سیلانی صاحب سے ملاقات محترم ابراہیم حسین عابدی کے توسط سے 12 نومبر کی شام سیلانی صاحب کی رہائش گاہ پر ہوئی. ملاقات میں عابدی جی سمیت مولانا احمد شہیدی صاحب بھی موجود تھے.
حال احوال کے بعد گفتگو کا آغاز سیلانی صاحب نے مدارس کے طلبہ سے متعلق کیا:
انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے ہمارے ہاں مدارس میں تربیت کا اہتمام زیادہ کیا جاتا ہے. مگر محدود سوچ کی بناء پر یہ طلبہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں موجود نہیں. منبر و مسجد اور مدرسے کے علاوہ بھی علماء کرام کی ذمہ داریاں ہیں تقریباً ہر شعبہ میں ایسے افراد کی ضرورت ہے. جہاں انکا موجود نہ ہونا افسوسناک امر ہے. کیا وجہ ہے کہ ایک مدرسے سے نکلنے والا طالب علم، ڈی. ایس. پی اور ایس. پی کی عہدوں تک نہیں پہنچ سکتا. مدارس کو اب اپنے ہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی جانب بھی تیزی سے توجہ دینی ہوگی.
اپنے صحافتی سفر کے آغاز سے متعلق انہوں نے کچھ یوں لب کشائی کی کہ یہ ان دنوں کی بات ہے. جب میں یونی ورسٹی کا طالب علم تھا. پیسوں کی ضرورت پڑتی تھی.اسی ضرورت کو پورا کرنے کے مقصد سے دوست کے مشورے سے روزنامہ جسارت میں پروف ریڈر کے طور پر ملازمت شروع کی. جہاں انکا کام شائع شدہ اخبار میں غلطیاں تلاش کرنا تھا. ایک دن انہیں اشتہار بنانے کو کہا گیا. بہترین اشتہار بنانے پر انہیں ترقی دے کر ٹرینی رپورٹر کے عہدے پر تعینات کردیا گیا. یوں ان کے لکھنے کے سفر کا آغاز اتفاقی طور پر ہوا. بعد ازاں روزنامہ امت سے منسلک ہوگئے. تاحال اس ادارے سے وابستہ ہیں. ایک دن انہیں کالم لکھنے کو کہا گیا. انکا کہنا تھا کہ کالم نگار کے طور پر کبھی زندگی میں سوچا بھی نہ تھا. میں نے پہلا کالم بغیر نام و عنوان کے لکھ کر ایڈیٹر کے حوالے کردیا. بعد میں کامران لاشاری صاحب نے کالم کو عنوان دیا اور” سیلانی کے قلم سے” یہ انہی کا تجویز کردہ ہے، جو آج بھی عوام میں اس نام سے معروف ہے.
انہیں اپنے بیس سالہ صحافتی سفر میں کئی مصیبتوں سے گزرنا پڑا. کراچی کے مشکل ترین حالات میں روزنامہ امت کے لیے کام کرنا مصائب کو دعوت دینے کے مترادف تھا. مگر ان حالات میں نہ وہ ڈرے اور نہ انکے حوصلے پست ہوئے. وہ ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے.
ملکی حالات پر انہوں کچھ یوں تبصرہ کیا کہ ہمارے ہاں غیر معمولی ذہنیت کے حامل طلبہ موجود ہیں. ساتویں کلاس کی ایک بچی سے ملاقات ہوئی. جو ابتک دو کتابیں لکھ چکی ہے، اور تیسری پر کام کر رہی تھی. ایک امریکی نے بتایا کہ ہمارے ہاں ایک پاکستانی لڑکا ہے. جسکا سافٹویئر خریدے بغیر امریکہ میں کوئی عمارت تعمیر نہیں ہوتی. ہم نے اتنے مشکل حالات میں جہاں ہمارے پاس بھارت و اسرائیل جیسا دشمن ہے. اور ہم خود دہشتگردی کی جنگ لڑ رہے ہیں. اسکے باوجود ہم نے ایٹم بم بنالیا سوچیے اگر ہم اچھے اور بہترین حالات میں ہوتے تو کتنی تیزی سے ترقی کرسکتے تھے.
سیلانی صاحب کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور انصاف کا موجود نہ ہونا ہے.
میں نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے سوال کیا کہ: ایم کیو ایم کا مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں؟ کیا وہ ایک بار پھر یکجا ہورہے. ہیں؟
جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اب ایسا ہوگا.
سیلانی صاحب کے بقول دینی جماعتوں کو صرف میڈیا ہی کو امام نہیں بنالینا چاہیے بلکہ گھر گھر تک رابطہ مہم کا آغاز کریں. شہروں اور دیہاتوں میں بلا تفریق کام کرنے کی ضرورت ہے.
انکی رائے میں سیاسی جماعتوں کو تبلیغی جماعت کی تقلید کرنی چاہیے.
سیلانی صاحب حال ہی میں ترکی کا سفر بھی کر کے آئے ہیں. اور اس پر قسط وار سفر نامہ قارئین میں کافی پسند کیا جارہا ہے. سفرنامے پر لکھی گئی اقساط کو کتابی شکل دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں. جو انکی جانب سے لکھی گئی پہلی کتاب ہوگی.
فیسبک کو وقت کا ضیاع، صنف نازک کو اپنی طرف مائل کرنے اور مخالفین بڑھانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں. اسلیے اسے بہت کم وقت دیتے ہیں. البتہ نئے لکھنے والوں کے لیے اسے بہترین پلیٹ فارم تصور کرتے ہیں. ان کی رائے میں سوشل میڈیا میں بنسبت اخبار یا پرنٹ میڈیا کہ فیڈ بیک جلدی ملتا ہے. جبکہ اخبار کا فیڈ بیک چھپا ہوا ہوتا ہے.
سیلانی صاحب سے ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی. انکے چہرے کے تاثرات بتاریے تھے کہ وہ امت مسلمہ کا غم رکھتے ہیں. غریب طبقے کے مسائل پر انہوں نے انتہائی جانفشانی کے ساتھ لکھا. سیلانی صاحب کا شمار ان کالم نگاروں میں ہوتا ہے جو غریب طبقے کی ایک جاندار آواز ہیں.سیلانی صاحب اپنے کالم میں غریب طبقے کے ان مسائل کا زکر کرتے ہیں جس پر بد قسمتی سے ملک کے دوسرے نامور کالم نگار لکھنا اپنی تضحیک سمجھتے ہیں.
سیلانی صاحب سے ملاقات کے خوشگوار لمحات کی یاد لیے ہم نے ان سے رخصت لی تو راستے میں انکی شخصیت کے بارے میں سوچتا رہا کہ بڑا آدمی بننے کے لئے بڑی محنت درکار ہوتی ہے.