کیاادب اسلام سے متصادم ہے ؟

ادب کے حوالے سے جہاں اورکئی مباحث نے جنم لیاوہیں یہ اختلاف بھی پایاجاتاہے کہ ادب انسان کوکن نظریات کاحامل بناتاہے ۔ ہرکسی نے ادب کومختلف معنوں میں لیاہے اوراس کی مختلف تعبیریں کی ہیں ۔کوئی اسے اسلام کے لئے مضرقراردیتاہے توکوئی ادب کواسلام کے تابع گردانتاہے ۔یہ اختلاف اس لئے پایاجاتاہے کہ ایک تواسلام نے ادب کی ایک اہم صنف نظم (اشعار)کی مذمت کی ہے ،دوسراآج ہمارے معاشرے میں معیاری ادب ناپیدہوتاجارہاہے ۔ اب دیکھنایہ ہے کہ اسلام نے کن اشعارکی مذمت کی ہے اورکون ساادب معیاری ادب کہلاتاہے ، اسی طرح کیا واقعی ادب اسلام کے لئے مضراوراس سے متصادم ہے یاپھرلوگ ادب سے ناآشنائی کی بناپرغلط فہمی کاشکار ہیں۔ادب ہے کیا؟اس بارے میں جاننے کی اشدضرورت ہے ۔
ادب وہ لطیف فن ہے جس کے ذریعے خیالات میں شگفتگی، اندازواطوارمیں عمدگی اورتہذیب واخلاق میں شائستگی پیداہوتی ہے ۔ ادب ہی سے سماجی ، مذہبی اورسیاسی اقدارومیلانات کی عکاسی اورترجمانی ہوتی ہے ۔ایک ادیب ادب کے ذریعے اپنے جذبات وافکارکواپنے خاص نفسیاتی وشخصی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہرکرتاہے بلکہ الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی اورخارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی اورتنقیدبھی کرتاہے ۔اپنے تخیل اورقوت مخترعہ سے کام لے کراظہاروبیان کے ایسے مؤثرپیرائے اختیارکرتاہے جن سے سامع وقاری کاجذبہ وتخیل بھی تقریباًاسی طرح متاثرہوتاہے ،جس طرح ادیب کااپناتخیل اورجذبہ متاثرہوتاہے ۔ادب کی مختلف تعریفات ملتی ہیں ، جن میں سے یہ تعریف جامع معلوم ہوتی ہے کہ زبان کوبناسنواراورنکھارکربولنا،لکھناادب کہلاتاہے ۔جب کلام میں وسعت پیداہوجائے ، یہ فصاحت وبلاغت سے مرصع ہوکرمختلف اسلوب میں ڈھل جائے تواسے ادب وفن کانام دیاجاتاہے ۔ایک مؤلف لکھتے ہیں کہ کسی زبان کاادب اس کے شعراء اورمصنفین کاوہ عمدہ اورانوکھاکلام ہوتاہے جس میں نازک خیالات اورباریک معانی ومطالب کی ترجمانی کی گئی ہواورنفس انسانی میں شائستگی ، افکاروخیالات اورزبان میں وسعت پیداکرے ۔ادب کایہ معیارکسی بھی طرح سے دین اسلام یااس کے کسی بھی پہلوسے نہیں ٹکراتا۔ ہم یہاں مختصرجائزے میں معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ ادب کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کیاہیں۔
قرآن مجیدبلاشبہ ادب کااعلیٰ شاہکارہے ۔قرآن کریم کاادبی اسلوب کچھ ایساہے کہ نہ تویہ موزون ومقفیٰ ہے اورنہ ہی ایسی سجع شعری عبارت ہے کہ جس میں ایک بات کوٹکڑے ٹکڑے کرکے چندجملوں میں اداکیاجائے ۔نہ ایسی غیرموزون ومقفیٰ عبارت ہے جس کاطرزبیان بغیرٹوٹے اوربغیرسجع بندی کے مسلسل چلاگیاہے ۔ ذہن اس کی معنویت اورپڑھنے والے کی روح ووجدان اس سے ہم آہنگی کے باعث سکون محسوس کرتے ہیں ۔قرآن مجیدکے مطابق ادب پاکیزہ اوربلنداقدارکاحامل ہے ،ادب تزکیہ نفس کرتاہے اورادب ہی سے انسان دیگرحیوانات سے ممتازہے ۔سورۂ رحمن میں قرآن نے ’’البیان ‘‘ کالفظ استعمال کیاہے جوادب پردلالت کرتا ہے۔قرآن کے مطابق عدل وانصاف، خدمت انسانیت ، تائیدحق وصداقت ، نفاست پسندی ، عفت وحیااورخداپرستی ادب کاطر�ۂامتیازہے ۔قرآن میں جابجا مقامات پراچھی بات کرنے کاحکم ہواہے ۔قرآن توچاہتاہے کہ تمام انسان بیان کرنے میں مناسب اورپروقاراسالیب اختیارکریں ۔ شائد اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوحیوان ناطق بنایاہے ۔غوروفکرسے کام لینا، معاشرے میں اچھائی کوپروان چڑھانااوربرائی کاسدِ باب کرناادب کے فریضہ میں شامل ہے ۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن مجیدنے ہرطرح سے ادب کی حمایت کی ہے اورادب کویاس وقنوط سے نکال کرجہادمسلسل اورحیات آفریں رجائیت کاپیامبربنایاہے ، اسی طرح ادب کوتنقیدکے بلنداصولوں سے متصف کیاہے ۔
نبی مکرم ﷺ نے بھی ادب کی نہ صرف تعریف وتحسین کی ہے بلکہ ادب اختیارکرنے کی تلقین فرمائی ہے ۔آ پﷺ کے فرمان کے مطابق اچھی بات کہنا (اورلکھنا)صدقہ جاریہ ہے ۔نبی کریم ﷺ قدرتی طورپرفصاحت وبلاغت کے بلندمرتبے پرفائزتھے ، دوسرے لوگوں کی طرح آپ ﷺ کاکلام تکلف سے پاک ہوتا اوراس میں مصنوعی پن کاشائبہ تک نہ ہوتا۔آپ ﷺ کاکلام ایساہوتاکہ جس میں حروف کم اورمعانی ومفاہیم زیادہ ہوتے ، عامیانہ اوربازاری الفاظ سے منزہ ومبرہ ہوتا، سرمایہ حکمت سے لبریزاورغلطیوں سے پاک کلام آپ ﷺ کاخاصہ تھا۔آپ ﷺ کاہرہربیان مفید، صداقت پرمبنی، مناسب وموزوں ، خوش اسلوبی سے متصف ، پُراثر، دل نشین، آسان وزودفہم اوراپنے مقصودمطلوب کوحاصل کرنے پریکتاتھا۔لکھنے والے نے تویہاں تک لکھاہے کہ آپ ﷺ کی ہرہربات میں حکمت اور جامعیت پوشیدہ ہے ، معانی ومفاہیم کااعلیٰ جہاں آبادہے ، آپ ﷺ کی باتیں ادب آمیزبھی ہیں ، ادب آموزبھی، ادب سازبھی ہیں اورادب سوزبھی۔
آپ ﷺ خودفرماتے ہیں کہ میں عرب میں سب سے زیادہ فصیح اللسان ہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے جوامع الکلم عطاکئے ہیں ۔اسی لئے آپ ﷺ ادب کوپسندفرماتے ، سفروحضرمیں اپنے ساتھ اچھے شاعررکھتے اوران سے عمدہ کلام سنتے ، کافروں کوجواب دینے کے لئے ادیب اورشاعرصحابہؓ ہمہ وقت موجودہوتے ، مسجدمیں بھی اشعارپڑھے اورسنے جاتے۔آپ ﷺ کایہ فرماناکہ بے شک (عمدہ)بیان میں جادوئی تاثیرپائی جاتی ہے ، ادب کی توثیق پرمہرنہیں توکیاہے ؟آپ ﷺ کااشعارکے متعلق یہ بیان کہ بے شک کچھ اشعارحکمت سے بھرپورہوتے ہیں ، ادب کی حمایت نہیں توکیاہے ؟
اب رہایہ مسئلہ کہ آپ ﷺ نے اشعارکی مذمت فرمائی ہے تویہ ان اشعارکے متعلق ہے جواشعارعقائدونظریات کے بگاڑکاسبب بنتے ہیں ۔اگرادب مذکورہ صفات متصف ہواوراسلام کے منافی نہ ہوتوایساادب نہ صرف جائزہے بلکہ اس ادب کواختیارکرناایک اچھے مسلمان کی نشانی ہے ۔جولوگ ادب کواسلام سے متصادم قراردیتے ہیں انہیں کسی کہنے والے کی یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اسلام کی آفاقی اورعالمگیری سوچ نے افکارکوتبدیل کردیا،جس کی وجہ سے ایسااسلوب معرض وجودمیں آیا جوروح میں سرشاری ، طبیعت میں فرحت ، سوچوں میں وسعت، لسان میں ظرافت پیداکرنے کے ساتھ فصاحت وبلاغت کابھی ایک شاہکارہے ۔یہ الگ بات ہے کہ آج زیادہ ترادب غیرمعیاری ہے مگراس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ ادب بذات خودکوئی بری چیزہے بلکہ ادب تخلیق کرنے والاخودبرے افکارونظریات کاحامل ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں