ایک دوست نے جیل کے حالات کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ مجھے جیل میں ایک قیدی ملا. جس نے اپنی کارگزاری سناتے ہوئے بتایا کہ میں جیل کے حالات پر کتاب لکھنا چاہتا تھا. میں جیل کی تمام بیرکس دیکھ چکا تھا. مگر جب میں پھانسی گھاٹ سے متعلق لکھنے لگا. تو یاد آیا کہ جیل کی سب سے خطرناک اور پر اسرار جگہ جسے عرف عام میں پھانسی گھاٹ کہا جاتا ہے. وہ میں نے دیکھی ہی نہیں. پھانسی گھاٹ پر پہرہ دینے والے سپاہی سے بات کی جو اتفاق سے اس کا دوست تھا. اس نے بتایا کہ یہاں جانے نہیں دیا جاتا. اندر جانے کے لیے ایک وردی پہنائی جاتی ہے. اس نے وردی پہنی اور اندر چلا گیا. ایک دن گزارنے کے بعد پھانسی گھاٹ کے اندر ایک شخص داخل ہوا اور پوچھا آخری خواہش کیا ہے، جلدی بتاو.
اس نے کہا بھائی کیا ہوگیا، میں پھانسی والا قیدی نہیں، مگر پھانسی دینے والا نہیں مانا، اس نے کہا میرے دوست کو بلاؤ جس کی ڈیوٹی یہاں تھی. جواب ملا کہ اس کی ڈیوٹی تبدیل ہوچکی ہے. تم جھوٹ چھوڑو بس یہ بتاو آخری خواہش کیا ہے؟ اس نے بہت اصرار کیا مگر اس شخص نے اس کی ایک بات نہ مانی نہ سنی۔
اگلے دن صبح سویرے اسے پھانسی گھاٹ پر پہنچادیا گیا. اس کے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپا جا چکا تھا. مقررہ وقت پر جوں ہی تختہ کھینچنے کو کہا گیا. تو آواز آئی رک جاو. اس کے چہرے سے کپڑے کو ہٹایا تو سامنے وہی دوست تھا. جس نے اسے پھانسی گھاٹ کے اندر جانے کی اجازت دی تھی. دوست نے کہا اب لکھو کتاب اب تم بہت بہترین اور عمدہ انداز میں پھانسی گھاٹ سے متعلق لکھ سکو گے۔