ایک منظم اور موثرکمرۂ جماعت کی آرزو اور تمنا ہر استاد کرتا ہے ۔ منظم اور موثر کلاس روم خود رو پودوں کی طرح از خو نہ تو اگتے ہیں اور نہ ہی نمو و پرورش پاتے ہیں۔بالکل اسی طرح منظم ،موثر اور مربوط کمرۂ جماعت بھی نہ تو اپنے آپ وجود میں آتے ہیں اور نہ ہی اساتذہ کی سعی و کوشش کے بغیر ان کا وجود ممکن ہے۔موثر اور منظم کمرۂ جماعت اساتذہ کی جفاکشی ، جانفشانی، منصوبہ بندی، غایت غور وخوض اور مسلسل جہد و عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔کمرۂ جماعت میں طلبہ کی مسلسل نگرانی و دیکھ بھال ،لگاتار حوصلہ افزائی،اکتسابی مہارتوں کے فروغ اورمنظم و مربوط کمرۂ جماعت کی منصوبہ بندی،اسکولز کو تحصیل علم کے حقیقی مراکز میں تبدیل کردیتے ہیں۔کمرۂ جماعت کی فضاء کو درس و تدریس اور اکتساب کے لئے ساز گار بنانے میں استاد کا کرداراہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک بھرے ہوئے برتن سے خالی برتن میں کسی شئے کی منتقلی کی طرح معلومات کی منتقلی کو درس وتدریس کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔ تدریس صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لئے باصلاحیت ،حوصلہ مند اور علم و تربیت سے آراستہ باکمال و با ہنر افراد کی تیاری و فراہمی کا نام ہے۔اسکولز کو بجا طور پر مردم سازی کے کارخانوں سے معنون کیا جاسکتاہے۔مردم سازی کے ان کارخانوں میں جس جگہ انسانوں کو علم و ہنر اچھے برے کی تمیز،اخلاق و اطوار ،کھوٹے کھرے کی پہچان سے مزین کیا جاتا ہے اس مقام کو ہم کمرۂ جماعت کہتے ہیں۔کمرۂ جماعت کے انتظام و انصرام کی مکمل ذمہ داری اساتذہ کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ فن تعلیم و تربیت کے شعبے میں کمر ۂ جماعت کے انتظام و انصرام کے لئے کلاس روم مینجمنٹ کی اصطلاح عام طور پر مستعمل ہے۔کلا س روم مینجمنٹ درس و تدریس،تعلیم و تربیت اور اکتساب کے فروغ میں معاون وسائل کو منظم و مربوط کرنے کا دوسرا نام ہے ۔اساتذہ تعلیم و تربیت اور اکتساب کے فروغ میں معاون وسائل کو مربوط و منظماور موثر و بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اکتساب (پڑھنے اور سیکھنے ) کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ اساتذہ کوپڑھنے اور سیکھنے میں معاون وسائل کے بروقت ، موزوں اور مناسب استعمال کا فن کلاس روم مینجمنٹ فراہم کرتا ہے۔کلاس روم مینجمنٹ کا علم نہ صرف کمرۂ جماعت میں استاد کے تدریسی عمل کو موثر بنانے میں معاون ہوتا ہے بلکہ طلبہ کے غیر پسندیدہ رویوں کو راہ راست پر لانے، مثبت رویوں کے فروغ اور اکتساب کی شرح اورنمو و فروغ میں بھی کلیدی کردار انجام دیتا ہے۔ہر کمرۂ جماعت میں مختلف النوع قسم کے طلبہ پائے جاتے ہیں ہر طالب علم کا رویہ ،استعداد اور قابلیت ہر لحاظ سے دیگر طلبہ سے جدا گانہ ہوتی ہے۔مختلف النوع و مختلف رویوں،استعداد اور قابلیت کے حامل طلبہ کومنظم کرنے ،ان میں جذبہ تعاون و عمل پیدا کرنے اور ان کی توانائی اور اکتساب کو کارآمد بنانے کے لئے اساتذہ کی جانب سے مثبت اقدامات کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ میں اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے ،اکتسابی مسائل کا سامنا کرنے اور پڑھنے اور سیکھنے کے عمل کو پر لطف وپر کیف بنانے میں طلبہ مرکوز(Student Centered) کمرۂ جماعت والا ماحول نہایت سود مند ثابت ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت کا صحت مند ماحول طلبہ میں مسابقت ، دیانت اورسخت محنت کے جذبات کو فروغ دے کر انھیں بے مثال کامیابیوں سے ہمکنار کر تا ہے۔کمرۂ جماعت کے انتظام ،انصرام اور تزئین میں اساتذہ کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال میں حددرجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اساتذہ مناسب حکمت عملیوں کو وضع اور ان پر عمل کرتے ہوئے ایک سازگار کمرۂ جماعت کے ماحول کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ کمرۂ جماعت کی تنظیم وترتیب کے علم سے عاری اساتذہ کی ایک بڑی تعداد اپنی تدریسی خدمات کی انجام دہی میں کمرۂ جماعت میں سخت مسائل اورالجھنوں کا شکا ر جدو جہد کرتیدکھائی دیتی ہے۔ بہتر صلاحیتوں اور قابلیت کے باوجود بھی وہ اپنا بہتر کردار پیش کرنے سے چو ک جاتے ہیں ۔اساتذہ کی تدریسی ناکامی کے اسباب میں ایک سبب کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب سے عدم آگہی اور تدریسی وسائل کے بروقت استعما ل اور طلبہ کی تعلیمی ضروریات کے مطابق درس و تدریس کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی میں ناکامیہے۔کمرۂ جماعت کا ماحول بچوں کی تعلیم و تربیت میں اساسی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ اساتذہ اپنی ادنیٰ سی کوشش سے کمرۂ جماعت میں ایک ایسا اکتسابی ماحول پروان چڑھا سکتے ہیں جہاں ایک طالب علم غیر محسوس انداز میں تعلیم و تربیتسے آراستہ ہوسکتا ہے۔ذیل میں ان اسباب وعلل کا ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کلاس روم کا ماحول اور فضاء متاثر و مجروح ہوجاتی ہے۔
۱۔طلبہ کی تعلیمی ضروریات کا خیال نہ رکھتے ہوئے اور طلبہ مرکوز تعلیمی ماحول کو فراہم کئے بغیر موثرکمرۂ جماعت کا تصور ایک ناممکن امرہے۔
۲۔غیر موزوں منصوبہ بندی اور نئے تعلیمی نظریات و رجحانات کو اپنانے میں اساتذہ کا تذبذب اور عدم دلچسپی کمرۂ جماعت کے انتظام و انصرام میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔
۳۔طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بہتر تعلقات کافقدان اور اساتذہ تک طلبہ کی رسائی پر عائد پابندیا ں بھی کمرۂ جماعت کے ماحول کو ابترکردیتی ہیں۔
۴۔نظم و ضبط کی تعلیم اور طلبہ میں پسندیدہ رویوں کو فروغ نہ دینے سے بھی کمرۂ جماعت کا ماحول مکدرہوجاتا ہے۔
۵۔ اساتذہ کی جانب سے تدریسی اوقات کو اختراعی انداز میں استعمال نہ کر نا ،تعلیمی وسائل کا عدم استعمال اور طلبہ کی دلچسپی اور توجہ کو تحریک دینے والے تعلیمی سرگرمیوں سے اجتناب بھی موثر کمرۂ جماعت کی تشکیل میں مانع بن جاتے ہیں۔
۶۔جب اساتذہ میں درس و تدریس کا شوق و ذوق مفقود ہوجائے اور وہ تدریس کو صرف دولت بٹورنے یا روزی کمانے کا ایک ذریعہ سمجھنے لگ جائیں تب بکمرۂ جماعت کی فضاء تعلیمی عمل کے لئے سوہان روح ثابت ہوتی ہے۔
ایک منظم و موثر کمرۂ جماعت کے تما م تعلیمی افعال ایک دوسرے سے باہم مربوط و پیوست رہتے ہیں اور جوطلبہ کو غیر محسوس طریقے سے دعوت اکتساب دیتے رہتے ہیں۔ منظم کمرۂ جماعت کی خوبیوں میں استاد کا کمرۂ جماعت میں اپنے تدریسی فرائض ،منظم ،مربوط ،احسن ، موثراور دلکش انداز میں سر انجام دینا بھی ایک خوبی ہے۔ درس و تدریس تمام اساتذہ سے مبنی بر مقاصد ،طلبہ مرکوز اور نتیجہ خیز تدریسی افعال کا تقاضہ کرتی ہے۔اساتذہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف کمرۂ جماعت کی فضاء کو تبدیل کرنے کے بلکہ طلبہ کی زندگی اور مستقبل کو سمت اور رفتار فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔درس و تدریس کا ہرایک مرحلہ استاد کی موثر تدریس کے علاوہ کمرۂ جماعت کے منظم انتظام و انصرام سے جڑا ہوتاہے۔کمرۂ جماعت کے انتظام و انصرام میں کئی ایسے قابل ذکر عناصر و عوامل ہیں جن پر عمل آوری کے بغیر تعلیمی مقاصد کا حصول ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔کمرۂ جماعت کو منظم و مربوط کرنے والے عوامل و وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مدارس کو تحصیل علم کے دلکش اداروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔کریمر اور ریزائیٹ نے 1999میں چار ایسے عوامل کی نشاندہی کی ہے جو کمرۂ جماعت کا ماحول تشکیل دینے اور طلبہ کے اکتساب کو پروان چڑھانے میں ذمہ دار گردانے گئے ہیں جوحسب ذیل ہیں۔
۱۔طلبہ سے وابستہ اکتسابی توقعات اور نتائج(Expectations of student’s learning outcome)
۲۔ کمرۂ جماعت کامنظم ا ور مربوط ماحول(Orderly Classroom environment)
۳۔استاد اور شاگردوں کے درمیان صحت مند تعلقات و برتاؤ ،جماعت کے طلبہ کا ایک دوسرے سے مثبت و محبت آمیز رویہ و سلوک۔
۴۔کمرۂ جماعت کا طبعی ماحول(Physical environment of the classroom)
متعد د محققین و ماہرین تعلیم کے نزدیک کمرۂ جماعت کے ماحول اور طلبہ کی تعلیمی ترقی کے درمیان ایک اٹوٹ وابستگی پائی جاتی ہے۔سنجید ہ غور و فکر، عمدہ منصوبہ بندی ،مبسوط لائحہ عمل،وقت کا بہتر اور تخلیقی استعمال،استاد کا مشفق و محبت آمیز رویہ طلبہ کے اکتساب اورتعلیمی مظاہروں میں بہتری پیدا کرنے والے وسائل اکتساب کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوتے ہیں۔ایک منظم و مربوط کمرۂ جماعت طلبہ کو کبھی ا کتسابی (سیکھنے) دباؤ کا شکار نہیں ہونے دیتا ہے۔موثر و منظم کمرۂ جماعت کے زیر اثرطلبہ از خود اکتسا ب کی جانب مائل و راغب ہوتے ہیں۔کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کی خاموش تعلیم و تربیت انجام دیتا ہے۔کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب سے استاد کا تدریسی وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ذیل میں ایسے عوامل و عناصر پر روشنی ڈالی گئی ہے جو کمرۂ جماعت کی فضاء اور ماحول کو اکتساب کے لئے ساز گار بنانے میں معاون و مددگارہوتے ہیں۔
کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب؛۔کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب طلبہ کو اکتسابی آمادگی پر مائل اور متحرک کرتی ہے۔کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب اکستابی عمل کو پروان چڑھانے میں ایک کارگر محرکہ کا کام انجام دیتی ہے۔کمرۂ جماعت کی تزئین و آرائش اور تنظیم و ترتیب کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمرۂ جماعت کی فضاء کو اکتساب کے لئے ساز گار، متحرک ،فعال،آرام دہ اور طلبہ کے لئے مانوس بنایا جاسکتا ہے۔کمرۂ جماعت کی تنظیم وترتیب کمرۂ جماعت کو زندگی سے معمورکردیتی ہے۔کمرۂ جماعت کی تنظیم وترتیب سے ہمیں درکار جگہ کے موثراور مناسب استعمال کا علم حاصل ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت کی ترتیب اور آرائش کو قابل اعتنا نہ سمجھ کر اساتذہ طلبہ کے خراب رویوں (برتاؤ) اور ان کی سرگرمیوں پر قابوپانے میں کئی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔کمرۂ جماعت میٖں ساز و سامان اور تدریسی و اکتسابی اشیاء کی موزوں و مناسب آرائش و ترتیب کے فن سے اساتذہ کا آراستہ ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ مائیک ہاپکنس (Mike Hopkins) کے مطابق کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب استاد کے تدریسی اسلوب و مطلوبہ تعلیمی ضروریات کے تابع ہوتی ہے.(Personal teaching style and specific educational needs should largely determine how you design your classroom)اساتذہ کمرۂ جماعت کی تنظیم ،ترتیب و آرائش کے وقت طلبہ سے تجاویز وآراء طلب کریں تاکہ ان میں تنظیمی صلاحیتوں کو پروان چڑھایاجاسکے اور کمرۂ جماعت کے ماحول کو بہتر بنایا جاسکے۔ذیل میں چند ایسی تجاویز دی گئی ہیں جس کی مدد سے اساتذہ کمرۂ جماعت کی مناسب تنظیم اور اس کے طبعی ترتیب کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
۱۔کمرۂ جماعت میں نشتوں (بینچوں)کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ہر طالب علم کو تختہ سیا ہ اور معلم کی تدریسی سرگرمیوں اور تاثرات کے مشاہدے کا راست موقع حاصل ہو۔بے ترتیب و بے ہنگم سٹنگ ارینجمنٹ(نشستوں کا نظم)طلبہ کی بے آرامی اور کمرۂ جماعت کی خوب صورتی کو متاثر کرنے کا سبب ہوتا ہے ۔کشش و جاذبیت سے عاری کمرۂ جماعت بھی طلبہ کی اکتسابی گراوٹ کا سبب ہوتے ہیں۔فرنیچر طلبہ کی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ فرینچر میں یکسانیت ہونی چاہئے۔کمزورسماعت و بصارت ،پست قد اور جسمانی طور پر معذور طلبہ کو سامنے کی بینچیں فراہم کریں۔اونچے اور بھاری جسامت کے بچوں کو پچھلی نشستیں فراہم کریں تاکہ ہر طالب علم استاد کی تدریسی سرگرمیوں کا بخوبی مشاہد ہ کر سکے۔طلبہ کو تختہ سیا ہ اور استاد کے تاثرات کو دیکھنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوں۔بہتر سٹنگ ارینجمنٹ طلبہ میں اطمینان ، آرام و سکون فراہم کرتے ہوئے ان میں اکتسابی محرکہ پیدا کرتا ہے۔کمرۂ جماعت میں نشتیں اور دیگر تعلیمی سامان کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ہر طالب علم تک استاد کی رسائی ممکن ہوسکے اور طالب علم بھی استاد تک باآسانی پہنچ پائے۔ نشستوں کی ترتیب میں اگر بگاڑ ہوگا اور تختہ سیا ہ اور استاد کی تدریسی سرگرمیوں کے مشاہدے میں رکاوٹیں حائل ہوں گی تب طلبہ سے غیر پسندیدہ برتاؤ اور ڈسپلن شکنی کا اظہار یقینی امر ہے۔
۲۔نشستوں کی ترتیب اس طرح ہوکہ جماعت کا ہر طالب علم استاد کی نگاہ سے نہ بچ سکے۔اور ہر طالب علم کو احساس رہے کہ اس پر استاد کی نظر ہے اور استاد اس کی ہر سرگرمی سے باخبر ہے۔
۳۔اگر کوئی طالب علم سستی اور کاہلی سے کام لے رہا ہو اور کام سے دامن جھاڑنے کی کوشش کر رہا ہو تب نشستوں کی تبدیلی کے ذریعے (جہاں سے آپ ان پر نظر رکھ سکتے ہوں) طلبہ کو پھر اکتساب کی جانب راغب کیا جاسکتاہے۔ اگر استاد کو کمرۂ جماعت اپنے اسلوب تدریس کے مطابق نہ محسوس ہورہا ہو تب حسب ضرورت کمرۂ جماعت کے نقشے کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔طلبہ کی گروہی سرگرمیوں کی انجام دہی کے وقت بھی کمرۂ جماعت کی ترتیب و تنظیم کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
۴۔ بلیک بورڈ اورچارٹس کو اتنی بلندی پر رکھا جائے کہ وہ سب کو آسانی سے نظر آئے ۔اتنا بھی اونچا نہ رکھا جائے کہ دیکھنے میں طلبہ کو دقت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ دیگر بصری ٹیچنگ ایڈس(تدریسی معاون اشیاء) کو ایسی جگہ پر رکھا جائے جہاں سے تمام جماعت کے طلبہ آسانی سے ان کا نظارہ کر سکیں۔تعلیمی و تدریسی اشیاء کو اس طرح رکھا جائے کہ استاد اور طلبہ کی ان تک رسائی آسانی ہوسکے۔سامان فرینیچر وغیرہ رکھتے وقت خیال رہے کہ داخل ہونے اور نکلنے کے راستے میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
۵۔طلبہ کے سینوں میں عزائم کو بیدار کرنے کے لئے ہر کمرۂ جماعت کا نام کسی عبقری شخصیت کے نام پر رکھا جائے جیسے ڈاکٹر علامہ اقبال،ڈاکٹر ذاکر حسین،وغیرہ۔کمرۂ جماعت کے باب الداخلہ پرعظیم شخصیات کا تعارف اور کارناموں کو وال پینٹگس یا چارٹ یا پھر بلٹین بورڈ کی شکل میں آویزاں کیا جائے ۔ان کی زندگی کے حالات اور کارناموں کو اجاگر کر کے پیش کیا جائے تاکہ طلبہ میں اعلیٰ مقاصد کو پیدا کیا جاسکے۔پورے اسکول کے لئے ایک سالانہ نصب العین (Motto of the year) اور ہر جماعت کے لئے الگ یا پھر وہی نصب العین کو مقرر کیا جاسکتا ہے۔سال کے لئے ایک نصب العین مقرر کرنے کے علاہ ہر ماہ کے لئے ایک علیحدہ نصب العین مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اساتذہ طلبہ کو نصب العین کی تعلیمی اہمیت سے آگاہ کریں یہ نصب العین (theme)ایک آیت قرآنی ،حدیث،مصرعہ یا،قول کی شکل میں طئے کی جائے اور پورا مہینہ ماہانہ themeکے لئے اور پورا سال سالانہ themeکے لئے طلبہ کی رہبری و رہنمائی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے لئے نظام الاوقات و عمل تشکیل دیاجائے۔
۶۔بلیک بورڈ( تختہ سیا ہ )سے کسی قدر اوپر جماعت میں طلبہ کے لئے استقبالیہ کلمات ’’خوش آمدید‘‘(Welcome)پینٹ کروایں یا پھر بورڈ آویزاں کریں۔
۷۔جماعت کاٹائم ٹیبل ایک خوب صورت چارٹ پر تحریر کرکے آویزاں کریں۔ٹائم ٹیبل آویزاں کرنے کا صحیح مقام بلیک بورڈ کے دائیں یا بائیں ہوتا ہے۔تاکہ دن بھر کا شیڈول طلبہ کی نظروں کے سامنے رہے۔
۸۔کمرۂ جماعت کی دیواروں پر چارٹس اور دیگر تعلیمی و اکتسابی مواد کو چسپاں کرتے ہوئے کمرۂ جماعت کی جاذبیت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔یہ اشیاء طلبہ کی دلچسپی کو مبذول کرنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔تعلیمی سال کے آغاز پر ہی طے کرلیں کہ پروجیکٹ میں کونسے خاکے ،نقشے ،جدول اور تصویریں دینی ہیں اور جو نصاب و موضوع سبق کے مناسب ہو جیسے سائنس روم کی تزئین و آرائش کے لئے سائنسی چارٹس ،پوسٹرس،ماڈلس وغیرہ۔چارٹس آویزاں کرنے سے قبل ان کی اونچائی کا تعین بھی کرلیں تاکہ تمام چارٹس اور ماڈلس کی بلندی ایک جیسی ہو اور وہ استاد کے قلم او ر پوئنٹر تک قابل رسائی ہو۔چارٹس ،تصاویر اور اشکال جاذب نظر اوراصل کے مماثل ہوں۔سیاہ رنگ کے استعمال سے حت الامکان گریز کریں کیونکہ کم روشنی والے کمروں میں سیاہ رنگ دیکھنے میں تکلیف و وقت ہوتی ہے۔کیل وغیر ہ کو بلیک بورڈ کی پیشانی پر لگایں تاکہ چارٹس پوسٹرس اور خاکوں کو لگانے اور طلبہ کو دکھانے میں آسانی ہو۔
۹۔طلبہ میں صفائی اور نظافت کے جذبے کو پروان چڑھائیں۔جماعت کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کریں۔کلاس میں ردی کی ٹوکری(Dust Bins) رکھی جائے۔ ایک ٹوکری ٹٹیچرکی میز کے نیچے اور دوسری کمرۂ جماعت کے دروازے کے پیچھے یا کلاس کے آخر میں رکھی جائے ۔طلبہ کو تراشیدہ پنسل کے برادے سے لیکر کھانے پینے کی ناکارہ اشیاء اسی میں ڈالنے کی تلقین و ہدایت کریں۔
۱۰۔کمرۂ جماعت میں الماری وغیرہ کا اہتمام کرتے ہوئے طلبہ کے فن پاروں اور کارآمد تعلیمی و اکتسابی اشیاء وغیرہ کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔کمرۂ جماعت کی دیواروں اور فرنیچر پر لکھنے اور تصویریں بنانے سے طلبہ کو باز رکھیں۔
۱۱۔طلبہ میں ذوق مطالعے کو پروان چڑھانے ،تعلیمی حو ا لہ جات اور تصوراتی تشکیل کے لئے کمرۂ جماعت میں ایک مختصر لائبریری(کتب خانے) کا اہتمام کمرۂ جماعت کے ماحول اور تاثیر کو چارچاند لگا دیتا ہے۔استاد کی غیر حاضری کے موقع پر یہ لائبریر ی طلبہ کو مصروف رکھنے میں بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔
۱۲۔کمرۂ جماعت میں ایل سی ڈی ،ٹی وی،پروجیکٹر یا پھر کمپیوٹر نصب کرنے سے کمرۂ جماعت کی افادیت کو پروان چڑھانے کے علاوہ اکتسابی فضاء کوفروغ دیا جاسکتا ہے۔کمپیوٹر ،پروجیکٹر کے ذریعے اکتساب کو پروان چڑھانے میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے۔
مذکورہ بالا ہدایات پر عمل پیرا ہوکر کمرۂ جماعت کے ماحول کو موثر ،درس و تدریس اور اکتساب کو پرکیف اور دلچسپ بنایا جاسکتا ہے۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...