دعا کا موضوع کوئی نیا اور اچھوتا موضوع نہیں ہے۔یہ موضوع اتنا ہی قدیم ہے جتنا کے خود انسان۔حضرت آدم کو جو رب کریم نے جو دعا سیکھائی وہ قرآن میں موجود ہے۔اس طرح پے در پے باقی انبیاءکی بھی دعا موجود ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ھمارے پیارے نبی ہیں اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے ہمیں یہ پیغام پہنچایا ہے کہ دنیا کے آخر تک کس طرح سے ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں .شریعی اصطلاح میں دعا کا مفہوم مدد طلب کرنا ہے .دعا بذات خود عبادت کا مقام رکھتی ہے رب کریم نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ،اور تمھارے رب نے فرمایا ہے کہ اور تمہارے رب کا فرمان ( سرزد ہو چکا ) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے ۔سورۃالمومن۔
یعنی دعا ہمیں اس یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ قبول ہوگی اور ہمارا پروردگار ہمیں ۷۰ماؤں سے بڑھ کر ہم سے محبت کرتا ہے ہم اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہمارا رب ہمارے ماضی حال مستقبل سے خوب واقف ہے بعض دعا ئیں قبول نہیں ہوتیں اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کے وہ ہمیں پسند نہیں کرتا بلکہ وہ ہمیں ہمارے طلب سے زیادہ بہتر دینا چاہتا ہے.
ایک مومن کو توکل کی صفت قوی بناتی ہے،قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ:آپ فرمادیجیے !مجھے اللہ کافی ہے ,توکل کرنے والے اس پر توکل کرتے ہیں (الزمر:۳۷) انسان اپنی نادانی کی وجہ سے جلد بازی کرنے لگتا ہے اور اپنے وجود کو سوچ سمجھ سے خالی کرنے لگتا ہے.لیکن اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا دوازہ کھول رکھا ہے ، جس سے بندہ توبہ کر کے اپنا نام نیک لوگوں میں شامل کراسکتا ہے.دعا کے لیے یہ بھی ضروری ہے کے انسان تدبیر بھی کرے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بیمار ہے اور وہ علاج ومعالجہ اختیار نہیں کرتا تو یہ غلط ہے.صحت کے ممکنہ اسباب اختیار کر ے اور دعا کرے.انسان کو دعا ہمیشہ پورے دل کے ساتھ مانگنی چاہیے ایسا نا ہو زبان سے دعا مانگ رہے ہوں اور دل کسی اور طرف متوجہ ہے.حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ “غافل اور بے پرواہ دل والے بندے کی دعا قبول نہیں کی جاتی “یعنی ہمیں دعا اس یقین اور اطمینان کے ساتھ مانگنی چاہیے کہ قبول ہوگی اور اگر ہماری مانگی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ہمیں دل بردشتہ شکستہ دل ہونے کے بجائے اس بات پے غور کرنا چاہیے اللہ ہمیں ہم سے بہتر جانتا ہے اور ہمارے یقین کا تقاضا ہی یہی ہونا چاہیے کے ہم اللہ کی رضا میں پورے دل سے راضی ہوں۔