سی پیک اور بلوچستان کی رسومات 

آج کل بلوچستان کے گھر گھر میں سی پیک کا چرچا ہے۔انہیں امید ہے کہ دنیا انکی ثقافت دیکھنے لازمی انکی سرزمین پر آئے گی۔ نوجوان بلوچ سوچ رہے ہیں کہ سی پیک سے بلوچستان میں ایک نیا جہان طلوع ہوگا تو کیا اندھی روایات کی ظلمتوں کی تیرگیاں بھی ختم ہو سکیں گی۔جہالت ،غلامی اور کم سنی کی شادیاں۔ ان دنوں بلوچوں کی ثقافت دنیا کے لیئے منفرد اور حیرت کا باعث بن رہی ہے۔جب سی پیک مکمل ہو گا تب لاکھوں لوگ بلوچوں کی ثقافت دیکھنے بلوچستان کا رخ کریں گے ۔بلوچ ثقافت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی روایات کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ اس دھرتی پہ وعدہ کرنااور اس کو نبھانا سب سے بڑا اصول مانا جاتا ہے ۔ وعدہ ایسی طاقت ہے جسے یہاں فراموش کرنے والے کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جاتا ۔ یہاں کے رسم و رواج بھی پیچیدہ نہیں بلکہ دلچسپ ہیں ۔ہم آپ کو بلوچوں میں شادی کی رسومات کا ایک پہلو دکھاتے ہیں۔یہاں پر مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی نہیں گزاری جاتی بلکہ بیٹے کی شادی کے ساتھ اسے نیا گھر بھی دیا جاتا ہے تاکہ اپنا کھائیں اپنا کمائیں اور اپنے گھر بیوی کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کریں ۔ شادی کے دوران کچھ علاقوں میں ایک ٹینٹ کا گھر بنا کر دیا جاتا اور اس میں شادی کی رات دولہن اور دولہا کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس ٹینٹ میں وہ دونوں پوری رات گزارتے ہیں۔ بغیر ڈر کے ۔ اگر ڈر گئے تو ان کی پوری زندگی بھی خوف سے گزرتی ہے۔ شادی بیاہ پر دولہا سفید قمیض شلوار پہنتا ہے جبکہ دلہن روایتی سرخ قمیض اور شلوار زیب تن کرتی ہے۔ دولہے کو ایک دوپٹے کے سائے تلے نہایا جاتا ہے اور اس دوپٹے کے چاروں کونوں میں خنجر سے اس دوپٹے کو پکڑا جاتا ہے تاکہ اس کی پوری زندگی خنجروں کے سائے میں گزرے۔ کچھ لمحے بعد پھر دولہے کا چاچا یا ماموں اس کو کندھے پہ اٹھا کے نئی چار پائی پہ بٹھا تا ہے جہاں پہ اس کو پیسوں کی (کنڈھیاں) ہار پہنائی جاتی ہیں اور کچھ پیسے بھی ہوا میں اچھالے جاتے ہیں جنہیں صرف بچہ پارٹی اٹھاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور دلچسپ رسم بھی ہے۔ پہلے دولہا والے اور پھر دولہن والے تولیے سے لے کر جوتے تک ایک ایک چیز کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں ۔اس کو جہیز دیکھاوا کہتے ہیں۔یہ رسمیں کم اور نمائش زیادہ ہوتی ہے۔

بلوچوں کے مشہور رقص دو تالی ہیں جبکہ عورتیں اپنا الگ سے رقص کرتی ہیں۔ وہ رقص روایتی کرتی ہیں۔ بیچ میں فقیر ڈھول بجاتا ہے اور لڑکیاں چاروں طرف ایک سرکل میں جوش و جذبے سے رقص کرتی ہیں۔ اس میں موسیقی ڈھول کی تھاپ پر ترتیب دی جاتی ہے۔ شادی بیاہ، منگنی کی رسموں پر گھر کی ہر عمر کی خاتون اور بچیاں اور بڑے مل کر دو تالی رقص کو خوب انجوائے کرتے ہیں۔ اس دوران خوب بلوچی گانے بھی گائے جاتے ہیں۔ یہ رقص دو سے تین گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔ پہلے بچے پھر نوجوان پھر بڈھے اس رقص کو انجوائے کرتے ہیں۔

بلوچستان میں روایتی کھانے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔بیس سے تیس دیگیں پکائی جاتی ہیں ۔ مہمانوں کیلئے خصوصی کھانے بھی پکائے جاتے ہیں جن میں بریانی بکرے کے گوشت کا سالن ،بڑے گوشت کا سالن ،ساتھ سجی اور چاول کی دو تین مختلف قسمیں پکائی جاتی ہیں۔

اگلے روز اس شادی کی سب رسمیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک اورشادی کی تیاری شروع ہو جاتی ہے ۔چہ میگوئیاں ہونے لگتی ہیں کہ اب دیکھو کس کی باری آتی ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے اور دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ جس طرح سی پیک ہر وقت موضوع بحث بنا رہتاہے اسی طرح ہماری شادی بھی کسی نہ کسی مسلئے کی زد میں آئے گی۔ ہم اپنی تعلیم مکمل کر سکیں نا پکی عمر میں شادی کرسکیں گے۔بڑے اڑ گئے تو تعلیم ادھوری اور کم عمری میں ہی بلوچ روایات کے مطابق شادی کرنا ہوگی۔

 

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں