فرانس میں الٹی گنگا۔۔۔۔ کام نہ لینے پر کمپنی پر مقدمہ

ترقی یافتہ اقوام نے بھی ہم ترقی پذیر ممالک کے عوام کو احساس کمتری میں ہر وقت مبتلا رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ہم پاکستانی یہاں کام کرکرکےادھ موئے ہوگئے ہیں،کام کی زیادتی کا رونا رو رو کر رونا بھی بھول گئے ہیں جبکہ وہاں فرانس میں ایک صاحب نے انتہائی کم کام لینےکی وجہ سےاپنے سابق باس پر لاکھوں یوروہرجانے کا مقدمہ کردیا ہے۔

چوالیس سالہ فریڈرک ڈیسنارڈ پیرس میں ایک پرفیوم بنانے والی کمپنی ‘انٹرپرفیوم ‘ میں بطور منیجر2010 میں بھرتی ہوئے، ملازمت کے آغاز میں ہی ان سے بہت کم کام لیا جاتا اور پھر آہستہ آہستہ چند ماہ میں یہ کام بھی مزید کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ۔

فریڈرک ڈیسنارڈکہتے ہیں کہ وہ چار سال تک سخت اذیت میں مبتلا رہے، وہ روز وقت پر دفتر پہنچ جاتے لیکن ان کے کرنے کیلئے کوئی کام نہ ہوتا ، وہ اکثر اپنی سیٹ پر بیٹھے رو رہے ہوتے لیکن وہاں ان کے آنسو دیکھنےوالا کوئی نہیں ہوتا، ہر ماہ تنخواہ لیتے وقت انہیں انتہائی شرمندگی اور ندامت محسوس ہوتی اور آخر کار انہوں نے 2014 میں تنگ آکر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔

فریڈرک ڈیسنارڈنے  مقامی ٹی وی بی ایف ایم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملازمت کے دوران وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئے، ان کی تخلیقی صلاحیت بالکل ختم ہو گئی تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان کی زندگی بالکل تباہ ہوگئی ہے۔ فریڈرک ڈیسنارڈ نے انٹرپرفیوم کے مالکان پر 3 لاکھ 60 ہزار یورو ہرجانے کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چار سالہ ملازمت کے دوران ان کی تنخواہ میں اضافہ کیا گیانہ ان کی پروموشن کی گئی، وہ اپنی تذلیل اور زندگی کے چار سال تباہ ہونے کا بدلہ ضرور لیں گے۔فریڈرک ڈیسنارڈ کے مقدمے کی سماعت کا آغازاگلے ہفتے  ایمپلائمنٹ ٹریبونل پیرس میں  ہوگا۔

دوسری جانب انٹرپرفیوم کمپنی کے وکیل فلپ بنیسان کہتے ہیں کہ فریڈرک ڈیسنارڈ نے اپنی ملازمت کے دوران کبھی بھی ‘بور’ ہونے کی شکایت نہیں کی اور اگر واقعی  انہوں نے پورے چار سال کوئی کام نہیں کیا تو کبھی اس کا ذکر کیوں نہ کیا؟

ملازمین کی صحت و حفاظت سے متعلق امور کے ماہر جین کلاڈ ڈیلگینس نے بتایا کہ فرانس میں 30 فیصد سے ملازمین ایسے ہیں جو اپنی ملازمت سے ‘بور’ ہوچکے ہیں لیکن بیروزگاری کے خوف سے وہ کام نہیں چھوڑتے، ایسے لوگ ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں جبکہ ان کی گھریلو زندگی بھی آسودہ نہیں ہوتی۔

لیبر لا کے ماہر سیلوین نیل کہتے ہیں کہ رواں سال فرانس کی اعلیٰ عدالتوں میں 244 ایسے کیس دائر کیے گئے ہیں جن میں ملازمین کی جانب سے یہ شکایت کی گئی ہے کہ انہیں ان کے مالکان نے بالکل ‘سائیڈ لائن’ کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اسے “Moral Harassment”   سمجھتے ہیں،کمپنی مالکان کو ملازمین کی عزت نفس کا  بھی خیال رکھنا چاہیے اگر وہ ملازمین کو تنخواہ دیتے ہیں تو پھر انہیں ان سے مناسب کام بھی لینا چاہیے۔

یہ کہانی سن کر میری طرح لاکھوں پاکستانیوں کوبھی فریڈرک ڈیسنارڈ سے شدید نفرت ہوجائے گی،  ہم پاکستانی تو ایسی ملازمت کے متلاشی رہتے ہیں کہ جہاں کام کا دبائو کم بلکہ سرے سے نہ ہی ہو تو بہتر ہے،ساتھ ہی  اگر روز روز کام پر نہ جانے کی بھی گنجائش نکل جائے تو سونے پہ سہاگہ ۔اگر فرانسیسی ملازمین پاکستانی سرکاری اداروں کا کم از کم ایک دورہ کرلیں تو ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے، اتنی فراغت۔۔اتنا‘‘استحصال’’۔ لیکن سلام ہے ہمارے سرکاری ملازمین کو کہ وہ اپنے اس ‘‘استحصال’’ پر صبر کا دامن دونوں ہاتھوں سے انتہائی زور سے تھامے ہوئے ہیں ،ماہانہ تنخواہ لیتے وقت وہ شرمندگی اور ندامت جیسی‘‘چیزوں’’ کو خاطر میں نہیں لاتے۔

حصہ
mm
فرحان محمد خان نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرزکیا ہے، پندرہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، مختلف ویب سائٹس اور اخبارات خصوصاً کرکٹ، سائنس و دلچسپ موضوعات پر ان کی تحریریں شائع ہوچکی ہیں، گزشتہ تین برس سے نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں۔

جواب چھوڑ دیں