ایک دن پارلیمنٹ ہاﺅس میں

دوسرے دن ہم سوا دس بجے کے قریب میریٹ ہوٹل کے گیٹ پر محترمہ فرح ناز صاحبہ سے ملے اور ان کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاﺅس کا رخ کیا جیسے ہی ہم پارکنگ ایریا میں پہنچے اور کار پارک کر کے باہر نکلے تو محترمہ نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ یہ چھت کراس میں کیوں ہے ہم نے کہا پتہ نہیں تو محترمہ نے بتایا دراصل اس چھت پر سولر پلیٹس لگی ہوئی ہیں یہ پارلیمنٹ ہاﺅس د دنیا کا پہلا گرین پارلیمنٹ ہے جوخود کار طریقے سے شمسی توانائی پر چلتا ہے. یہ منصوبہ پاکستان کے دیرینہ دوست چین کے تعاون سے تعمیر کیا گیا تھا اس کا افتتاح چین کے صدر شی چن پنگ نے کیا تھا اور بعد از تکمیل نواز شریف صاحب نے،سورج کی شعاﺅں کا استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاﺅس کی چھتوں اور پارکنگ ایریا میں لگائے گئے 3 ہزار 9 سو 40 سولر پینلز فی گھنٹہ 1 میگاواٹ بجلی پیدا کر تے ہیں جو قومی اسمبلی اور سینیٹ کوروشن رکھ رہے ہیں۔ اس منصوبے کو 25 سال تک کسی مرمت کی ضرورت نہیں، ماحول دوست منصوبہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی مضر گیسوں سے پاک ہے یہ پاکستان کا پہلا نیٹ میٹرنگ منصوبہ ہے۔ بیٹری بیک اپ رکھنے کی بجائے پلانٹ کو نیشنل گرڈ سے منسلک کیا گیا ہے جس کے سبب ایک ہی وقت میں نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی بھی کی جاتی ہے اور واپس بھی لی جاتی ہے۔اسی دوران ہم باتیں کرتے کرتے سیکیورٹی گیٹس پار کرچکے تھے اور اندر داخل ہوتے ہی محترمہ فرح ناز کی نظریں دیوار پر لگی ایک سکرین پر رک گئی بغور دیکھنے پر پتہ چلا کہ اس اسکرین پر سینیٹ میں ہونے والی تمام میٹنگز کا شیڈول لکھاہوا ہے اسی اثناءمیں محترمہ نے اپنے موبائل سے اسکرین کی تصویر لی اور بولی کہ سب سے پہلے آپ کو خواتین پارلیمنٹرین کے بارے میں کچھ دکھاتی ہوں اور پھر وہ ہمیں خواتین قانون ساز کمرے میں لے گی بقول ان کے خواتین قانون سازوں کا “کاکس” نومبر 2008ء میں اس وقت کی اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی زیر سرپرستی تشکیل دیا گیا تھا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پارلیمنٹیرین شامل ہیں جو پاکستان میں خواتین کو درپیش مختلف مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی سمیت خواتین کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتی ہیں۔بقول ان کے خواتین پاکستانی پارلیمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا بھر میں پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے پہلا پارلیمانی سیکرٹریٹ قائم کرتے ہوئے پارلیمانی حکمت عملی کے اپنے وژن میں بین الاقوامی ترقی کا ایجنڈا شامل کیا اور مارچ 2017میں پہلی خواتین پارلیمنٹ کانفرنس بھی منعقد کرائی جس میں ایشیاء‘افریقہ ‘یورپ اور آسٹریلیا کے براعظموں کے 16ممالک کی مندوبین خواتین شریک ہوئی تھی۔خواتین پارلیمنٹ کا ایک اچھا اور مثبت کا م دیکھنے کے بعد ہم بھی سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ واقعی ہماری خواتین اتنا کام کرتی ہیں اس کے بعد پارلیمنٹ کی مختلف حصوں کو دیکھتے ہوئے ہم پہنچے ”گلی دستور“ پارلیمنٹ ہاﺅس کی وہ خاص جگہ ہے جہاں ہر جانے والے کو ضرور جانا چاہئے پارلیمنٹ ہاﺅس کی ”گلی دستور“ جس میں پاکستان کی دستوری تاریخ کو سیاہ ادوار سمیت پارلیمنٹ ہاﺅس کی دیوار پر محفوظ کیا گیا ہے دستور کی یہ گلی پارلیمنٹ ہاﺅس کے ایک کونے میں بنائی گئی جس کی دیواروںپر کچھ تاریخی دستاویزات، تصاویر اور خاکوں کی مدد سے پاکستان کی دستوری تاریخ کو سجایا گیا ہے۔ 1935کا انڈیا ایکٹ عکس دیوار پر موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ دیوار پر1956ءکا آئین اور پھر 1958ء کا مارشل لاء ، 1962ء کا آئین پھر1969ء کا مارشل لاء ، 1973ء کا آئین پھر1977کا مارشل لاء اور پھر اس مارشل لاء میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کو بھی نمایاں کیا گیا۔ تمام فوجی ادوار کو سیاہ دور کا نام دیا گیا ہے اور کالے رنگ سے واضح کیا گیا ہے اور 2002میں زبردستی کے صدر پرویز مشرف کی جانب سے کرائے جانے والے ریفرنڈم کا بلیٹ پیپر جس میں ‘ہاں یا نہیں ‘لکھا تھا وہ بھی چسپاں ہے جبکہ ایک تصویر میں ٹکٹکی پر بندھے شخص کو کوڑے مارے جارہے ہیں جس میں ملٹری کورٹس کی طرف سے سیاسی کارکنان اور آزادی اظہار کرنے والوں کا سزا پاتا دکھایا گیا ہے اورو دوسری تصویر میں حبیب جالب، احمد فراز اور جون ایلیا کی مزاحمتی شاعری کو تصاویر کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ پھر1999ءکی فوجی بغاوت کا ذکر آتا ہے، پھر18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا ذکر آتا ہے اور اس کے آگے گلی ختم ہوجاتی ہے مگر میرا ماننا یہ ہے کہ اس گلی کے آگے “جاری ہے لکھا ہونا چاہئے تھا۔اس کے بعد ہم نے محترمہ فرح ناز کے ساتھ پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں موجود دوسرے صحافی دوستوں کے ساتھ لنچ کیا اور کراچی کے حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا لنچ کے بعد کیفے ٹیریا کے گرین ایریا میں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سید شبلی فراز سے تفصیلی گفتگو ہوئی جو پھر کبھی بیان کرو گا اس کے بعد  ہم نے سینیٹ لائبریری کا رخ کیا  سینیٹ لائبریری کا قیام 1986 عمل میں لایا گیا جس میں اس وقت20 ہزار سے زائد کتب جو تمام شعبہ جات سے متعلق کتب موجود ہیں زیادہ تر کتب قانون سازی اور سیاست پر مشتمل ہیں ہم لائبریری سے باہر نکلنے کے بعد سیدھے باھر کی طرف آگئے جہاں ہمیں محترمہ فرح ناز صاحبہ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ پارلیمنٹ ہاوس میں ” پارلیمنٹ مونومنٹ وال“ بھی ہے اس یادگار کے ساتھ سلامی کے چبوترا بنایا گیا ہے سلامتی کا یہ چبوترہ ایک وسیع خوبصورت فوارہ کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کا مقصد مستقبل میں سینیٹ کے دورہ کیلئے آنے والی اہم شخصیات اور اعلیٰ سطح کے غیرملکی پارلیمانی وفود بالخصوص باہر سے آنے والے مختلف ایوانوں کے سربراہان کو یہاں باقاعدہ طور پر سلامی پیش کی جائے یوم آزادی،یوم پاکستان و دیگر قومی تہوار کے موقع پر بھی تقریبات کیلئے استعمال کیا جاتاہے۔شام چار بجے کے قریب ہمارے دوست نور محمد کا فون آگیا کیونکہ انہوں نے آبپارہ مارکیٹ کے صدر سے وقت لیا ہواتھا اور ہمیں جانا تھا اس طرح پارلیمنٹ میں گزرا ایک دن بہت سے سوالات ذہن میں لیے ختم ہوا اور محترمہ فرح ناز نے ہمیں آبپارہ مارکیٹ پر ڈراپ کیا۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں