خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدی امّت کی سطوت کا نشان پائیدار
صورت خاک حرم یہ سر زمین بھی پاک ہے
آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے
نکہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تربت ایوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا
اے مسلمان! ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خون کا حاصل ہے یہ شہر
’’علامہ اقبالؔ ‘‘
مندرجہ بالا اشعار علامہ اقبال کی نظم ’’بلاد اسلامیہ‘‘ سے لئے گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے ان اشعار میں ’’قسطنطنیہ‘‘ شہر کی اہمیت اور اس کی تاریخی حیثیت کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے۔ قارئین کیلئے اس ماہ قسطنطنیہ کا تعارف اور سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں اس کی فتح کا احوال پیش خدمت ہے۔
قسطنطنیہ کا تعارف
Constantipoleقسطنطنیہ جسے اہل یورپ
کے نام سے یاد کرتے ہیں ، موجودہ ترکی کے شہر استنبول کا قدیم نام ہے۔ یورپ اور ایشیاء کی سنگم پر شاخ زیریں اور بحیرۂ مرمریں کے ساتھ واقع یہ شہر صدیوں تک یورپ کا اہم ترین شہر سمجھا جاتا رہا۔ 667قبل مسیح میں اس شہر کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس وقت اسے بازنطین کا نام دیا گیا۔ 395 ء میں باز نطینی سلطنت کا دارالخلافہ قرار دیا گیا اور اس کا نام قسطنطنیہ رکھا گیا۔ قدرتی طور پر یہ شہر مثلث نما ہے اور دو اطراف سے پانی نے اسے گھیرا ہوا ہے۔ شمال میں شاخ زریں اور جنوب میں بحیرۂ مرمریں اس کے قدرتی حصار ہیں۔ بہترین جغرافیائی محل وقوع ، معتدل آب و ہوا ، محفوظ اور وسیع بندر گاہ ، کشادہ بازار، صاف و شفاف سڑکوں ، شاندار درس گاہوں اور سب سے بڑھ کر اس کے قدرتی حصار کے باعث پندرہویں صدی عیسوی میں قسطنطنیہ دنیا بھر کے شہروں میں نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ اس کے علاوہ صدیوں قدیم باز نطینی سلطنت کے دارالخلافہ ہونے کی حیثیت سے یورپ کے عیسائی ریاستوں میں بھی نمایاں مقام حاصل تھا
قسطنطنیہ کیلئے آپ ﷺ کی بشارت
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر کیلئے آپﷺ نے کئی احادیث میں مغفرت کی بشارت دی ہے۔ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح بخاری میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔
’’میری امت میں جو لشکر سب سے پہلے قسطنطنیہ پر جہاد کرے گا وہ بخشا بخشایا ہے۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے،
’’تم لوگ ضرور قسطنطنیہ فتح کروگے ۔ پس فاتح لشکر اور اس کا امیر کیا ہی اچھے لوگ ہوں گے۔‘‘
ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں قسطنطنیہ کی فتح کی خواہش ہر دور میں مسلمانوں میں رہی ہے ۔ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد ہی مسلمان قسطنطنیہ پر حملے کی خواہشمند تھے۔
قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے حملے
قسطنطنیہ کا سب سے پہلے محاصرہ مسلمانوں کی جانب سے حضرت امیر معاویہؓ کے دور خلافت میں ہوا۔ اس حملے میں اسلامی لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی شامل تھے۔ آپؓ کا انتقال اسی محاصرہ کے دوران ہوا۔ آپؓ کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین قسطنطنیہ کے قلعے کے ساتھ کی گئی۔ دوسرا محاصرہ مسلمانوں کے دور میں سلیمان بن عبدالمالک نے کیا، تیسرا عباسی خلیفہ المہدی نے کیا، چوتھا ملک شاہ سلجوق نے کیا۔اس کے بعد عثمانی سلطان یلدرم نے قسطنطنیہ کے چار دفعہ زبردست محاصرے کئے مگر ناکام رہا۔ نواں محاصرہ موسیٰ بن یلدرم اور دسواں محاصرہ مراد ثانی نے کیا۔ یہ تو ان محاصروں کا ذکر تھا جو مسلمانوں کئے۔ ان کے علاوہ بھی باز نطینی سلطنت کے اس دارالخلافہ کے 19کے قریب اور بھی محاصرے کئے گئے تھے ۔ شہر کے قدرتی حصار، مضبوط اور ناقابل شکست قلعے، شہر کے گرد چنوائی گئی تین زبردست دیواریں اور ان دیواروں کے درمیان ساٹھ فٹ چوڑی اور سو فٹ گہری خندق وہ عوامل ہیں، جن کے باعث قسطنطنیہ مسلمانوں کیلئے اب تک ناقابل شکست بنا ہوا تھا۔
(سلطان محمد خان ثانی (فاتح
اسلامی تاریخ سے ناواقفیت اور مغربی ذرائع ابلاغ کے حملے نے آج ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں سے دور کردیا ہے۔ ہمیں علم ہی نہیں کہ چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں نے ہمت ، بہادری، اور شجاعت کی کیسی کیسی داستانیں رقم کی ہیں ۔ غیروں سے کیا شکوہ کریں، اپنوں کے ستم بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ خاص طور پر موجودہ ترک میڈیا نے عظیم عثمانی سلاطین کو جس طرح فلمبند کرا ہے وہ بلا شبہ ناقابل معافی سلوک ہے مشہور زمانہ ترک ڈرامہ ’’میرا سلطان‘‘ میں عظیم عثمانی حکمران سلطان سلیمان عالیشان کو جس طرح پیش کیا ہے اس میں وہ زندگی بھر حرم سرا کی سازشوں میں گِھرا ایک مظلوم بادشاہ نظر آتا ہے ۔ حقیقت میں سلطان سلیمان وہ عثمانی سلطان تھا جس کی حکومت سات سمندروں اور تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اس نے نصف صدی تک بصرہ سے لے کر بلغرار تک اور آذربائیجان سے لے کر کردستان تک حکومت کی۔ اس کا شمار انسانی تاریخ کے چند بڑے حکمرانوں میں کیا جاتا ہے۔
خیر سلیمان عالیشان کا ذکر پھر کبھی انہی صفحات پر پیش کروں گا، اب اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں ۔
میں عثمان تخت پر سلطان مراد ثانی کے وفات چودہ سو اکیاون کے بعد اس کا اکیس سالہ فرزند سلطان محمد خان ثانی المعروف فاتح براجمان ہوا۔
محمد ثانی المعروف سلطان محمد فاتح کو سلطنت عثمانیہ کے دیگر سلاطین پر فوقیت حاصل ہے وہ اس وجہ سے کہ اس کے ہاتھوں مسلمانوں کی فتح قسطنطنیہ کی آٹھ سو سالہ خواہش پوری ہوئی۔سلطان محمد فاتح قردن وسطیٰ کے باہمت مسلمانوں نوجوانوں میں سے وہ گوہر آبدار تھا جس کی مثال یورپ آج تک پیش نہیں کرسکا۔
قسطنطنیہ کے باز نطینی حکمرانوں کی عادت تھی کہ جب بھی عثمانی تخت پر نیا سلطان تخت نشین ہوتا تھا تو وہ فوراً عثمانی علاقوں پر سرحدی چھیڑ چھاڑ شروع کردیتے تھے مقصد اس عمل کا نئے بادشاہ کو ڈرانا دھمکانا ہوتا تھا۔ سلطان فاتح کے تخت نشین ہوتے ہی قیصر قسطنطنیہ نے جس کا نام پیلیو لوگس تھا اپنی خاندانی عادت کے مطابق سلطان فاتح کے سرحدی علاقوں میں چھیڑ چھاڑ شروع کردی اور عثمانی تخت کا ایک اوردعویدار کھڑا کرنے کی سازش شروع کردی۔ ان حرکتوں نے سلطان محمد فاتح کو وہ موقع فراہم کردیا جس کی خواہش صدیوں سے اس کے اجداد کرتے آئے ہیں۔
سلطان محمد فاتح کی قسطنطنیہ کے محاصرے کی تیاریاں
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلینے کے بعد سلطان محمد فاتح نے سب سے پہلے اب تک کئے گئے ناکام محاصروں کا جائزہ لیا۔ اس نے اس شہر کے قابل تسخیر رہنے کے اسباب متعین کئے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کہ جب بھی محاصرہ کامیاب ہونے لگتا ہے قیصر اپنی سازشوں سے عثمانی علاقوں میں پھوٹ ڈلوا کر ترکوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا ہے۔
چنانچہ حملہ کرنے سے پہلے سلطان محمد فاتح نے اپنے علاقوں سے تمام شور شیں رفع کردیں۔ ہنگری کے بادشاہ سے صلح کا معاہدہ کرلیا اور اس کے علاوہ کرمانیہ سے بھی صلح کرلی۔ اس کے بعد سلطان نے قسطنطنیہ تک پہنچنے کے علاقے اپنی تحویل میں لے لئے ۔ سلطان کے جد امجد سلطان بایزیر یلدرم جس نے چار دفعہ قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا، اس نے قسطنطنیہ کے ایشیائی ساحل پر ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ سلطان فاتح نے یورپی ساحل پر ایک مضبوط قلعہ تعمیر کرنا شروع کردیا۔ تاریخ اس قلعے کو رومیلی حصار کے نام سے یاد کرتی ہے اور اس کی باقیات آج تک موجود ہیں۔
قسطنطنیہ کی فصیل کی مضبوطی کا سلطان کو بخوبی علم تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ روایتی ہتھیاروں سے اس قلعے کی تسخیر ناممکن ہے۔ طویل مشاورت اور ہنگری کے انجینئروں کی مدد سے سلطان نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس وقت کی جدید ترین توپ ایجاد کی ۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ قلعہ پر حملہ کرنے اور اس کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کیلئے توپ کا استعمال پہلی مرتبہ سلطان محمد فاتح نے کیا۔
دیگر حربی تیاریوں کے علاوہ اس حملے کیلئے سلطان کی اہم ایجاد لکڑی کے بلند و بالا مینار تھے۔ یہ مینار قسطنطنیہ کی فصیل کی اونچائی کے برابرتھے اور ان کے نیچے چلنے کیلئے پہیے نصب تھے، اوپر ان میناروں کے سپاہیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اور ان میناروں کے ساتھ لمبی لمبی سیڑھیاں بھی موجود تھیں ۔ ان میناروں کا مقصد قلعے کی فصیلیں سر کرنا اور خندق عبور کرنا تھا۔
خشکی پر جنگی کشتیاں چلانے کا محیر العقل کارنامہ
جنگی تاریخ شجاعت دلیری اور بہادری کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ محمد بن قاسم سے لے کر طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر تک اسلامی سپاہ کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں ۔ دوسری طرف سکندر اعظم سے لے کر نپولین تک جنگی مہمات میں انوکھی تدابیر اختیار کرنا اور فریقِ مخالف کو کسی اچانک اقدام سے حیران کردینا ہر دور میں کامیاب سپہ سالار کے طریقہ کار میں شامل رہاہے۔ مگر اپریل 1453 ء میں سلطان محمد فاتح کی قیادت میں ترک سپاہ نے عزم و ہمت کی داستان رقم کرتے ہوئے خشکی پر میلوں دور لکڑی کے تختوں کے ذریعے جنگی کشتیاں اور دیگر سامانِ حرب کی منتقلی کا وہ محیر العقل کارنامہ انجام دیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
قائرین کو اگر یاد ہو تو شروع میں عرض کیا گیا تھا کہ قسطنطنیہ مثلث نما شہر ہے اور اس کے دو حصے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ شمال میں شاخ زریں کی خلیج واقع ہے جو آبنائے باسفورس کے ساتھ بطور شاخ قسطنطنیہ کے ساتھ کئی میل تک چلی گئی ہے ۔ اس خلیج کی شکل سینگ نما ہے ۔ دھوپ میں پانی کا رنگ سنہرا ہوجاتا ہے اس لئے اسے ’’گولڈن ہارن‘‘ کہتے ہیں ۔ قسطنطنیہ کے جنوب میں بحیرۂ مرمریں ہے۔ یعنی قسطنطنیہ پر برّی فوج کا حملہ صرف مشرق سے ممکن تھا۔ اس طرف سے شہر کی حفاظت تین دیواروں کی فصیل کہ جس کے درمیان خندق تھی کر رہی تھیں۔ بحری سپاہ کے حملہ کرنے کی صرف ایک صورت تھی کہ سمندر کے راستے سے گولڈن ہارن یا شاخ زریں کی خلیج میں داخل ہوا جائے۔ خلیج کے دہانے پر عیسائیوں نے فولاد ی موٹی زنجیر ڈالی ہوئی تھی۔ یہ زنجیر بذاتِ خود انجینئر نگ کا شاہکار تھی اور حملہ آور بحری قوت کو روکنے کیلئے قسطنطنیہ میں خاص طور پر ڈھالی گئی تھی۔
گولڈن ہارن کے دھانے پر قسطنطنیہ کی بحری قوت حملہ آور بحریہ کو روکنے کیلئے ہر وقت تیار رہتی تھی۔
محاصرہ شروع ہوچکا تھا ۔ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے قسطنطنیہ کا یہ گیارہواں محاصرہ تھا۔ سلطان کی توپوں سے قلعے کی فصیل کو جو نقصان پہنچتا وہ راتوں رات اہل قسطنطنیہ فصیل کی مرمت کرکے پورا کردیتے۔ سلطانی سپاہ نے جو لکڑی کے مینار تیار کروائے تھے ان میں نصب سیڑھیوں کی مدد سے ترک فوجی فصیل کی دیوار سے منسلک گہری خندق پار کرنے کی کوشش کرتے ، مگر عیسائی آگ کے گولے برسا کر لکڑی کے مینارنذرِ آتش کردیتے۔
محاصرہ طویل ہوتا جارہا تھا ایسے میں سلطان نے اندازہ لگایا کہ جب تک شمال کی جانب سے گولڈن ہارن کی خلیج سے بحری حملہ نہیں ہوگا شہر فتح نہیں ہوسکتا، لیکن خلیج کے دہانے کی حفاظت 8 بڑے اور 20چھوٹے بحری جہاز کر رہے تھے ۔ ایسے میں سلطان محمد فاتح نے وہ منصوبہ بنایا جو آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے منصوبہ بنایا کہ عثمانی بحریہ کی نسبتاًہلکی اور چھوٹی جنگی کشتیاں مطلوبہ جنگی سازو سامان کے ساتھ خشکی کے راستے خلیج گولڈن ہارن میں منتقل کردی جائیں تو قسطنطنیہ کے بحری جہازوں سے لڑے بغیر شہر پر اچانک حملہ کیا جاسکتا ہے۔ بظاہریہ منصوبہ نہایت مشکل اور ناقابل عمل نظر آتا تھا۔ ساحل سے ساحل تک کا راستہ تقریباًدس میل تھا اور اس راستے میں زمین بھی نا ہموار اور پہاڑی نما تھی۔ جگہ جگہ درخت اور ریت کے چھوٹے ٹیلے بھی تھے۔
بہر حال سلطانی انجینئروں نے اس ناقابل یقین کام کا بیڑا اٹھایا ، لکڑی کے لمبے لمبے تختے تیار کئے گئے اور ان پر چربی کی تہہ چڑھائی گئی ۔22اپریل1453 ء کی رات کو اندھیرا پھیلتے ہی اس منصوبہ پر عمل درآمد شروع کیا گیا ۔ ایک طرف عثمانی بحری جہاز مسلسل شہر کی طرف حملہ کرتا رہا تاکہ عیسائیوں کی توجہ اس طرف رہے اور دوسری طرف عثمانی سپاہی رات بھر تختوں پر جنگی کشتیوں کو کھسکاتے رہے اور اس طرح رات بھر میں70عثمانی کشتیاں خلیج کے اندر فصیل کے ساتھ پہنچ گئیں۔ عیسائی رات بھر خشکی میں مشعلوں کے شعلے دیکھتے رہے مگر کچھ سمجھ نہیں سکے۔ صبح جب انہوں نے قلعے کی فصیل سے نیچے نگاہ ڈالی تو ان کے خوف اور حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ چھوٹی عثمانی کشتیاں خلیج کے وسط میں تیر رہی تھیں اور باز نطینی جہاز دور گہرے پانی میں کھڑے انہیں تک رہے تھے۔ کیونکہ گہرائی کے سبب وہ ان کے قریب نہیں آسکتے تھے۔
عثمانی انجینئروں کے اس کمال کو عسکری تجزیہ نگاروں اور تاریخ دانوں نے غیر معمولی کارنامہ قرار دیا ہے۔ اس محیر العقل کارنامے کی نظیر یورپ آج تک پیش نہیں کرسکا۔
بہر حال سلطان نے قسطنطنیہ کی اب مکمل ناکہ بندی کرلی تھی۔ خلیج کے اندر تک عثمانی سپاہ کو بالا دستی حاصل ہوگئی تھی ۔محاصرے کے51 دن بعد24مئی1453 ء کو سلطان نے عام حملے کا اعلان کردیا۔ شہنشاہ قسطنطنیہ پیلیو لوگس خود میدان جنگ میں قیادت کر رہا تھا ۔ دوسری طرف سلطان محمد فاتح اپنے جد امجد سلطان با یزیر یلدرم کے انداز ہاتھ میں گرز تھامے اپنے خصوصی لشکر ’’ینی چری‘‘ کے ساتھ میدان میں موجود تھا۔ گھمسان کا رن پڑا۔ دونوں اطراف کی سپاہ نڈر انداز میں لڑ رہی تھیں۔ کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا ایسے میں سلطان کی قیادت میں لڑی جانے والی سپاہ ’’ینی چری‘‘ کا ایک30رکنی دستہ فصیل پر چڑھنے اور فصیل پر عثمانی جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی دستے کا قائد آغا حسن نامی کمانڈر تھا۔
ترک آج بھی آغا حسن کو ایک ہیرو کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ فصیل پر لڑے گئے اس معرکے میں آغا حسن سمیت اس دستے کے 18سپاہیوں نے جام شہادت نوش کیا مگر دوسرے دستوں کیلئے انہوں نے آگے بڑھنے کا راستہ بنادیا۔ فصیل پر لہراتا عثمانی جھنڈا قسطنطنیہ کی سپاہ کی ہمت توڑنے کیلئے کافی تھا۔ سینٹ رومانس کے دروازے پر لڑتے ہوئے باز نطینی شہنشاہ ہلاک ہوگیا اور اسی دروازے سے سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ میں داخل ہوگیا۔
اسی طرح بالآخر قسطنطنیہ کی فتح کی آپﷺکی بشارت پوری ہوئی اور29مئی 1453 ء کو آٹھ صدیوں کی کوششوں کے بعد باز نطینی حکومت کا دارالخلافہ فتح ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ گیارہ سو سالہ باز نطینی سلطنت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
اس عظیم الشان فتح کے بعد سلطان محمد ثانی کا نام فاتح کے لقب کے ساتھ مشہور ہوگیا اور آج دنیا اس عظیم انسان کو سلطان محمد فاتح کے نام سے یاد کرتی ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
محترم عدیل سلیم جملانہ صاحب کی تحریر مسلمانوں کے شاندار اور ولولہ انگیز کارناموں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ بہت زبردست اور معلومات سے بھر پور مضمون ہے۔ اندازِ بیان بھی شاندار ہے۔ عدیل صاحب سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس طرح کی بہترین تحریریں لکھتے رہیں گے ان شاءاللہ
شکریہ
جناب عدیل جملانہ ایک نوآموز لکھاری ہیں مگر انکی تحاریر میں پختہ پن نمایاں ہے یہ مضمون صاحب تحریر کی تاریخ سے دلچسپی کا مظہر ہے ۔تاریخی واقعات اگر وقتی دلچسپی کی نیت سے پڑھے جائیں تو صرف وقت کا ضیاع ہے *لیکن اگر سبق حاصل کرنا مقصود ہو تو ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں* اس مضمون سے جدو جہد اور مستقل مزاجی کے سبق کے علاوہ جنگوں میں اختیار کی جانے والی تدابیر کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور یہ بات آج کے دور میں بھی اتنی ہی سچ ہے ۔باوجود چند املاء کی غلطیوں کہ ایک اچھی کاوش ہے ہم امید کرتے ہیں کہ اس سلسلے کے مزید مضامین پڑھنے کو ملتے رہیں گے’انشاءاللہ
شکریہ جناب سید ماجد حامد صاحب،
انشاءاللہ بہتری کی کوشش جاری رہے گی۔
ایک خوبصورت تحریر ماضی کے جھرونکوں سے عدیل سلیم صاحب میں نے اس سے پیلے بھی سوشل میڈیا اور مختلف جرائد میں تاریخ کے حوالے سے آپ کی تحاریر پڑھی ہیں آپ کا خاصہ عبور ھے تاریخی موضوعات پہ ، آج کے اس پرآشوب اور پرفتن دور میں اپنے اسلاف کی تاریخ سے آگاہی از حد ضروری ہوگئی ھے ” تھے وہ آباء ہی ہمارے ۔۔۔۔۔۔ مگر ہم کیا ہیں “
ماشاءاللہ.بہت.خوب.لکھا.ھے.عدیل.بھاءی.نے
تاریخی.حقاءق.کو.بہت.ہی.نفاست.کے.ساتھ.قلم.بند.کیا.ھے.
مسلمانوں.کو.اپنی.تاریخ.سے.آگاہی.وقت.کی.اہم.ضرورت.ہے
جو.قوم.بھلا.دیتی.ہے.تاریخ.کو.اپنی
اس.قوم.کا.جغرافیہ.باقی.نہیں.رہتا
اللہ.تعالی.ان.کے.قلم.میں.برکت.نصیب.فرماءے
ماشاءاللہ ۔۔انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے ۔۔
لیکن بہت خوبصورت ہے جو یقینا لوگوں کے دلوں میں اترے گا ۔
شکریہ !