ہے اوروہ یہودیوں کو ویسے بھی فلسطین سے بے دخل کرکے تمھاری اراضی تمھارے حوالے کردیں گے،اس لیے انھیں اپنی اراضی فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں،چند دن کی بات ہے،تمھیں یہودیوں سے رقم تو مل ہی رہی ہے،زمین بھی واپس تمھیں مل جائے گی۔دوسری وجہ یہ تھی کہ یہودی دگنی تگنی قیمتوں پر زمینیں خرید رہے تھے۔
اب مسلم اکثریتی فلسطین کے بیشتر علاقوں پر یہودی قابض ہیں۔مسجد اقصیٰ،جو انبیائے بنی اسرائیل کے سجدوں کی گواہ ہے،یہودبے بہبود کے پنجۂ استبداد میں ہے،وہاں مسلمانوں کو داخلے اور دینی رسوم تک ادا کرنے کی اجازت نہیں۔ستم بالائے ستم،اب وہاں امریکی سفارت خانہ بھی قائم ہونے جارہا ہے۔جس کے بعد مسلمانوں پر عرصۂ حیات مزید تنگ کیا جاسکتا ہے۔کوئی بعید نہیں کہ ہمارے مسلم حکم ران انکل سام کے اشارۂ ابرو پر اسرائیل کی حمایت کرنے لگ جائیں۔اگر ایسا ہوا ،تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔شاہ فیصل شہید اور بھٹو مرحوم نے مسلم اقوام متحدہ اور مالیاتی اداروں،نیز مسلم کرنسی کے لیے تحریک چلائی،جس کے جرم میں وہ اپنوں کی تیغ ستم کا نشانہ بنے۔صدام حسین ،معمر قذافی نے ان کا انجام دیکھ کر راستے بدلے،مگر انھیں بھی نہیں بخشا گیا۔یہودی کینہ اونٹ کے کینے سے بھی سخت ہوتا ہے۔آج مسلم حکمران ”اب یا کبھی نہیں”کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔کوئی یہودی عزائم کے آگے’ شیطانِ اخرس ‘بنے یابھیگی بلی،یا لوہے کا چنا ثابت ہو،یہود کی نظر میں وہ دشمن ہی ہے۔یہ ہر ایک کے اپنے نصیب کی بات ہے کہ وہ شریف حسین مکہ کی صف میں جگہ پانا چاہتا ہے ،یاحضرت عمررضی اللہ تعالیِ عنہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی ونورالدین زنگی کے ساتھ اپنا حشر چاہتا ہے۔جہاں تک یہودی عزائم کا تعلق ہے،تو یہ اَن مٹ لکیر ہے کہ انھیں دنیا میں خودمختار ریاست کبھی نصیب نہیں ہوگی،یہ خلاق عالم کا فیصلہ ہے،جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔
مولانا محمد جہان یعقوب،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی میں سینئر ریسرچ اسکالرہیں۔