شاید یہ بات بہتوں کو عجیب لگے،بہت سے اس سے متفق نہ ہوں مگر بہرحال ہمارے معاشرے میں کہیں عورت تو کہیں مرد دونوں کا استحصال ہورہا ہے.چند جاننے والوں کے ایم بی اے بچوں سے بات ہوئی ہر ایک شکوہ کناں تھا کہ محنت،میرٹ،تعلیم ان سب کے باوجود
نیشنل ہوں یا ملٹی نیشنل ہر جاب پلیس میں خواتین کو بنا میرٹ فوقیت دی جاتی ہے اور خواتین بھی ہر لحاظ بالائے طاق رکھ کر عمر یا ازدواجی حیثیت سے قطع نظر محض باس کے آگے پیچھے پھرتے اپنے طور واطوار سے ہر سال گریڈ بڑھواتی رہتی ہیں۔ کام ٹیلنٹڈ نوجوان کرتے ہیں مگر ان کا اسٹیٹس محنت اور ٹیلنٹ کے بعد بھی سالوں منجمد رہتا ہے۔کہیں سینئر حضرات بھی اسی طرز پر نئے آنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں چونکہ یہ بچے جدید تقاضوں سے اپ ڈیٹ ہوتے ہیں لہذا سینئیرز ان سے پورا استفادہ کرتے ہوئے انکا کام اپنے نام سے کپمنی کے سامنے رکھ کر سرخرو ہوجاتے ہیں اور بے چارہ نوجوان جو ایک امید سے یہاں آیا تھا کہ ایمانداری اور محنت سے آگے بڑھے گا گو مگوں کی کیفیت میں آجاتا ہے کہ آیا وہ صحیح ہے یا اردگرد کے کرپشن زدہ معاشرتی رویے
یہ صورتحال نوجوانوں کو فرسٹریشن اور مایوسی میں مبتلا کررہی ہے۔بے روزگاری کے خوف سے نوجوان اس ناقدری کے باوجود اپنے جائز حق سے کم پر جاب کرنے پر مجبور ہیں یا پھر ملک سے باہر دیار غیر میں اپنوں سے دورقسمت آزمائی پر مجبور اس امید پر کہ شاید دیار غیر میں انہیں ان کی صلاحیتوں کا صلہ مل سکے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم اپنا ذہین باصلاحیت نوجوان اس دفتری کرپشن کی نذر کرتے رہیں گے ۔کب تک ہمارا نوجوان اپنی صلاحیتیں مجبوری کی نذر کرتا رہے گا۔یقین جانئے ہمارے وطن کا یہ نیا خون ملاوٹ سے پاک ہے اسے اپنے کرپٹ رویوں سے آلودہ نہ کیجئے اسے آگے بڑھنے کا موقع دیجئے تاکہ یہ یکسوئی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے ملک و قوم کی رگوں میں آب حیات بن کر دوڑے ۔