(سیرتِ نبویؐ کے چند اسباق)
ارکانِ اسلام میں ’’صلوٰۃ‘‘ دوسرا اہم ترین رُکن ہے۔ لیکن صدیوں سے یہ کسی تبدیلی، نئے پَن اور اختراع سے محفوظ ہے۔ بلکہ اگر نماز میں اختراعات کی جائیں تو وہ فاسد ہوجائے گی۔ لگے بندھے طریقے سے ہر روز، بار بار ایک جیسی عبادت کی جاتی ہے اور قیامت تک کی جاتی رہے گی۔ لیکن اس لگی بندھی اور بار بار ایک ہی طرح دہرائی جانے والی۔۔۔ نماز جیسی عبادت میں بھی، دین کا حکم ہے کہ آنکھیں کُھلی رکھو۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمہ وقت مُتغیر دنیا، مُعاملاتِ دنیا اور مسلسل اور لحظہ بہ لحظہ بدلتے زمان و مکاں کے متعلق۔۔۔ ہمارا دین، آنکھیں کھلی رکھنے کا حکم نہ دیتا ہو۔ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ہمیں سمع، بصر اور فواد کی تین زبردست قوتیں دی ہیں۔ سننے، دیکھنے، سمجھنے اور تجزیہ کرکے بہتر سے بہتر اقدام کرنے کی راہ دکھائی ہے۔ دین کے اس مزاج کو۔۔۔ خود ’’اِقامتِ دین‘‘ کی جدوجہد کے لیے بھی کیوں نہ اپنایا جائے اور بھرپور اپنایا جائے؟
اِسی زاویۂ نظر نے درجِ ذیل خیالات کے اظہار کی جسارت دی ہے۔
ایک سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہمارے آقا و رہبر، نبئ اکرم، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفی بن عبداﷲ الہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم جزیرہ نمائے عرب کے بجائے۔۔۔ فارس یا روم میں پیدا ہوئے ہوتے۔۔۔ تو کیا تاریخی واقعات اور نتائج وہی ہوتے جو کہ ہمیں معلوم ہیں؟ اِس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر آپؐ فارس یا روم میں مبعوث کیے گئے ہوتے۔۔۔ تو کیا آپؐ کی دعوت کا اُسلوب اور طریقہ کار، سیاسی پالیسی اور حکمت کاری (Political Policy & Strategy) وہی ہوتی جو آپؐ جزیرہ نمائے عرب میں اختیار کرتے نظر آتے ہیں؟ زیادہ اہم، لیکن مشکل سوال یہ ہے کہ دوسری صورت میں، وہ پالیسی کیا ہوتی؟ وہاں حکمتِ عملی کیسی ہوتی؟ فارس میں کیا، کیا گیا ہوتا؟ اور روم میں دعوت اور سیاست سے کس طرح عہدہ برآ ہوا جاتا؟
یہ سوالات اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ کم از کم میرے علم کی حد تک یہ تینوں (رومی، ایرانی، عرب) مُعاشرے اور ان میں قائم سماجی، مَعاشی، سیاسی، تہذیبی، لسانی اور عسکری نظام (اگر کوئی تھا، اور جیسا بھی تھا) اور وہاں کے حالات ہرگز یکساں نہیں تھے۔ مثلاً یہ کہ فارس و روم میں عظیم الشان بادشاہتیں، صدیوں سے قائم تھیں۔ اُن کے پاس اپنے دور کے مُستحکم اور مؤثر ترین نظام ہائے سیاسی و معاشی و عسکری موجود تھے۔ باجبروت اور ہمہ مقتدر بادشاہوں کے سلسلے تھے۔ ان کے ہاں بڑے بڑے اور متمدَّن شہر اور قصبات تھے۔ صوبوں، ضلعوں، تحصیلوں جیسے کئی سطحی حکومتی ڈھانچے قائم تھے۔ قوت و اقتدار کا بڑا حصہ، بادشاہ یا شہنشاہ کی کرسی میں مرتکز تھا۔۔۔ لیکن مُعاشرتی طور پر۔۔۔ ایرانی سلطنت، رومی سلطنت سے جدا تھی۔۔۔ اور یہ دونوں معاشرے عرب سماج سے الگ تھے۔ اِسی طرح اِن خطوں کی صدہا برس کی تاریخ بھی اور آب و ہوا بھی جدا تھی۔ نتیجتاً وہاں کے انسانوں کے مزاج بھی الگ تھے۔
جزیرہ نمائے عرب (تقریباً وہ تمام خطّہ جو آج سعودی عرب کی ریاست میں شامل ہے) بالکل مختلف کیفیت کا حامل تھا۔ اس کی تاریخ بھی جدا، اس کی مُعاشرت اور آبادی کی تقسیم (Demography) بھی الگ، اس کی سیاست و معیشت بھی منفرد اور اس کا عسکری نظام بھی علیحدہ طرز کا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں کوئی دریا اور قابلِ ذکر جھیل نہیں ہے۔۔۔ وسیع و عریض قابلِ کاشت رقبے نہیں ہیں۔۔۔ وہاں زیادہ اور گھنی آبادیاں آج بھی نہیں ہیں۔۔۔ موسم سخت گرم رہتا ہے۔ تیل اور معدنیات کی دریافت سے قبل۔۔۔ یہ خطۂ زمین، کسی طالع آزما بیرونی حکمراں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتا تھا۔ صرف یمن کا خطہ، بحری آمد و رفت کے اہم دروازے کی حیثیت سے۔۔۔ حملہ آوروں اور توسیع پسندوں کے لیے اہمیت اور کشش کا حامل تھا اور آج بھی ہے۔
بقیہ جزیرہ نمائے عرب پر صدیوں (بلکہ غالب امکان ہے کہ ہزاروں سال) سے کوئی بڑی لشکر کشی نہیں ہوئی اور نہ وہاں کوئی ’’بادشاہ‘‘ حکمراں رہا (ابرہہ کی لشکر کشی، الگ مُعاملہ تھی)۔ کوئی مرکزی اقتدار یا بڑا مرکزِ اقتدار بھی نبئ اکرمؐ کی آمد کے وقت وہاں موجود نہیں تھا۔۔۔ بلکہ صدیوں سے نہیں تھا۔ اُس وقت وہاں کوئی بڑا شہر بھی آباد نہیں تھا۔ سب سے بڑا شہر مکہ تھا، جس کی آبادی بارہ سے سولہ ہزار کے آس پاس بتائی جاتی ہے۔ اس سے چھوٹے شہر طائف اور یثرِب (مدینہ) تھے۔ یثرب کی آبادی چھے ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں، جو دور دور اور منتشر تھیں۔ ان شہروں اور آبادیوں کے بھی کوئی اکلوتے حاکم نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ ایک ایک شہر میں کئی کئی سردار مل کر نظام چلایا کرتے تھے۔ خود مکہ شہر پر کوئی فردِ واحد حکمراں نہیں تھا۔ دس نمائندہ سرداروں کی مجلس میں فیصلے ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے ان کا نظام، وحدانی اور آمرانہ نہیں، شورائی کہلا سکتا ہے۔
قبائلیت اور بَدوِیّت سے معمور، یہ عرب خطہ اور مُعاشرہ۔۔۔ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکو اتفاقاً نہیں ملا تھا یا اس معاشرہ کو آپؐ حادثاتی طور پر حاصل نہیں ہوگئے تھے۔ بلکہ ہمارا یقین ہے کہ اُن مخصوص نتائج کو۔۔۔ جو بِعثتِ محمدیؐ کے نتیجے میں تاریخ کا حصہ بنے۔۔۔ حاصل کرنے کے لیے اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے جزیرہ نمائے عرب کو صدیوں کے تعامل سے گزار کر ایسا بنا دیا تھا۔ اِسی طرح حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعوتی و سیاسی پالیسی اور حکمتِ عملی اپنائی، وہ بالکل اُسی معاشرے اور تاریخ کے اُسی مخصوص مرحلے کے لیے تھی اور بالکل درست تھی۔ وقت و حالات نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔
یہاں پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ اگر آپؐ فارس یا روم میں مبعوث کیے جاتے یا مثلاً آپؐ کسی بگڑی ہوئی مسلمان قوم میں بھیجے گئے ہوتے (انبیائے بنی اسرائیل کی طرح)۔۔۔ تو کیا آپؐ پھر بھی ویسی ہی دعوتی و سیاسی پالیسی اور حکمتِ عملی لے کر چلتے جو آپؐ جزیرہ نمائے عرب کے مشرک، اور ساتھ ہی منتشر مُعاشرے میں لے کر چلے؟ یکساں نتائج والا سوال بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔
بہت ڈرتے ہوئے، لیکن ذمہ داری کے ساتھ ایک اور سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ عموماً ایک عام مسلمان۔۔۔ سیرتِ نبوی کے انفرادی حوالوں کو اہمیت دیتا ہے تاکہ ذاتی زندگی میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرسکے۔۔۔ اور اگر وہ اجتماعی زندگی کے حوالوں سے دلچسپی رکھتا بھی ہے تو اس لیے کہ وہ اپنے دور کی اجتماعی زندگی میں، اُس شاندار اور بابرکت دور کی جھلکیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اپنے دور کو، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین کے دور جیسا بنا دینے سے۔۔۔ اور اُس میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے سے۔۔۔ عام آدمی کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی اور اکثریت کو ہو بھی نہیں سکتی۔۔۔ چاہے ہم کتنی ہی خواہش کریں یا خواب دیکھیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آج جو مختصر سا گروہ، اسلامی تحریک کے نام سے (کئی نسلوں سے) مسلسل محوِ سفر ہے۔۔۔ کیا اس کا سماجی و تاریخی شعور، اُس کا سیرتِ نبوی اور جُہدِ نبوی کو دیکھنے کا انداز اور نقطۂ نظر۔۔۔ وہی ہونا چاہیے جو ایک عام مسلمان کا یا مُعاشرے کی اکثریت کا ہوتا ہے؟۔۔۔ اور یہ بھی کہ ’’محوِ سفر‘‘ رہنا ہی مقصود و مطلوب ہے؟ یا راہِ سفر کے احوال و کیفیات و تجربات پر غور و فکر کرنا اور سیرتِ نبوی کے نورِ حکمت سے رہنمائی لے کر۔۔۔ اپنی لگام (Steering)، اپنے ایکسیلیٹر اور اپنے بریک کا درست اور بہتر استعمال کرنا بھی، اس کی ذمہ داری ہے؟ مسلسل اور اَن تھک سفر کرنا، سفر کے درست ہونے کی دلیل نہیں۔۔۔ اور نہ ہی کولہو کے بیل کی طرح، صبح تا شام چلتے رہنا، مدام چلنا، کامیابی کی ضمانت ہے۔۔۔ حالانکہ یہ ’’سفر‘‘ خود ایک عمل ہے اور بڑے تسلسل، انہماک اور یکسوئی کا عمل ہے۔
ایک اور سوال جو میرے ذہنی اُفُق پر اٹک جاتا ہے کہ قرآن نے متعدد انبیا علیہم السلام کے جو قصے اور ان کے اجزا، تکرار و تواتر سے بیان کیے ہیں۔۔۔ تو کیا یہ محض عبرت و گداز پیدا کرنے کے لیے ہیں؟ یا ان کی کوئی اور زیادہ فعال (Dynamic) حکمت بھی ہے؟ کیا یہ قرآنی واقعات اور حوالے، اس لیے بھی نہیں ہیں، کہ قیامت تک بدلتے چلے جانے والے زمان و مکان۔۔۔ اور ایک ہی دور میں الگ الگ خطوں کے، الگ الگ احوال و کیفیات میں اسلامی جدوجہد کے لیے۔۔۔ یہ اشارات کا کام کریں، نورِ ہدایت و رہنمائی بنیں؟
