نئی نسل کو میڈیا کے اثرات سے بچائیے

آج فری ٹائم میں بچوں سے گپ شپ لگانے کا دل کِیا تو ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، کلاس ششم کی طالبات کے کمرہ جماعت میں موجود تھی، میں نے باری باری سب سے ایک ہی سوال کیا آپ بڑی ہوکر کیا بننا چاہیں گی؟
ٹوٹل چودہ بچیاں تھیں جن میں سے تین کے جوابات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا آخر ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟
ایک بچی نے کہا میں سنگر بننا چاہتی ہوں، جب میں نے اسکی وجہ پوچھی تو کہنے لگی .
Teacher because i love music. Music is my life.
دوسری بچی نے جواب دیا میں ڈانس سیکھنا چاہتی ہوں لیکن میرے پیرنٹس سپورٹ نہیں کرتے، اسلیے جب وہ گھر نہیں ہوتے میں کمرہ بند کر کے فل والیوم میوزک پر ڈانس کرتی ہوں.
تیسری بچی نے کہا میں قندیل بلوچ جیسی بننا چاہتی ہوں، میں نے پوچھا لیکن وہ کیوں؟ تو اس نے جواب دیا ٹیچر وہ بہت مظلوم تھی اس نے ناصرف اپنے گھر والوں کو سپورٹ کیا بلکہ اپنے خوابوں کو بھی پورا کیا، میں نے پوچھا یہ سب آپکو کیسے پتا؟ تو جواب ملا ٹیچر اسکی لائف پر جو ڈرامہ بنا ہے میں نے وہ دیکھا ہے.
یہ سب سن کر پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ کونسی دیوار میں جا کر سر ٹکراؤں، پھر میں نے سوچا کم از کم مجھے تو اپنی ذمہ داری ہر صورت پوری کرنی چاہیے، خیر بچیوں کو اگلے بیس منٹ میں ان عظیم خواتین کا تعارف کروایا جنہوں نے حق کی سربلندی کی خاطر اپنی جان، مال اور اولاد تک قربان کر دی.
آسیہ علیہ السلام سے لے کر فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا کی مثالیں بھی دیں، انکے چہروں کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ کچھ اثر بھی ہوا ہے، اسکا وقتی اثر تو ہوگا، لیکن مستقل حل والدین کے پاس ہی ہے، اسلیے سوچا ہے انکے والدین سے ایک میٹنگ رکھوں. اور انکے والدین سے ڈسکس کرکے انکا ماحول چینج کرنے کا کہوں، کہ بچوں کو ذرا میڈیا ایفیکٹس سے بچائیں.

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں