کامیابی کاحصول کیسے ممکن ہے؟

ایک بڑ ی کمپنی کا سالانہ اجلاس جاری تھا ۔صدرہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، سینکڑں ملازمین  اپنی اپنی نشستوں پر موجود بڑے ہی انہماک سے اسٹیج پر موجودمقرر کاپرجوش لیکچر سن رہے تھے ۔ تمام ہی ملازمین کو سالانہ کاکردگی ایوارڈز کا انتظار تھا تنخواہوں میں اضافے  کے اعلان کے بھی منتظر تھے ۔ اچانک ہی مقرر نے 10افراد کو اسٹیج پر آنے کا کہا ، کچھ ہی دیر میں ہال موجود افراد میں سے 10افراد اسٹیج پر موجود تھے  مقرر نے ان کو ایک لائن میں کھڑا کردیا اور ان سب کو ایک ایک غبارہ دے کر اُسے پھُلانے کا کہا۔ ہال میں موجود افراد حیران تھے کہ آخر ماجر ہ کیا ہے ، کیوں اتنی بڑی کمپنی کے ملازمین سے غبارے  پُھلوائے جا رہے ہیں ۔ کچھ ہی دیر میں اسٹیج پر موجود10افراد ہاتھوں میں رنگ برنگے غبارے لئے  موجود تھے ۔ اتنے میں مقرر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ٹوتھ پِک(باریک چھوٹی لکڑیاں )نکالیں اور ایک ایک سب کو دیں ۔ ہال میں موجود افسران اور ملازمین کی حیرت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور آپس میں چہ مگوئیا  ں کر رہے تھے ۔ اتنے میں مقرر نے ہاتھ میں غبارہ لئے  10افراد سے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس 2منٹ کا ٹائم ہے ، جس کے ہاتھ میں آخر تک غبارہ رہے گا تووہ جیت جائےگا ۔ یہ سننا تھا کہ ہر فرد نے پہلے تو اپنے برابر میں موجود فرد کا غبارہ پھاڑا اور پھر جس کے ہاتھ میں ثابت غبارہ نظر آیا اُس کا پھاڑا ،ابھی منٹ ہی ہوا تھا کہ 10کے 10غبارے پھٹ چکے تھے اور کسی کا بھی غبارہ ثابت نہ بچا تھا ۔ اور پھر مقرر نے اپنی بات پھر سے شروع کی اور کہا کہ میں نے کب کہا تھا کہ ایک دوسرے کا غبارہ پھاڑنا ہے ، کیا ہی بات ہوتی کہ کوئی کسی کا غبارہ نہ پھاڑتا اور 10کے 10افراد جیت جاتے ۔

دوستو !یہ ہی چیز ہوتی ہے ہمارے کیریئر میں جو ہمیں ناکام بناتی ہے  ایک دوست  کو نیچا دکھانے کی کوششو ں میں ہم خود ناکام ہوجاتے ہیں ۔ یہ ہی عمل ہو تا ہے سیاسی جماعتوں میں کہ اپنی پارٹی کی جیت کے لئے ملکی مفادات کوپیچھے چھوڑا جاتا ہے ، یہ عمل  ہی ہوتا ہے چھوٹے بڑے اداروں میں جہاں اپنی ترقی کے لئے اپنےبرابر والے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں ۔ یہ ہماری نفسیات بن چکی ہے کہ اپنی ترقی چاہتے ہو تو برابر والے کو ناکام کرنا ہوگا ۔ ہمیں لگتا ہے جیتنے کے لئے دوسرے کو ہرانا ضروری ہے اور اسی چکرمیں  اکثر ہم ہار جاتے ہیں ۔

دوستوں !ہمیں اپنی کامیابی کے لئے صرف صرف اپنی کامیابی پر ہی نظر رکھنی چاہئے نہ کہ کسی اور ناکامی پر کیوں کہ جتنی توانائی  ہم کسی دوسرے کوناکام کرنے میں لگاتے ہیں ہر اگر اتنی ہی توانائی ہم  اپنی کامیابی پر لگائیں تو بعید نہیں کامیابی ہمارے قدم چومے ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کامیابی کی تڑپ ہونا بھی ضروری ہے ۔ یہ نہیں کہ ہم چاہیں کہ چلتے پھرتے ہی کامیابی ہماری جھولی میں آگرے ۔

ایک بار ایک نوجوان نے سقراط سے پوچھا کہ کامیابی کا راز کیا ہے۔سقراط نے کہا کہ علی الصباح دریا کے کنارے ملنا ۔ دونوں جب دریا کنارے علی الصباح ملے تو سقراط نے نوجوان سے کہا کہ میرے ساتھ دریا میں کچھ دور چلو، جب دونوں کندھے تک گہرے پانی میں پہنچ گئے تو سقراط نے اچانک نوجوان کو سر سے پکڑا اور اسے پوری طاقت لگا کر ڈبونے کی کوشش کی۔ نوجوان کیونکہ اس بات کے لیے تیار نہ تھا اسلیے زیادہ مزاحمت نا کر پایا اور قریب تھا کہ نوجوان کا سانس رک جاتا، سقراط نے اس نوجوان کو چھوڑ دیا اور وہ نوجوان پانی سے سر نکال کر گہرے سانس لینے لگا۔سقراط نے نوجوان سے پوچھا “جب تم سر سمیت پورے کے پورے پانی کے اندر تھے اور باہر نکلنے پر اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہے تھے تو وہ کون سی اہم ترین بات تھی جو تمہارے ذہن، دماغ اور دل میں آرہی تھی۔اس نوجوان نے کہا “ہوا اور سانس “ کہ وہ چیزیں تھیں جو میرے لیے قیمتی ترین تھیں جن سے میری جان بچنے کی امید تھی۔سقراط نے کہا “ میاں یہ ہے کامیابی کا راز کہ جب تمہیں کامیابی کی اتنی شدید ضرورت ہو جتنی تمہیں زندگی بچانے کے لیے ہوا کی ضرورت تھی اور وہ کامیابی تمہیں مل جائے تو پھر تمہیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ اور جس طرح تم زندگی بچانے کے لیے ہوا کی اہمیت اب سمجھ گئے ہو اس طرح اچھی زندگی گزارنے کے لیے اگر کامیابی کی اتنی ہی شدت سے کوشش کرو جتنی جان بچانے کے لیے ہوا کھینچنے کے لیے کر رہے تھے تو یاد رکھنا کہ وہ کامیابی تمہارے لئے بڑی قیمتی ہونی چاہیے دنیا میں اس سے بڑا کامیابی کا راز کوئی اور نہیں ہے“۔

 ڈاکٹر ٹریوس بریڈ بری لکھتے ہیں،”ہارورڈ بزنس سکول نے کامیاب لوگوں پر ایک تحقیق کی جس میں ان سے کامیابی اور خوشی کا راز جاننے کی کوشش کی گئی“۔ اس تحقیق کے نتائج  سے معلوم ہوا کہ کامیاب اور خوشحال لوگ ان چار 4 سرگرمیوں پر توجہ دیتے ہیں:

1۔ مقاصد کے حصول کے بجائے اس کیلئے محنت کو خوشی کا ذریعہ بنانا

2۔ایسے حقیقت پسند مقاصد کا انتخاب جنہیں  حاصل کرنا ممکن ہو

3۔ایسے کام کرنا جو دوسروں کی زندگی پر بھی مثبت اثر ڈالیں

4۔ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینا جن سے حاصل کئے علم اور کامیابیوں کو نئی نسل تک منتقل کیا جاسکے

مختصر یہ کہ کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنے والے  افراد مقاصد کے حصول کے لئے ایسے کام کرتے ہیں جو کہ دوسروں کی ذندگی پر بھی مثبت اثر ڈالیں نہ کہ دوسرے کے لئے مشکلات میں اضافہ کر کے اپنے لئے آسانیاں اور آسائیشوں کی امید  رکھی جائے ۔

 

حصہ
mm
سلمان علی صحافت کے طالب علم ہیں، بچپن سے ہی پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے ۔ کافی عرصہ ریڈیو سے وابستہ رہنے کے بعد کچھ عرصہ ایک اخبار سے وابستہ رہے ، فی الوقت ایک رفاعی ادارے کے شعبے میڈیا اینڈ مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں ۔معاشرتی مسائل، اور سیر و سیاحت کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں