بیوی کی دل جوئی 

       آج تقریباً ایک بجے دوپہر ، جب میں آفس میں تھا ، اہلیہ نے فون کیا : “آپ کو یاد نہیں رہا ، 27 برس قبل آج ہی کے دن ، بلکہ اسی وقت ہم نکاح کے بندھن میں بندھے تھے”

میں نے جواب دیا : ” کتابوں کی ورق گردانی ، قلم کی سرسراہٹ ، دفتری مصروفیات اور آفاتِ روزگار نے سب بھلادیا ہے۔”

انھوں نے برا سا منہ بناکر رابطہ منقطع کردیا

       نکاح کے وقت میری کل ماہانہ آمدنی 3 ہزار روپے تھی ، جس میں ایک ہزار روپے مکان کے کرائے میں چلے جاتے تھے _ چھوٹا بھائی اور چھوٹی بہن ، جو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے ، ان کے مصارف اسی میں سے ادا کیے جاتے تھے _ اس کے علاوہ کچھ رقم میں ابو جان کے ذاتی خرچ کے لیے بھیجا کرتا تھا _ میں نے ایک ترکیب سوچی _ مشاہرہ کا لفافہ لے جاکر اہلیہ کے ہاتھ میں تھما دیا کہ اسی میں گھر کا خرچ چلانا ہے ، جیسے چاہو ، خرچ کرو _ اہلیہ کو محسوس ہوا کہ میں ان پر پورا اعتماد کرتا ہوں ، لیکن حقیقت میں ایسا کرکے میں نے گھر کے انتظامی معاملات سے  آزادی اور اپنی علمی دل چسپیوں کے لیے یک سوئی حاصل کرلی تھی _ ان کی فرمائشیں پوری کرنا اب میری ذمے داری نہیں رہی تھی _ اسی رقم سے انھیں راشن کا نظم کرنا تھا ، روزمرہ کی دیگر ضروریات کی چیزیں فراہم کرنی تھیں ، وقتاً فوقتاً افرادِ خانہ اور اپنے لیے کپڑے سِلنے تھے ، رشتے داروں میں لین دین بھی کرنا تھا _ 27 برس گزرنے پر اب سوچتا ہوں کہ تمام گھریلو معاملات اور انتظامات اہلیہ نے اپنے سر لے کر حقیقت میں میرے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے _ میرا جتنا علمی کام ہے ، سب شادی کے بعد کا ہے _ تمام کتابوں پر میرا نام چھپا ہوا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اہلیہ نے گھر میں سکون و اطمینان ، قناعت و شکر اور صبر و رضا کا خوش گوار ماحول نہ قائم رکھا ہوتا تو ان علمی کاموں کی انجام دہی ممکن نہ تھی

       اہلیہ کے سلیقے کا ایک مظہر یہ ہے کہ تھوڑی تھوڑی رقم پس انداز کرکے علی گڑھ میں ایک چھوٹا سا پلاٹ خریدا گیا ، پھر اس پر دو کمروں کا ایک مکان تعمیر کرایا گیا _ یہ مکان 5 برس قبل تعمیر ہوچکا تھا ، لیکن 2 برس قبل میں نے اہلیہ کی دل جوئی کے لیے ایک ‘ڈرامہ’ کیا _ جی ہاں ، اسے ڈرامہ ہی کہا جائے گا کہ اہلیہ کے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک اپنی ضروریات کو محدود کرکے اور اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر جو چھوٹا سا مکان تعمیر ہوا اسے میں نے ازدواجی زندگی کے 25 سال مکمل ہونے پر اہلیہ کو گفٹ کر دیا  اور اسے ‘تحفہ محبت’ کا نام دیا _ میں نے ایک جذباتی تحریر لکھی اور اسے فریم کراکے اہلیہ کی خدمت میں پیش کردیا _وہ تحریر یہ تھی :

اٹھارہ نومبر 1990

اس تاریخ کو کیوں کر بھلایا جا سکتا ہے؟

اسی دن تو تم میری زندگی میں بہار بن کر آئی تھیں _

آج 25 سال مکمل ہوگئے ہیں _

اس عرصہ میں کبھی ایک حرفِ شکایت تمھاری زبان پر نہ آیا _

ہر لمحہ تم خوشی و مسرّت کے نغمے بکھیرتی رہیں _

سوچتا ہوں ، اس موقع پر تمھیں کوئی تحفہ دوں _

سو یہ ‘دار الاسلام’ پیش خدمت ہے _

سر چھپانے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا _

اس کی نسبت عزیز بیٹے نجم الاسلام کی طرف ہے _

اور اس اسلامی مرکز کی طرف بھی، جہاں بیسویں صدی کے عظیم مفکر مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے جماعت اسلامی کے نام سے اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی تھی

حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں