پولیس کےبارے میں عام پاکستانیوں کے بہت منفی تاثرات ہیں، میں نے سوچا کچھ تجزیہ کرنا چا ہئیے میں آج دو بج کر دس منٹ پہ ایک تھانے میں گیا۔ تھانے میں داخل ہونے سے پہلے میں نے اپنی بائیک کو آدھا کلو والا تالا تھانے کے سامنے لگایا اور تھانے کے اندر داخل ہونے سے پہلے گیٹ پہ بیٹھے پولیس اہلکار کو سلام کیا اور ہاتھ ملا کر پوچھا صاحب جی کہاں ہیں۔ پولیس والے نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا کہ صاحب جی اندر کمرے میں ہیں۔ میں کمرے کے اندر داخل ہوا ٹوٹا پھوٹا کمرہ جہاں پہ صاحب جی کرسی پہ بیٹھے تھے اور منشی ان کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے تھے میں نے صاحب جی کو سلام کیا صاحب جی نے بیٹھے ہوئے ہاتھ ملایا اور کچھ لوگوں سے بات کرنے لگے وہ ایک ایسا بندہ تھا جس کی بائیک کے کاغذات نہ تھے صاحب جی بولے کاغذات لے آئو اور بائیک لے جائو وہ بندہ صاحب جی کو منت سماجت کرنے لگا اور کہنے لگا کاغذات گھر میں بھول آیا ہوں لیکن صاحب جی نے ایک بھی نہ مانا اور کہا پہلے کاغذات لائو پھر بات کریں گے اسی دوران صاحب جی نے ایک سوال پھینک دیا۔ کیا کرتے ہو تو اس بائیک والے نے کہا کہ میں کسان ہوں تو صاحب جی نے تیز آواز میں کہا ہاتھ دکھائو تو اس شخص نے اپنا ہاتھ صاحب جی کے ہتھیلی پہ رکھا اور کہا کہ تم تو ہاتھ سے چور لگتے ہو نہ کہ کسان۔
یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد میں نے صاحب جی سے عرض کیا سر جی بلاگ کیلئے آپ سےکچھ بات کرنا ہے اور آپ لوگوں نے کن مسائل کا خاتمہ اس شہر سے کیا ہےاور کون کون سے مسائل ہیں۔ ابھی میری بات پوری ہی نہ ہوئی تھی تو صاحب جی کے ایک منشی بول پڑے میرا شہر تو مسائلستان ہے کس کس پہ لکھو گے دوسرا منشی بھی جلدی بول پڑا جائو یار سڑک پہ کسی مزدور کا انٹرویو لے لو میں حیران ہوا کہ شاہ سے زیادہ وفادار شاہ کا منشی ہوتا ہے اسی ٹائم صاحب جی نے اپنی ٹوپی اٹھائی اور ہاتھ پہ پھیرتے ہوئے کہا ایسا کرو ایک گھنٹہ آپ تھانے میں انتظار کرو بعد میں آپ سے کچھ بات کرتا ہوں۔ صاحب جی مجھے اکیلا چھوڑ کر اپنی بغیر نمبر پلیٹ والی کار میں گشت پہ چلے گئے اور میں نے اپنی بائیک کا تالا کھولا اور گھر کی طرف چل پڑا ۔
(نوٹ یہ کہانی سچی ہے )