جزیرہ نمائے عرب کے مشرک مُعاشرے کی کیفیات و احوال کو، آخر پاکستانی مسلم مُعاشرے میں کس طرح، جوں کا توں منطبق کیا جاسکتا ہے؟ یہاں نہ وسیع و عریض خطے میں بکھرا ہوا، لیکن کم آباد، بَدوی مُعاشرہ ہے۔۔۔ نہ ’’لامرکزی‘‘ اقتدار ہے اور نہ لات و منات کے پجاریوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے ہماری جدوجہد مکی دور کی ہرگز نہیں۔ اسی طرح نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت و حاکمیت میں جو مدنی دور گزرا، ہم اس پر بھی اپنا انطباق نہیں کر سکتے۔ ہمارا مُعاشرہ ہرگز مدنی اوصاف کا حامل نہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی مُعاشرہ، بہت سے اسلامی اور بہت سے نااسلامی عناصر کا ملغوبہ ہے۔ یہاں اسلام، ریاست کا آئینی دین ضرور ہے۔۔۔ مگر عملاً بیشتر امورِ مملکت دین و شریعت سے غفلت و لاپروائی اور بے نیازی سے۔۔۔ اور شاید بعض امور سرکشی و بغاوت کی کیفیت میں چلائے جارہے ہیں۔ لہٰذا پاکستانی سماج بھی اور نظام بھی۔۔۔ اسلام و غیراسلام کا آمیزہ، بلکہ مرکب ہے۔ یہ ایک تیسری کیفیت ہے، مکی و مدنی تقسیم کے حوالے سے۔۔۔!!
ابھی تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے، اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ خدانخواستہ راقم، سیرت و سنت کے اتباع کا قائل نہیں۔ الحمدﷲ، ہمارا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہے کہ:
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی، تمام بو لہبیست
(خود کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلمسے وابستہ رکھو اور وہیں سے سند لاؤ کہ وہی سراپا دین ہیں۔ اگر کوئی بات اُن کی سند سے خالی ہو تو پھر سب کچھ بو لہبی ہے۔)
اور اِس قرآنی ہدایت پر بھی پختہ ایمان ہے کہ:
وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُق وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہیں دیں، وہ لے لو۔۔ اور جس سے تمہیں روکیں، اُس سے رک جاؤ۔۔۔ الحشر:7)
قیامت تک کے لیے اب محمد عربیصلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے مستند حوالہ ہیں۔۔۔ انفرادی زندگی کے لیے بھی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔ وہی سرچشمۂ ہدایت اور نورِ نظر نواز ہیں۔ درجِ بالا سطور کا مقصود، بس اس بات پر متوجہ کرنا ہے کہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین سماجی و تاریخی شعور کے ذریعے اپنے دور کے جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی جدوجہد اُس طرح کی جیسی وہاں کی جانی چاہیے تھی۔ اس کا نتیجہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس تاریخی عمل کی ہو بہو ’’کاپی کرنا‘‘ دین کو مطلوب نہیں ہے، کیونکہ نہ ہمارا سماج ویسا ہے اور نہ تاریخ کا صفحہ وہی ہے۔ البتہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نورِ بصیرت اور سرچشمۂ حکمت سے رہنمائی لے کر۔۔۔ اپنے دورِ تاریخ اور اپنے سماج کے تقاضوں کے مطابق ہی جدوجہد، پالیسی اور حکمتِ عملی مرتب کرنی چاہیے۔ یہی اُسوۂ ہادئ برحق ہے، یہی سُنتِ داعئ اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ ایسا ہی کرنا ہر اسلامی تحریک کی بنیادی اور اساسی ذمہ داری ہے۔
نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی اسلامی جدوجہد کا پہلا نکتہ تو یہی تھا کہ سماجی شعور اور تاریخی شعور۔۔۔ جتنا پختہ، ہمہ گیر اور مکمل ہوگا، اسی لحاظ سے جدوجہد بہتر اور زیادہ نتیجہ خیز ہوگی۔ دوسری رہنمائی یہ ملتی ہے کہ دعوت کا ایک الگ دائرہ ہے اور سیاست کا الگ۔ کبھی یہ دائرے، جزوی طور پر Overlap کرتے ہیں، کبھی بالکل یکساں ہوجاتے ہیں اور اکثر الگ رہتے ہیں۔ البتہ دعوت کا دائرہ، سیاست کے دائرے کی نفی نہیں کرتا اور نہ سیاست کا دائرہ دعوت کے دائرے سے متصادم ہوتا ہے۔ سیاست کے دائرے کو آج کی اصطلاح میں “Power Politics” کہنا، ہمارے مدعا کو زیادہ واضح کرے گا۔ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دور میں، اقتدار و اختیار کی حرکیات (Dynamics of Power Politics) کا جیسا غیرمعمولی شعور و ادراک تھا۔۔۔ اور جس خوبصورتی، کمالِ مہارت اور لچک و پختگی کے نازک توازن سے آپؐ نے اس کو برتا۔۔۔ وہ خود لاجواب و بے مثال ہے۔ آپؐ کی سیاسی کامیابیوں میں، اپنے عہد کی Power Politics کی حرکیات کا شعور و ادراک اور حُسنِ استعمال۔۔۔ سیرت کا نہایت روشن باب اور بڑا اہم سبق ہے۔
پاکستانی معاشرے میں بھی دعوت کا کام، ایک الگ دائرے کا کام ہے اور Power Politics اپنا الگ دائرہ رکھتی ہے۔ ناچیز کی رائے میں اسلامی تحریک کا بڑا کمزور پہلو، پاکستانی سماج اور اس خطے کی تاریخ کا کمزور شعور و ادراک ہے۔۔۔ اور اس سے بڑھ کر، پاکستانی معاشرے کی ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی حرکیات پر کم توجہی اور اس کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہ ہوسکنا ہے۔ پھر یہ کہ خود پاکستانی سماج ہم آہنگ اور یک جہت نہیں ہے۔ یہ بہت سے دیگر ملکوں سے زیادہ رنگا رنگی کا حامل ہے۔ ہمارا معاشرہ یکساں و یک رنگ (Homogeneous) نہیں، بڑا متنوع اور بوقلموں (Heterogeneous) ہے۔۔۔ بلکہ بعض پہلوؤں سے متضاد عناصر کا آمیزہ ہے۔ جب تک پاکستانی سماج کی سیاسی حرکیات کے ادراک اور بہتر استعمال کی صلاحیت نہیں بڑھائی جائے گی، اُس وقت تک کوئی غیرمعمولی سیاسی پیش رفت بھی نہیں ہوسکے گی۔ مثلاً یہ کہ اس خطے میں مسلم اقلیت کی، غیر مسلم اکثریت پر صدیوں کی حکومت نے۔۔۔ ایک خاص قسم کا سماج و کلچر، اجتماعی مزاج اور مخصوص قسم کی ’’اسلامیت‘‘ پیدا کی ہے۔ یہ پورا خطہ، حنفی اکثریت کا حامل ہے۔ عادتاً ہی سہی، اکثریت ’’بریلوی‘‘ ہے۔ رویّے میں لوگ لبرل ہیں۔ خانقاہ و مزار، قوالی و دھمال، قرآن خوانی و عرس۔۔۔ اہلِ مُعاشرہ کے شعور سے بڑھ کر اُن کے لاشعور میں بسی ہوئی اسلامی علامتیں ہیں۔ برصغیر میں صرف مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولیؒ اﷲ اور اورنگزیب عالمگیر ہی نہیں۔۔۔ جلال الدین اکبر اور نورالدین جہانگیر بھی گزرے ہیں اور اُن کا ’’دینِ الٰہی اکبر شاہی‘‘ بھی یکسر ناپید نہیں ہوا ہے۔
’’پاور پالیٹکس‘‘ کے حوالے سے یہ نکتہ بھی، سیرتِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حرکیات کو بروئے کار لاکر۔۔۔ اختیار و اقتدار حاصل بھی کیا گیا اور اسے Snowball Effect سے بھی گزارا گیا۔ مدینہ جیسی ایک ’’شہری ریاست‘‘ (City State) بنائی گئی، جو اگرچہ کہ چھوٹی تھی، مگر آج کے معنوں میں ایک ’’قومی ریاست‘‘ (Nation State) تھی۔ جہاں مسلمانوں اور یہودیوں کو برابری حاصل تھی۔ دونوں گروہ جس معاہدے (میثاقِ مدینہ) میں بندھے تھے، اس نے یہ ’’قومی ریاست‘‘ بنائی تھی۔ (’’میثاقِ مدینہ‘‘ کی تحریر، بحمدﷲ تاریخ نے محفوظ رکھی ہے اور آج بھی دیکھی جاسکتی ہے)۔ تاریخ کی گواہی ہے کہ مدینہ کی ’’شہری ریاست‘‘ کو بنیاد بنا کر۔۔۔ ایک طرف اختیار و اقتدار کو ضرب دیا جاتا رہا، اُس کے ذریعے مزید اختیار و اقتدار حاصل کیا جاتا رہا اور حدودِ ریاست بڑھتی رہیں۔۔۔ تو دوسری طرف جوں جوں اسلام کا اختیار و اقتدار مستحکم ہوتا گیا، اسے زیادہ خالص اسلامیت کی طرف موڑا جاتا رہا۔۔۔ جہاں رکاوٹ محسوس ہوئی، توقف کیا گیا یا حکمت عملی بدلی گئی۔ بالآخر اُس معاشرے کی وہ ’’سیاسی حرکیات‘‘ (Dynamics of Power Politics) ہی بدل کر رکھ دی گئیں، جن کی سیڑھی استعمال کرکے اختیار و اقتدار کی منزل تک پہنچا گیا تھا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت کی سیاسی حرکیات کو (حرام و ناجائز امور سے اجتناب کرتے ہوئے) پوری طرح بروئے کار لاکر، آگے بڑھا گیا۔ لیکن ایسا کرلینے کے بعد، ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی اُس دور کی حرکیات اور تقاضوں کو، جوں کا توں برقرار نہیں رکھا گیا۔۔۔ بلکہ جوں جوں موقع ملا، نئی حرکیات اور نئے تقاضے پیدا کیے گئے۔ ایک نیا سیاسی جہاں ظہور میں لایا گیا۔
پاکستانی معاشرے میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کو آج ’’لمحۂ قیام و سکون‘‘ یا ‘‘عرصۂ اعتکاف‘‘ (Pause) کی ضرورت ہے۔ اپنے سماج، اس کی نفسیات اور اِس خطے کے تاریخی عوامل کا جائزہ لینا، غور کرنا اور نئے سرے سے اپنی حکمتِ عملی بنانا۔۔۔ خود تحریکِ اسلامی کی بقا و ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ مگر ایسا اسی وقت ہوسکے گا جب اہلِ دین اُس ذہنی سانچے (Mind-Set) سے باہر آئیں گے کہ جس میں یا تو دورِ صحابہ، اُن کے پیشِ نظر ہوتا ہے یا پھر اپنا دور۔ درمیان کی تمام صدیاں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ کچھ ’’جزیرے‘‘ درمیان میں بھی ابھرے نظر آتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ایک تسلسل کا نام ہے۔ زمانہ تنی ہوئی مسلسل اور لامتناہی، لیکن مربوط رسّی کی طرح ہے۔ لوگ قینچی لے کر اور تاریخ کو ٹکڑوں میں کاٹ کر دیکھنے اور زمان و مکان کے گملے لگانے کی ذہنی ساخت رکھتے ہیں۔ اسی لیے اس خطے میں اسلامی جدوجہد، گملوں میں پودے لگانے پر منتج ہوتی رہی ہے۔۔۔ پوری کی پوری کھیتیاں اور بڑے بڑے باغ و گلزار لگانے کی طرف اہلِ دین گئے ہی نہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ سماج یا مُعاشرہ اُس سے زیادہ مضبوط و مستحکم اور جاندار و توانا وجود رکھتا ہے، جتنا سیاسی نظام۔ اگرچہ کہ سیاسی نظام کی کاٹ زیادہ ہوتی ہے۔۔۔ مگر مضبوطی اور توانائی میں سماج و مُعاشرہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایک نیا سماج بنانے کے لیے اسلامی تحریک کا کیا ایجنڈا اور کیا حکمتِ عملی ہے؟ کبھی اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ ’’پاور پالیٹکس‘‘ بلکہ ’’روز مرہ کی سیاست‘‘ میں حد سے زیادہ، اور قد سے بڑھ کر مصروفیت نے۔۔۔ تحریک کی ترجیحات اور توازن کو متاثر کیا ہے اور اُسے بے وزن بھی کردیا ہے۔۔۔ سماجی تبدیلیوں کے عمل سے بے دخل بھی کیا ہے اور معاشرے کے اعصابی مراکز سے غافل اور دور بھی۔
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ماضی میں یہاں کی اسلامی تحریک کو اقتدار و اختیار کے بعض دائروں میں پہنچایا بھی ہے۔ صوبہ خیبرپختون خوا میں شراکتِ حکومت اور کراچی میں دو بار بلدیاتی اختیارات اور ایک بار شہری حکومتی نظام کا اقتدار۔۔۔ تحریکِ اسلامی کے اصحاب کے حصے میں آیا۔ مگر اپنے مخصوص و محدود مائنڈ سیٹ کی وجہ سے اُن مواقع کو تاریخ ساز نہ بنایا جاسکا۔۔۔ اور نہ ہی Snowball Effect پیدا کرکے اقتدار و اختیار کو ضرب دیا جا سکا۔ بلکہ ’’اپوزیشن والی سوچ‘‘ لے کر (محدود) اقتدار کا یہ عرصہ گزار ڈالا گیا۔۔۔ نئے وِژَن، نئی سوچ، نئے دور کا کوئی سورج۔۔۔ مذکورہ بالا عرصۂ اختیار و اقتدار میں طلوع نہ ہوسکا۔
اب ضرورت ہے کہ پاکستان کی اسلامی تحریک۔۔۔ دعوت کا کام، دعوت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر کرے اور سیاست کاری، اپنے سماج کے مختلف حصوں کی ’’پاور پالیٹکس‘‘ کی حرکیات کو مدنظر رکھ کر۔ یہ کیا ضروری ہے کہ خیبرپختون خوا کی طرز کی سیاست، پنجاب اور سندھ میں کی جائے؟ یا کراچی جیسی سیاست، ملاکنڈ ڈویژن میں ہو؟ اسلامی تحریک کو تنہائی سے بچنے، کم سے کم دشمن بنانے، موجود دشمنیوں کو کم یا غیرفعال کرنے اور طاقت کے مراکز میں پہنچنے اور موجود رہنے کی حکمتِ عملی لے کر چلنا ہوگا۔ اسے تو ’’دربارِ فرعون‘‘ کے مومنین بھی درکار ہیں اور جادوگروں میں چُھپے اہلِ ایمان بھی۔ مکہ میں مستور ایمان رکھنے والے بھی چاہئیں اور اردگرد پھیلے ’’قبائل‘‘ میں اپنے لیے نرم گوشے رکھنے والے عناصر بھی۔
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ پاکستان کی اسلامی تحریک کو نئے در، نئے راستے، نئے مواقع، کشادہ وِژَن اور توانا تر عزمِ سفر عطا فرمائے۔
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...