کہنے کوتوکتاب چندصفحات ہیں مگراس میں کامیابی وترقی کے رازپنہاں ہیں ، ایسی شمع ہے جوہرآن فروزاں رہتی ہے اورکبھی بھی مدہم نہیں ہوتی، فاصلے اس میں سمٹ آتے ہیں ،اس کے سامنے صدیوں کی خاموشیاں دم توڑدیتی ہیں، یہ تاریخ، ثقافت، تہذیب وتمدن ،زندگی کے نشیب وفراز، طرزبودوباش اورعلوم وفنون کامنبع ہے۔علمی، فکری اورادبی راہوں کی منزل، شگفتہ ذوق کی حامل، صدائے ماضی، قوموں کی تقدیراورعروج وزوال کے تغیروتبدل کی ضامن،زندہ قوموں کاشعار، مطالعے اورمشاہدے کاایساسفرکہ جس کے ذریعے حضرت انسان نے چاندپرقدم جمائے، چوٹیاں سرکیں الغرض سبھی کچھ توانسان نے اس سے حاصل کیا۔
یہ کتاب ہی ہے جوکسی بھی معاشرے کومہذب، تعلیم یافتہ، تحمل مزاج، باوقاراوراعلیٰ اقدارسے روشناس کراتی ہے ۔کتابوں ہی سے عالمگیرانسانیت ، اخوت ، بھائی چارے اورفلاح وبہبودکااحساس پیداہوتاہے ۔کتاب کوبہترین رفیق کاراورشفیق دوست کہاگیاہے ۔ علامہ مسعودی کاکتابوں سے یہ کہنابجاہے کہ:
اے میری کتابو!تم میری جلیس وانیس ہو، تمہارے ظریفانہ کلام سے نشاط اورتمہاری ناصحانہ باتوں سے تفکرپیداہوتاہے ۔ تم پچھلوں اورپہلوں کوایک عالم میں جمع کردیتی ہو، تمہارے منہ میں زبان نہیں لیکن تم زندوں اورمردوں دونوں کے افسانے سناتی ہو۔
سقراط کایہ قولِ زریں بھی سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے کہ:
جس گھرمیں اچھی کتابیں نہیں وہ گھرحقیقتاً گھرکہلانے کامستحق نہیں ہے یہ تومردوں کاقبرستان ہے ۔
اسلام نے بھی کتاب کی اہمیت کوروز اول سے ہی واضح کردیاہے ۔قرآن مجیدکی متعدد آیات، احادیث اوراسلاف کی علم دوستی کتاب کی اہمیت وافادیت پر دلالت کرتی ہے ۔قرآن نے قلم کی قسم کھائی ، اسی طرح قلم کوعلم کاذریعہ کہا، یعنی قلم سے لکھی ہوئی عبارت (کتاب ) ہی سے علم وفن اورشعورآگہی کے روزن واہوتے ہیں۔اللہ کے نبی ﷺ نے علم سیکھنافرض قراردیاہے ۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کوانسانیت کی رشدوہدایت کے لئے کتابیں دے کربھیجا۔انہی کتب نے انسان کوانسانیت سکھائی ۔اگرتاریخ کی ورق گردانی کی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ اسی وجہ سے مسلمانوں کاکتاب سے خاص قلبی لگاؤرہا ہے۔مسلمانوں نے کتاب کو اوڑھنابچھونابنائے رکھااورترقی کی منازل طے کرتے گئے ۔
مسلمانوں کی گم گشتہ عظمتیں اس حقیقت کوبیان کرتی ہیں کہ مسلمانوں نے ماضی میں عظیم کتب خانے قائم کئے۔یہی کتب خانے ان کی علمی عظمت، فکری بصیرت اورتہذیب اسلامی کے آئینہ دارتھے ۔ یورپ اس لحاظ سے مسلمانوں کازیراحسان ہے کہ مسلمانوں کی قائم کردہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں یورپی اپنی علمی تشنگی دورکرتے رہے ۔مسلمانوں نے یورپ کے اندھیروں کوعلم سے جلابخشی ۔مسلمانوں کی قائم کردہ لائبریریوں میں بیک وقت لاکھوں کتب موجودہوتیں ۔قرطبہ میں خلفائے اموی نے ستردارالکتب قائم کئے، ہرمکتب ومسجدکے ساتھ لائبریری ملحق ہوتی، علماء، وزراء، امراء اورسلاطین کے ذاتی کتب خانے ان کے علاوہ تھے ۔اگراس کے برعکس یورپ کی لائبریریوں کاجائزہ لیں توایک تحقیق سے پتاچلتاہے کہ چھوٹے درجے کے کلیساکے پاس درجن بھر، درمیانے کلیساکے پاس چندسوکتب ہوتیں ، جبکہ نویں صدی عیسوی میں یورپ میں کتابوں کاسب سے بڑاذخیرہ صرف پانچ سوکتابوں پرمشتمل تھا۔اسی طرح وسطی کے اختتام تک ایوینان فرانس کی پاپائی لائبریری اورسوربن کی پیرس لائبریری صرف دوہزارکتابوں پرمشتمل تھی ۔
مسلم امہ کتب سے دوراس وقت سے ہے جب عیسائیوں نے مسلم ممالک پریورش کی اوران کے عظیم کتب خانے جلادیئے ، کچھ کتابیں بہادی گئیں اورکچھ یورپ کی لائبریریوں کی زینت بنیں ۔مخالف قوموں کی یلغارنے مسلمانوں کوکتابوں کے حوالے سے مفلس بناکررکھ دیا۔یہ سب مسلمانوں سے نفرت اورعداوت کی بناپرکیاگیا۔سپین میں قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ اورطلیطلہ میں بڑے ثقافتی مراکزاورعظیم الشان کتب خانے موجودتھے ۔پادریوں نے بے دردی سے انہیں جلادیا۔صرف طلیطلہ میں ہی 80ہزارکتب کونذرآتش کردیاگیا۔طرابلس میں مسلمانوں کی600سالہ محنت کو30لاکھ کتابیں جلاکرتباہ کردیاگیا۔فرانس اورسسلی میں بھی وحشی عیسائیوں کے ہاتھوں لاکھوں کتابوں کوراکھ کاڈھیربنادیاگیا۔
اگرمسلمانوں کے کتب خانوں کی بربادی کودیکھاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ 7لاکھ اسکندریہ میں ، 15لاکھ سپین میں ، 30لاکھ طرابلس میں ، 3لاکھ سسلی میں اورکئی لاکھ قسطنطنیہ میں کتابوں کوآگ میں جھونکاگیا، تیرہویں صدی میں تاتاریوں نے بغداد، کوفہ، بصرہ ، حلب ، دمشق، نیشاپور، خراسان ، خوارزم اورشیرازمیں سینکڑوں کتب خانوں میں موجودتین کروڑکے لگ بھگ کتب بھسم کرڈالیں ۔دریائے فرات میں توکتب کاذخیرہ اس قدربہایاگیاکہ دریاکاپانی سیاہی کی وجہ سے سیاہ ہوگیا۔
یہ مسلمانوں کاورثہ تھاکہ جس کے یوں ضائع ہونے سے مسلمان اپاہج ہوگئے اوراس وقت سے لے کرآج تک یہ علوم وفنون سے عاری ہیں ۔اس کے برعکس اہل یورپ کی لائبریریوں میں مسلمانوں کی آج بھی تقریباً6لاکھ کتب موجودہیں ، جن سے وہ استفادہ کرتے ہوئے تحقیق کی دنیامیں مسلمانوں سے کہیں آگے نکل چکے ہیں ۔دنیامیں 28ممالک ایسے ہیں کہ جن میں سب سے زیادہ کتب فروخت ہوتی ہیں مگرصدافسوس کے ان ممالک میں کہیں بھی مسلمان ملک کانام ونشان نہیں ملتا ہے۔علامہ اقبال نے بھی اسی جانب اشارہ کیاتھاکہ
مگروہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباکی جودیکھیں ان کویورپ میں تودل ہوتاہے سی پارہ
یہ کتاب ہی ہے جوکسی بھی معاشرے کومہذب، تعلیم یافتہ، تحمل مزاج، باوقاراوراعلیٰ اقدارسے روشناس کراتی ہے ۔کتابوں ہی سے عالمگیرانسانیت ، اخوت ، بھائی چارے اورفلاح وبہبودکااحساس پیداہوتاہے ۔کتاب کوبہترین رفیق کاراورشفیق دوست کہاگیاہے ۔ علامہ مسعودی کاکتابوں سے یہ کہنابجاہے کہ:
اے میری کتابو!تم میری جلیس وانیس ہو، تمہارے ظریفانہ کلام سے نشاط اورتمہاری ناصحانہ باتوں سے تفکرپیداہوتاہے ۔ تم پچھلوں اورپہلوں کوایک عالم میں جمع کردیتی ہو، تمہارے منہ میں زبان نہیں لیکن تم زندوں اورمردوں دونوں کے افسانے سناتی ہو۔
سقراط کایہ قولِ زریں بھی سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے کہ:
جس گھرمیں اچھی کتابیں نہیں وہ گھرحقیقتاً گھرکہلانے کامستحق نہیں ہے یہ تومردوں کاقبرستان ہے ۔
اسلام نے بھی کتاب کی اہمیت کوروز اول سے ہی واضح کردیاہے ۔قرآن مجیدکی متعدد آیات، احادیث اوراسلاف کی علم دوستی کتاب کی اہمیت وافادیت پر دلالت کرتی ہے ۔قرآن نے قلم کی قسم کھائی ، اسی طرح قلم کوعلم کاذریعہ کہا، یعنی قلم سے لکھی ہوئی عبارت (کتاب ) ہی سے علم وفن اورشعورآگہی کے روزن واہوتے ہیں۔اللہ کے نبی ﷺ نے علم سیکھنافرض قراردیاہے ۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کوانسانیت کی رشدوہدایت کے لئے کتابیں دے کربھیجا۔انہی کتب نے انسان کوانسانیت سکھائی ۔اگرتاریخ کی ورق گردانی کی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ اسی وجہ سے مسلمانوں کاکتاب سے خاص قلبی لگاؤرہا ہے۔مسلمانوں نے کتاب کو اوڑھنابچھونابنائے رکھااورترقی کی منازل طے کرتے گئے ۔
مسلمانوں کی گم گشتہ عظمتیں اس حقیقت کوبیان کرتی ہیں کہ مسلمانوں نے ماضی میں عظیم کتب خانے قائم کئے۔یہی کتب خانے ان کی علمی عظمت، فکری بصیرت اورتہذیب اسلامی کے آئینہ دارتھے ۔ یورپ اس لحاظ سے مسلمانوں کازیراحسان ہے کہ مسلمانوں کی قائم کردہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں یورپی اپنی علمی تشنگی دورکرتے رہے ۔مسلمانوں نے یورپ کے اندھیروں کوعلم سے جلابخشی ۔مسلمانوں کی قائم کردہ لائبریریوں میں بیک وقت لاکھوں کتب موجودہوتیں ۔قرطبہ میں خلفائے اموی نے ستردارالکتب قائم کئے، ہرمکتب ومسجدکے ساتھ لائبریری ملحق ہوتی، علماء، وزراء، امراء اورسلاطین کے ذاتی کتب خانے ان کے علاوہ تھے ۔اگراس کے برعکس یورپ کی لائبریریوں کاجائزہ لیں توایک تحقیق سے پتاچلتاہے کہ چھوٹے درجے کے کلیساکے پاس درجن بھر، درمیانے کلیساکے پاس چندسوکتب ہوتیں ، جبکہ نویں صدی عیسوی میں یورپ میں کتابوں کاسب سے بڑاذخیرہ صرف پانچ سوکتابوں پرمشتمل تھا۔اسی طرح وسطی کے اختتام تک ایوینان فرانس کی پاپائی لائبریری اورسوربن کی پیرس لائبریری صرف دوہزارکتابوں پرمشتمل تھی ۔
مسلم امہ کتب سے دوراس وقت سے ہے جب عیسائیوں نے مسلم ممالک پریورش کی اوران کے عظیم کتب خانے جلادیئے ، کچھ کتابیں بہادی گئیں اورکچھ یورپ کی لائبریریوں کی زینت بنیں ۔مخالف قوموں کی یلغارنے مسلمانوں کوکتابوں کے حوالے سے مفلس بناکررکھ دیا۔یہ سب مسلمانوں سے نفرت اورعداوت کی بناپرکیاگیا۔سپین میں قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ اورطلیطلہ میں بڑے ثقافتی مراکزاورعظیم الشان کتب خانے موجودتھے ۔پادریوں نے بے دردی سے انہیں جلادیا۔صرف طلیطلہ میں ہی 80ہزارکتب کونذرآتش کردیاگیا۔طرابلس میں مسلمانوں کی600سالہ محنت کو30لاکھ کتابیں جلاکرتباہ کردیاگیا۔فرانس اورسسلی میں بھی وحشی عیسائیوں کے ہاتھوں لاکھوں کتابوں کوراکھ کاڈھیربنادیاگیا۔
اگرمسلمانوں کے کتب خانوں کی بربادی کودیکھاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ 7لاکھ اسکندریہ میں ، 15لاکھ سپین میں ، 30لاکھ طرابلس میں ، 3لاکھ سسلی میں اورکئی لاکھ قسطنطنیہ میں کتابوں کوآگ میں جھونکاگیا، تیرہویں صدی میں تاتاریوں نے بغداد، کوفہ، بصرہ ، حلب ، دمشق، نیشاپور، خراسان ، خوارزم اورشیرازمیں سینکڑوں کتب خانوں میں موجودتین کروڑکے لگ بھگ کتب بھسم کرڈالیں ۔دریائے فرات میں توکتب کاذخیرہ اس قدربہایاگیاکہ دریاکاپانی سیاہی کی وجہ سے سیاہ ہوگیا۔
یہ مسلمانوں کاورثہ تھاکہ جس کے یوں ضائع ہونے سے مسلمان اپاہج ہوگئے اوراس وقت سے لے کرآج تک یہ علوم وفنون سے عاری ہیں ۔اس کے برعکس اہل یورپ کی لائبریریوں میں مسلمانوں کی آج بھی تقریباً6لاکھ کتب موجودہیں ، جن سے وہ استفادہ کرتے ہوئے تحقیق کی دنیامیں مسلمانوں سے کہیں آگے نکل چکے ہیں ۔دنیامیں 28ممالک ایسے ہیں کہ جن میں سب سے زیادہ کتب فروخت ہوتی ہیں مگرصدافسوس کے ان ممالک میں کہیں بھی مسلمان ملک کانام ونشان نہیں ملتا ہے۔علامہ اقبال نے بھی اسی جانب اشارہ کیاتھاکہ
مگروہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباکی جودیکھیں ان کویورپ میں تودل ہوتاہے سی پارہ