ایمان کا تقاضا کیا ہے؟ 

اللہ رب العلمین کے الہ اور رب ہونے کے یقین کے بعد اللہ کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ فرمان باری ہے کہ: ’’ایمان والے وہ ہیں کہ جو ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے‘‘ یعنی یقین کامل کے ساتھ ماننے کو ایمان کہتے ہیں۔ نیز فرمایا: ’’ایمان والے وہ ہیں کہ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر قائم رہے‘‘۔
لیکن صرف اللہ کو مان لینا ایمان لانے کے لئے کافی نہیں۔ اللہ کو تو یہودی اور عیسائی بھی مانتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا: ’’آؤ اس کلمے پر متحد ہوجائیں کہ جس کو تم بھی مانتے ہو اور ہم بھی کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے‘‘۔ مشرکین مکہ بھی اللہ کو مانتے تھے۔ خانہ کعبہ کو بیت اللہ کہتے تھے، اسی طرح آپس کے معاہدوں کے آخر میں اللہ گواہ ہے لکھتے تھے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا نام عبداللہ تھا۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ وہ اللہ کو مانتے تھے لہٰذا محض اللہ کو مان لینا ایمان کے لیے کافی نہیں بلکہ ایمان کے لیے اللہ کو ماننے کے ساتھ ساتھ اللہ کی ماننا بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی بات کو اللہ تبارک و تعالی نے قسم کھا کہ فرمایا:’’قسم ہے زمانے کی انسان بہت خسارے میں ہے۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے‘‘۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:’’”اے ایمان والو! ایمان والے بن جاؤ‘‘۔ یعنی اللہ کی ماننے والے بن جاؤ۔ اللہ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ ہم سے تقویٰ کا مطالبہ کیا۔ تقویٰ اللہ کے خوف سے اس کی نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔ اللہ کو مطلوب یہ ہے کہ کم از کم ہم اس کے نافرمان نہ بنیں۔ اس کے خوف سے گناہ نہ کریں۔ گناہ اس کا نام ہے کہ جس کام کو کرنے کا اللہ نے حکم دیا اسے ترک کرنا اور جس کام سے بچنے کا حکم دیا اسے کرنا۔
ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم اللہ کو ماننے کے ساتھ اللہ کی مانیں۔ جتنا ہم اللہ کی اطاعت سے دور ہوتے جائیں گے اتنے ہی ہم ایمان سے بھی دور ہوتے جائیں گے۔ اسی لئے قرآن میں گناہگار و کافر دونوں کے لئے فاسق کا لفظ آیا ہے۔ کیونکہ فاسق اللہ کی حدود سے نکلنے والے کو کہا جاتا ہے۔ جتنا خدا کی حدود سے نکلتا جائے گا گناہگار ہونے سے کافر ہونے تک کے مراحل طے کرتا جائے گا اور جب بالکل ہی نکل گیا تو کافر ہوجائے گا ۔اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان فرمانبرداری کا نام ہے۔
فرمان باری ہے کہ:’’ایمان کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے‘‘۔ یعنی بظاہر تو ایمان والے بنو مگر معاشرے میں قاتل، لٹیرے، شرابی، سود خور، رشوت خور کے نام سے معروف ہو۔
اللہ کے ماننے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اللہ کے عذاب کے ڈر سے اللہ کی اطاعت کرتے ہیں گناہوں سے بچتے ہیں۔ ان کے لئے اتنی عبادت کافی ہوتی ہے کہ جس سے وہ عذاب سے بچ سکیں یعنی فرائض کا اہتمام اور حرام سے اجتناب۔ ایسے لوگوں کو اللہ نے اصحاب یمین کہا ہے اور عذاب سے نجات کی خبر دی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے ایک طالبعلم والدین اور اساتذہ کے ڈر سے پڑھتا ہے اس کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ پاس ہوجائے فیل ہونے سے بچ جائے۔
دوسری قسم کے وہ عبادت کرنے والے ہوتے ہیں کہ جو اللہ کی محبت میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اللہ کی نافرمانی سے خود کو بچاتے ہیں۔ اطاعت میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ کے احسانات کو یاد رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف فرائض کی حد تک خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ کثرت سے ذکر و اذکار، تلاوت قرآن، اشاعت دین کے لیے جدوجہد، اللہ کی راہ میں بکثرت مال خرچ کرنے میں منہمک رہتے ہیں۔ نیکی کے ہر کام میں آگے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ نے سابقون کہا ہے اور فرمایا: ’’ان کے لئے عیش و عشرت والی زندگی اور نعمتوں بھری جنت کا وعدہ ہے اور ان سب سے بڑھ کر اللہ کے قرب کا وعدہ ہے‘‘۔ یعنی جیسے یہ دنیا میں نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہے بروز قیامت اللہ کے قریب ہوں گے۔ اللہ کی محفل میں اللہ کے قریب ان کی سیٹ مخصوص ہوگی۔ پہلی قسم تقوی کہلاتی ہے اور دوسری احسان۔ ایمانی زندگی کی دونوں قسموں کے لیے اخروی نجات کی بشارت ہے۔ پس ہمیں سوچنا چاہیے ہم ان دونوں قسموں میں کہاں ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں